خلیج میں مزید خلیج

اس وقت دنیا میں کرنسی کی قیمت سب سے زیادہ قطرکی ہے


Zuber Rehman July 20, 2017
[email protected]

ویسے تو دنیا کے پہلے براعظموں میں سمندری خلیج تھی اور نہ طبقاتی خلیج ، یہ تو بعدکی پیداوار ہیں۔ دنیا ایک ہی تھی ۔ کسی وقت افریقہ اور ایشیا ایک تھے ۔ امریکا اور یورپ ایک تھا اور امریکا افریقہ بھی ،اس طرح سے دنیا میں کوئی سمندری خلیج نہیں تھی ۔ یہ تو قدرتی ہلچل، لاوے کی اگلنے ، زلزلے، برف باری اور برف کے پگھلنے سے دنیا میں درا ڑیں پڑیں اورکئی براعظموں میں تقسیم ہوگئی ۔ مڈا گاسکراور موراشس ہندوستان سے ملتا تھا، بلوچستان جنوبی بھارت سے جا ملتا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح سے طبقات بھی نہیں تھے اور سر حدیں۔ جو جہاں مرضی آجا سکتا تھا۔

جیسے مچھلیاں، پرندے، جانور جہاں چا ہیں جاسکتے ہیں، ان کے لیے کوئی سرحدوں کی پابندی ہے اور نہ کوئی ویزا۔ دنیا کی ساری پیداوار یعنی آبی وسائل اورجنگلات کی کو ئی نجی ملکیت نہیں تھی ۔ جو جہاں سے چاہے شکارکرے یا پھل توڑکرکھائے ، یہ سب کی ملکیت تھی ۔ ان کا کام یہ تھا کہ درختوں سے پھل توڑیں، پانی سے مچھلیاں پکڑیں اورجنگلات سے پرندوں اورجانوروں کا شکارکریں ، مگر طبقات کے وجود میں آنے سے تیرا اور میرا ، قتل وغارت گری اور وسائل پر قبضے شروع ہوگئے ۔ عالم عرب میں بھی پہلے کوئی خلیج نہ تھا ۔ مل کر پیداوارکرتے تھے اور مل کرکھاتے تھے۔ بعد میں یہاں بھی طبقات کی وجود میں آنے سے خلیج پیدا ہوئی۔ یہ خلیج تیل کی پیداوار سے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی۔

پہلے تو یہ جھگڑا چلتا رہا کہ یہ خلیج ، خلیج فارس ہے یا خلیج عرب ۔پھر برطانوی بہروپیا لارنس آٖٖف عربیہ نے عرب سرزمین پر قبضہ جما کر اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ۔ جہاں جہاں تیل نکلتا تھا انھیں چھوٹے حصوں میں اور جہاں تیل نہیں نکلتا تھا انھیں بڑے حصوں میں تقسیم کردیا ۔ پھر ان میں تضادات شروع ہو گئے ۔ ایک عرصے کے بعد ان میں امریکی سامراج نے اپنے مفادات کے لیے اتحاد کروایا اورعرب امارات کے نام سے ایک کونسل بنا دی ۔ ادھر ایران ، عراق، ترکی اور پاکستان سامرا جی اشاروں پر بغداد پیکٹ ،آر سی ڈی ، سینٹو اور سیاٹو کی تشکیل دی ۔اس خطے میں شاہ سعود اور شاہ ایران کا راج تھا ۔ بعد میں الجزائر، مصر، شام ، لیبیا، تیونس میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا اور تیل کی دولت کو قومیا لیا گیا۔

سب سے بڑی تبدیلی عراق اور ایران میں آئی ۔ عراق میں عبدالکریم کی سربراہی میں اورکمیونسٹ پارٹی آف عراق کی حمایت میں عراق کی بادشاہت کا خاتمہ کرکے انقلابی تبدیلی لا ئی گئی ۔ بعد ازاں فو جی آ مر نے اسے رد انقلاب میں تبدیل کردیا ۔ اسی طرح ایران میں رضا شاہ پہلوی کی ڈھائی ہزارسال کی بادشاہت کوکمیونسٹ پارٹی آف ایران اور دیگر بائیں بازوکی پارٹیوں نے اکھاڑ پھینکا مگر بعد ازاں خمینی حکومت نے اقتدار پر قبضہ جما لیا اور پچاس ہزار سے زائد کمیونسٹ پارٹی ، مسعود رجاوی کی اسلامک مارکسسٹ پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو منشیات فروش کہہ کر پھانسی پہ لٹکایا گیا ۔اس وقت خلیجی ممالک میں مزید دھڑے بندیاں ہوئی ہیں ۔ایک دھڑے کی سربراہی سعودی عرب کرتا ہے جنھیں امریکی اور برطانوی سامراج کی سر پرستی حاصل ہے جب کہ دوسرے دھڑے کی سربراہی ایران کرتا ہے، ان کی سر پرستی روسی اور چینی سامراج کرتے ہیں ۔ آج کل قطر ایرانی دھڑے میں شامل ہوگیا ہے۔

