علمی ثقافتی ادارے اور بدشگنیاں
کسی ادارے کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات ہوتی ہے تو ہمارا ماتھا ٹھنکتا ہے کہ کہیں اس ادارے کی بھی باری تو نہیں آ گئی۔
KARACHI:
ابھی کسی پچھلے ہمارے کالم میں چلتے چلتے ہم نے مقتدرہ قومی زبان کا بھی حوالہ دیدیا تھا جواب مقتدرہ قومی زبان نہیں ہے۔ اس نے بیٹھے بٹھائے اپنا نام ہی بدل لیا ہے۔ ارے یہی تو ہم نے لکھا تھا کہ ہمارے ڈاکٹر انوار احمد اپنے مختصر دور میں ادارے کا نام بدلوا کر خود تو رخصت ہو گئے۔ ہم مشکل میں ہیں کہ اب اسے کس نام سے یاد کریں۔ نیا نام یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں۔ اس پر انوار احمد کو بہت غصہ آیا۔ بہرحال خط میں جو معاملہ کی بات لکھی ہے وہ ہم نقل کیے دیتے ہیں۔
''آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ادارے کے نام کی تبدیلی اور اس کی انتظامی حیثیت (ایک ان گھڑ وزارت کی تحویل میں دیا جانا) وہ سفارش ہے جو طاقتور بیورو کریسی کے ایما پر میرے آنے سے بھی پہلے مقتدرہ قومی زبان کا بی' او' جی ہمارے آپ کے مشترکہ دوست افتخار عارف صاحب کی صدارت میں کر چکا تھا۔ میں نے تو اس عمل کے خلاف مزاحمت کی اور پنشن کی خاطر اس طرح کے آرزو مند ملازمین کے لیے ڈیڑھ کروڑ کی گرانٹ سابق وزیراعظم سے لے آیا''۔ مزید لکھتے ہیں ''قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور دیگر اصحاب اقتدار تک اپنا تحریری احتجاج پہنچایا۔ مگر حکومتی ارکان کی ترجیحات میں ایسے اداروں کی علمی یا فکری خود مختاری کا سوال شامل نہیں۔ مجھے یہاں چالیس سے زائد ان کتب کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں جن میں تراجم' فرہنگ' لغات' اور دیگر تدوین کا کام بھی شامل ہے اور جنھیں وسائل کی کم یابی کے باوجود اپنے ساتھیوں کی مدد سے 18 ماہ میں شایع کیا''۔
یہ سب بجا۔ نام کی تبدیلی بیشک بیورو کریسی ہی کی کارستانی ہو گی۔ مگر وہ تو اپنا کام پردے میں بیٹھ کر کرتی ہے۔ طویلے کی بلا بندر کے سر۔ لوگ تو ادارے کے چیئرمین کو جانتے ہیں۔ اسی پر انگلی اٹھائیں گے۔ اگر افتخار عارف اس وقت چیئرمین ہوتے تو یہ بلا ان کے سر جاتی۔ یعنی بندر انھیں بننا تھا۔ مگر شومیٔ قسمت کہ یہ کام انوار احمد کے دور میں ہوا۔ سو یہ بلا انھی کے سر جانی تھی۔ انھوں نے وضاحت کی اچھا کیا گیند افتخار عارف کی طرف لڑھکا دی۔ یہ بھی اچھا کیا۔ ان کا نام تو آسانی سے لیا جا سکتا ہے۔ متعلقہ بیورو کریٹ کا نام لینے میں سو طرح کی قباحتیں تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افتخار عارف طویلے کی بلا طویلے کو کس طرح لوٹاتے ہیں۔
ہماری سنئے' آخر میں طویلے اور بندر کے بیچ میں پڑ کر کتنی رکعت کا ثواب ملا۔ اصل میں جب ہم نے سنا کہ مقتدرہ قومی زبان کا نام بدلا گیا تو ہماری بائیں آنکھ نے پھڑکنا شروع کر دیا۔ ہم نے سوچا کہ یہ تو بدشگنی ہو گی۔ صاحبو معاملہ یہ ہے کہ اس ملک میں جو لشتم پشتم گنتی کے علمی ادبی ثقافتی ادارے قائم ہو گئے ہیں وہ اغیار کی نظروں میں کھٹکتے رہتے ہیں۔ کئی ایک باری باری کسی نہ کسی بہانے بند ہو چکے ہیں۔ سو کسی ادارے کے بارے میں کوئی ذرا سی بھی بدشگنی ہو جائے تو ہمیں کوئی وسوسہ ستانے لگتا ہے۔ ادارے کے نام کی تبدیلی بھی بدشگنیوں ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ ہمیں یہ وسوسہ ستانے لگتا ہے کہ نام ایک مرتبہ بدلا ہے تو آ گے چل کر پھر بدلے گا اور پھر بدلے گا اور بدلتے بدلتے ادارے ہی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس کی ایک مثال سن لیجیے۔
وہ ایوب خان کا زمانہ تھا۔ ایک ادارہ پاکستان کونسل (بروزن برٹش کونسل) کے نام سے بڑے اہتمام سے قائم ہوا۔ لاہور میں جسٹس کارنیلیس نے اس کا افتتاح کیا۔ بتایا گیا کہ یہ برٹش کونسل کی طرز کا ادارہ ہو گا۔ اس کی شاخیں مختلف ملکوں میں قائم ہوں گی اور ویسے ہی فرائض انجام دیں گی جیسے برٹش کونسل کی بیرونی شاخیں انجام دیتی ہیں خیر ویسا ادارہ تو اسے کیا بننا تھا۔ مگر ملک کے اندر اچھے خاصے برسوں تک ایک تہذیبی ادارے کے طور پر خاصا سرگرم رہا۔ مگر تھوڑے ہی سالوں کے بعد اس کے نام میں اضافہ ہوا۔ اب اس کا نام رکھا گیا پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی۔ سارا زور تھا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان قومی یکجہتی پر۔ خیر خیال تو اچھا ہی تھا۔ کس حد تک اس خیال نے عملی جامہ پہنا یہ الگ بات ہے۔
جب مشرقی پاکستان کی کایا کلپ ہوئی اور وہ بنگلہ دیش بن گیا تو ادھر پاکستانی کونسل برائے قومی یکجہتی بھی دم بریدہ ہو کر پھر سے پاکستان کونسل بن گئی۔ مگر معاملہ یہاں آ کر تھما نہیں۔ نام پھر بدلا گیا۔ پاکستان کونسل ختم۔ اب اس کا نام پاکستان سینٹر ہو گیا۔ نام کی اس تبدیلی سے کیا مطلوب تھا۔ اس کا پتہ نہ چلا۔ مگر پھر کیا ہوا جب ارباب بست و کشاد اس ادارے کا نام بدلتے بدلتے تھک گئے تو۔
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
چونکہ یہ ادارہ برٹش کونسل کی ریس میں بنایا گیا تھا تو اسے لائبریری کا اہتمام کرنا بھی ضرور تھا۔ خیر برٹش کونسل تو لاہور میں ہمارے ٹی ہاؤس کے عین مقابل چارٹرڈ بینک والی عمارت میں لمبے عرصے تک مقیم رہی تھی ۔ اس لیے اس کی لائبریری تو ہماری دیکھی بھالی تھی۔ ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے مطالعہ کے دھنی دانشوروں اور آس پاس کے کالجوں کے پروفیسروں کا مرجع تھی۔ لاہور کی پاکستان کونسل ثم پاکستان سینٹر کی لائبریری اس مرتبہ کی تو نہیں تھی۔ پھر بھی اچھی خاصی تھی۔ جب پاکستان سینٹر اجڑا تو اس لائبریری کا کوئی والی وارث نہ رہا۔ جس کا بس چلا اس نے یہاں کی کتابوں پر ہاتھ صاف کیا۔
ہاں ایک ادارہ پاکستان بک کونسل بھی تو ہوا کرتا تھا۔ اس پر کچھ ایسی ہی افتاد پڑی کہ آخر اس کا بھی اجاڑ دینا قرار پایا۔
ادھر اسی دور میں کراچی میں جو اردو لغت بورڈ نام کا ادارہ تھا مشکل سے دو چار ہوا۔ وہاں نئی نئی فہمیدہ ریاض پہنچی تھیں۔ مگر سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ یکایک اس ادارے کا وجود ارباب بست و کشاد کو فالتو نظر آنے لگا۔ فہمیدہ ریاض تو اب وہاں نہیں ہیں۔ ادارہ اب کس حال میں ہے' ہمیں دیر سے اس کی کوئی خبر نہیں ملی۔ ہاں ادھر ناپا نام کا ادارہ تھیٹر کے نام بہت سرگرم نظر آ رہا تھا۔ اچانک اس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ یہ ادارہ ہندو جم خانے کی عمارت میں شاد آباد چلا آ رہا تھا۔ نوٹس ملا کہ: عمارت خالی کرو' کہیں اور ٹھکانہ تلاش کرو۔ سو ناپا گھر سے بے گھر ہونے لگا تھا اس صورت میں اسے اپنا انجام نظر آ رہا تھا۔ وہ تو یہ کہئے کہ ضیاء محی الدین اور ان کے رفقا نے جھکنے سے انکار کیا اور کسی نہ کسی طور اس وار کو خالی کر دیا اور ادارے کو اجڑنے سے بچا لیا۔
سو پاکستان میں علمی ادبی ثقافتی اداروں کے لیے فضا کچھ ایسی سازگار نہیں ہے۔ سو جب کسی ادارے کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات ہوتی ہے تو ہمارا ماتھا ٹھنکتا ہے کہ کہیں اس ادارے کی بھی باری تو نہیں آ گئی۔ ادارے کا جب بیٹھے بٹھائے نام بدلتا ہے تو یہ اس کے لیے کوئی اچھا شگن نہیں ہوتا۔ ہاں ادارے کا سربراہ جلدی جلدی بدلے تو یہ بھی کوئی نیک فال نہیں ہے۔ اور ادارے کا سربراہ رخصت ہو جائے اور کرسی لمبے عرصے تک خالی پڑے رہے جیسے اکیڈیمی آف لیٹرز کے ساتھ ہوا تھا تو پھر اس ادارے کے لیے سو طرح کے خطرے پیدا ہو جاتے ہیں۔