خوشی غیر مشروط ہے
بری عادات، خودساختہ، دہرائی جانے والی اور لاشعوری ہوتی ہیں
خریداری نہ فقط مشغلہ ہے بلکہ زندگی کی اہم ضرورت بھی۔ زندگی تبدیلی کا نام ہے اور خریداری اس تبدیلی کے عمل کا اہم جزو۔ لہٰذا یکسانیت کا ستایا ہوا شخص بازارکا رخ کرکے اپنے اندر نیا پن محسوس کرتا ہے۔ آج کل شاپنگ ضرورت سے زیادہ کریز بن گئی ہے۔ دنیا کے معاشی حالات مستقل تبدیلی کے زیر اثر ہیں۔ سمجھدار قومیں زیادہ سے زیادہ خرچہ صحت مند غذا، گھر اور تفریح پر کرتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں محض دکھاوے اور بناوٹ پر بے انداز پیسہ ضایع کیا جاتا ہے۔
پاکستان 190 ملین آبادی پر مشتمل دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ چند سالوں میں مڈل کلاس کا ابھرنا، شہروں کی طرف منتقلی اور ملازمت میں خواتین کی شرح کا بڑھنا جدت کی علامت بنا ہے اور خریداری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ آن لائن خریداری کی سہولت نے گھر بیٹھے اشیا کا حصول آسان بنادیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 40 ملین آبادی پر مشتمل متوسط طبقہ ابھرنے کے باعث قوت خریداری میں 20 فیصد Per Annum اضافہ ہوا ہے۔ یہ شرح اشیا کے مقابلے میں دو گنی ہے۔ 2016 میں پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی 4.5 فیصد رہی۔ گلوبل ولیج کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں پاکستان اٹھارہویں نمبر پر بڑا ملک تھا، جہاں 6.27 ملین صارفین نے خریداری کی۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام سمجھدار ہے اور کھانے پینے کے سلسلے اعتدال سے جڑے ہوئے ہیں۔ تو ملک کی معیشت کا توازن بھی برقرار رہتا ہے۔ ہمارے ملک نے توازن 2014-15 ہی میں 15,000 ملین ٹن چائے درآمد کی۔ 85 بلین سگریٹ ہر سال استعمال کیے جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جس میں 23 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ باہر اٹھارہ سال سے پہلے نوجوان سگریٹ نہیں خرید سکتے۔ مگر ہمارے ملک میں ایسا کوئی قانون ترتیب نہیں دیا گیا۔ لوگ پان، چھالیہ، گٹکا بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں جن میں زہریلا کیمیکل شامل ہوتا ہے۔
ہم زیادہ تر پیسہ کپڑوں، موبائلز اور پرتعیش اشیا پر صرف کرتے ہیں۔ فلاحی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ ملک کے کارآمد شہری بن سکیں۔ دوسری صورت میں بے روزگاری اور غربت جرائم کی شرح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ فلاحی کام سماج کی اخلاقی قدروں کی مضبوطی اور ذہنی پختگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لہٰذا ترقی یافتہ قومیں خریداری ضرورت کے تحت کرتی ہیں۔ چیزیں ضرورت مندوں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔
زندگی گزارنا ایک فن ہے۔ خوشی، مشروط یا اشیا کی خریداری وخواہشوں کی تکمیل کا نام نہیں ہے۔ زندگی کا کینوس بہت وسیع ہے۔ وقت کی مناسب ترتیب اورصحیح استعمال، بجٹ کو منطقی بنیاد پر وضع کرنا اور رابطوں کو فعال رکھنے کی کوشش، زندگی گزارنے کے سنہری اصول کہلاتے ہیں، مگر ہمارے ہاں صورتحال برعکس ہے۔ یہاں خوشی مشروط اور عارضی ہے۔ یہ خوشیاں خودنمائی پر مبنی ہیں۔ بازار اور مالز تفریح کا ذریعہ جب کہ باغات ویران دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کی تمام تر جدوجہد کا مرکز ذاتی مفاد ہے۔ خوشی و آسودگی قوت خرید اور آسائشوں پر منحصر ہیں۔ ساؤتھ ایشیا کے ممالک ہوں یا ترقی یافتہ قومیں، آپ کو مالز عام دنوں میں خالی دکھائی دیں گے۔ لوگ اکثر کم ہی خریداری کرتے ہیں۔ ویک اینڈز پر بازار کے بجائے تفریحی مقامات پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ چین، جاپان، سری لنکا، تھائی لینڈ وغیرہ میں خاندانی نظام مضبوط، بچے و نوجوان منظم اور خواتین حقیقت پسند، محنتی اور سادہ ہیں۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ صارف کو خریداری ذہنی دباؤ سے نجات دلاتی ہے۔ اچھا لباس اور استعمال کی معیاری اشیا خود اعتمادی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کو ابتدا سے خریداری کے بہتر انتخاب کا سلیقہ سکھانا چاہیے۔ زیادہ خریداری کے خبط کی ایک وجہ ڈپریشن بھی ہے۔ جس کی وجہ سے وقت کی ترتیب متاثر ہوتی ہے اور گھر کے کام کاج وقت پر نہیں ہوپاتے۔ خریداری کے جنوں کو Compulsive Buying (لازمی خریداری) کہا جاتا ہے۔ ماہرین جس کی وجہ ڈپریشن، اینگزائٹی، خود رحمی، احساس کمتری اور کاملیت پسندی بتاتے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کا علاج، مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے متاثرہ افراد کو ذات کی سمجھ کے طریقے سمجھائے جاتے ہیں۔ تاکہ مسئلے کی نوعیت اور نزاکت کو سمجھا جائے۔ عادات۔ مزاج رجحان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مایوسی و بے زاری کے محرکات کو پرکھنا پڑتا ہے، جو مختلف ناپسندیدہ عادات کی وجہ بنتے ہیں۔
بری عادات، خودساختہ، دہرائی جانے والی اور لاشعوری ہوتی ہیں۔ جس کے لیے انسانی شعور کو متحرک کرنا پڑتا ہے۔ یہ Conciousness (آگہی) یا جسے Witness State(مشاہداتی حالت) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ طریقے عادات سے پیچھا چھڑانے میں کامیابی عطا کرتے ہیں۔ اسی دوران اسباب کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ آخر وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں۔ کوئی بھی شخص جان بوجھ کے اپنا نقصان نہیں کرتا۔ لہٰذا لاشعوری سوچ اور کیفیات کو سمجھنا لازمی ہوجاتا ہے۔ ذاتی سمجھ کا دائرہ وسیع ہونے کے بعد عادات کا پس منظر سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ مسئلے کی نشاندہی کے بعد حل بھی مل جاتا ہے۔ ہم مسائل کی تکرار میں حل نہیں ڈھونڈ پاتے۔
خریداری کا اصول ہے کہ اشیا مہنگی ہوں تو خریداری سے گریز کرنا چاہیے۔ صارفین کا اخلاقی معیار اور متحد ہونا ضروری ہے۔ جس کے لیے خریداروں کی تنظیموں کا فعال ہونا لازمی ہے۔ جن کا ہمارے ہاں دور دور تک اتا پتا نہیں ملتا۔ ہر حال میں اشیا مہنگی خریدی جائیں گی۔ ان کے غیر معیاری یا ناقص ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غذا ملاوٹ شدہ اور مضر صحت بھی ہو تو لوگ خریدنے پر مصر رہتے ہیں اور اس امر سے غافل دکھائی دیتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کے نام پر وہ اپنے جسم میں زہر انڈیل رہے ہیں۔ پھلوں کو نقلی مٹھاس کے انجکشن لگائے جا رہے ہیں اور جلدی پکانے کی خاطر زہریلا کیمیکل پھلوں کی پیٹیوں میں رکھ دیا جاتا ہے۔ چکن اورگوشت کے بارے میں بھی آئے دن، خطرناک انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر نہ حکومت نے غذا اور پینے کے پانی کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کی اور نہ ہی عوام نے ان اشیا کو خریدنا ترک کیا۔ بازار میں نقلی، مضر صحت اور ایکسپائرڈ اشیا دستیاب ہیں مگر ان غیر انسانی رویوں کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم اگر ڈیزائنرز کے جال سے باہر نکل آئیں۔ سادہ اور تازہ غذا کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں اور سادگی سے زندگی بسر کریں تو کئی خودساختہ مسائل سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں چیزوں کے صحیح انتخاب کا سلیقہ اور خریداری کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