عرب بادشاہتوں میں قطر میں صحافت کی آزادی ہے ، خواتین پر سعودی عرب کی طرح قدغن نہیں ہے۔ وہ گاڑی چلاسکتی ہیں ، بغیر برقعے کے آزادانہ گھوم پھرسکتی ہیں، اظہار رائے اور سوچ پر پابندی نہیں ہے ۔اس کے باوجود وہاں دس ہزار امریکی فوج موجود ہے ، ابھی حال ہی میں دس ارب ڈالرکا قطر نے امریکا سے دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا ہے ۔ سعودی عرب نے تو امریکا سے ایک سو دس ارب ڈالرکا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے ۔ جب بحرین میں عوام انقلابی جدوجہد کررہے تھے اس وقت ایران کا ایک وفد بحرین گیا تھا اور ان سے مذاکرات کیے۔

جس پر انقلابیوں نے ایرانیوں سے بر ملا کہا کہ '' ہم شیعہ ہیں اور نہ سنی ، ہم بادشاہت کے خلاف لڑرہے ہیں'' ، اسی طرح سے سعودی عرب خلیجی ملکوں پر اپنا مسلک مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ ابھی حال ہی میں جب سعودی اتحاد کے اجلاس میںسعودی عرب نے ایران کا کاؤنٹر کرنے کی بات کی تو پاکستان نے اس موقف سے اختلاف کیا۔ درحقیقت اس خطے کے تیل کی لوٹ میں سامراجی دست وگربیاں ہیں ۔امریکا سعودی عرب سے اور چین ایران سے تیل کی لوٹ میں قتل غارت گری کروا رہے ہیں ۔ جس طرح عالمی طور پہ سامراج کے دو مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح خلیجی ملکوں میں بھی دو مرکز بنے ہوئے ہیں ۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ بھی نوآبادیات پر قبضے کے لیے ہوئی تھی ۔اس وقت بھی ایسا ہی منظرنامہ بننے جارہا ہے۔

سعودی عرب، عرب امارات اور بحرین میں کمیونسٹ پارٹیوں پر پابندی ہے تو ایران میں بھی تودہ کمیو نسٹ پارٹی اور دیگر بائیں بازوکی پارٹیوں پر پابندی ہے ، جب کہ تیونس، عراق، شام ،اردن اورکویت میں پا بندی نہیں ہے ۔اب امریکا،کویت اور اردن سعودی اور قطری اختلاف کو پاٹنے کے لیے دوڑ دھوپ میں لگے ہو ئے ہیں مگر اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا ہے َ۔اس میں مفادات کا مسئلہ ہے ۔ایران اورقطرکے مشترکہ سمندری ساحل پہ گیس کے ذخائر ہیں، ترکی اور ایران قطرکو ہر قسم کی معاونت کررہے ہیں۔

اس وقت دنیا میں کرنسی کی قیمت سب سے زیادہ قطرکی ہے،اس لیے قطرکو جھکانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ الجزیرہ ایک ایسا ٹی وی چینل ہے جو یورپ کے بہت سے ٹی وی چینلوں سے زیادہ مقبولیت اورآزاد کہلاتا ہے، قطر ان نیک نامی کو آسانی سے خیر باد نہیں کہہ سکتا ہے ۔ بہرحال اس تمام صورتحال میں خلیجی ملکوں کی کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیاں اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ تیونس، عراق، لیبیا، شام ، بحرین اور سعودی عرب میں محنت کش عوام اپنے حقوق کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں ۔ سعودی عرب کے اساتذہ ، لیبیا کے طلبہ، تیونس کی پیداواری قوتیں ، عراق کی کمیونسٹ پارٹی، لبنان کی کمیونسٹ پارٹی اور بحرین کے ڈاکٹرز اور نرسز اپنے حقوق کے لیے ہمہ گیر جدوجہد کررہے ہیں ۔ وہ د ن دور نہیں جب خلیجی ممالک کے عوام اپنے تمام خلیج کو رد کرتے ہوئے ایک ایسا کمیونسٹ انقلاب برپا کریں گے جہاں ملکوں کی سرحدیں ، طبقات، ملکیت، جائیدادکا خاتمہ ہوجائے گا اور عوام اپنے تمام اختلافات ختم کرکے ایک ہو جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں