نبی کریم ﷺ کا سفرِ طائف

ماہ شوال سن دس ہجری میں پیش آنے والا دل دوز واقعہ


آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش کے دوراہے پر کھڑے تھے۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالی کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ اسلام کی پاداش میں مشکلات، مصائب، تکالیف، آزمائشوں، اذیتوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑا۔ مکہ میں جان لیوا مظالم، جان نثاروں کی مظلومانہ بے بسی اور حبشہ کی جانب ہجرت، شعب ابی طالب کا تین سالہ محاصرہ و مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ ) ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یہاں تک کہ ابولہب اور عقبہ بن ابی معیط کی حکم پر آپؐ کے سر مبارک پر غلاظت انڈیلی گئی۔

انہی دشمنان اسلام کے کہنے پر آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، انہی کے اشارہ ابرو پر کاشانۂ نبویؐ میں برتنوں کو خراب کیا گیا، پکتی ہوئی ہنڈیا کو اوندھا کیا گیا، خدا تعالیٰ کے حلال کردہ رزق میں غلاظت ڈال دی گئی، آپؐ کے جسم مبارک پر اونٹوں کے اوجھ ڈالے گئے، گرد و غبار سے جسم اور لباس مبارک آلودہ کرنے کی ناپاک جسارت بھی کی گئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں یہ صورت حال دیکھ کر دل گیر ہوئیں اور ان کی زبان مبارک سے بد دعائیہ جملے نکلے تو آپؐ نے فرمایا : اے بیٹی دل گیر نہ ہو تیرے باپ کا اللہ خود محافظ ہے۔ گویا ظلم، ستم، اذیت، تکلیف، ذہنی کوفت اور جسمانی تشدد جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی برتاؤ آپؐ سے برتا گیا لیکن ان سب کچھ کے باوجود آپؐ کے صبر و تحمل، عفو و درگزر، ضبط و برداشت اور استقلال میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی اور آج تک تاریخ آپؐ کے رحم و کرم، عزیمت، ثابت قدمی اور فراخی اور حوصلے کی داستانیں سنا رہی ہے۔ جب مکہ کے وحشی ظلم و ستم سے باز نہ آئے تو آپؐ نے طائف کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا۔

طائف مکہ سے تقریباً چالیس میل کے فاصلے پر خوب صورت وادی، زرخیز باغات اور پہاڑوں سے مزین علاقہ ہے۔ مکہ کے سرداروں نے یہاں کوٹھیاں بنا رکھی تھیں، قبیلہ ثقیف یہاں آباد تھا، یہ عرب کا طاقت ور قبیلہ تھا، قریش کی اس قبیلہ سے رشتے داریاں بھی تھیں۔ یہاں تین بھائی عبدیالیل، مسعود اور حبیب اس قبیلے کے سردار تھے۔

بعثت نبویؐ کا 10 واں سال شوال المکرم کا مہینہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فریضۂ تبلیغ کے لیے (غالباً پیدل ) یہاں پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے، دس دن یہاں قیام فرمایا، عوام و خواص کے سامنے دین اسلام پیش کیا، معززین علاقہ کے مکانوں پر تشریف لے گئے اور انہیں دعوت اسلام قبول کرنے کو کہا، لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیا۔

آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کے سرداروں عبدیالیل، مسعود اور حبیب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنے آنے کا مقصد واضح فرمایا۔ لیکن ان بدبختوں کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ انہوں نے آپؐ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بل کہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپؐ کا مذاق اڑایا۔ ایک نے طنز کا نشتر چبھوتے ہوئے کہا : اگر خدا تعالیٰ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کی عزت پامال کر رہا ہے۔ دوسرے نے پھبتی کستے ہوئے کہا : اللہ کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ملا جسے وہ رسول بنا کر بھیجتا۔ تیسرے نے آوازہ کستے ہوئے کہا : اللہ کی قسم! میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا اگر تو واقعی اللہ کا رسول ہے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے تو رسول کی شان یہ نہیں کہ اس سے بحث کی جائے اور اگر تو خدا پر جھوٹ بول رہا ہے تو میری شان یہ نہیں کہ تجھ جیسے جھوٹے سے بات کروں۔ ( نعوذباللہ )

اس کے بعد ان حرماں نصیبوں نے طائف کے اوباشوں اور آوارہ گردوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔ کوئی تالی بجاتا، کوئی سیٹی بجاتا، کوئی جملے کستا، کوئی ہلڑ بازی کرتا، شور، ہڑبونگ اور اودھم مچاتے ہوئے وہ آپؐ کو طائف کی گلیوں میں لے آئے۔ یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے، جب آپؐ کا گزر وہاں سے ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارنا شروع کیے، سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک بل کہ نعلین مبارک تک آپؐ لہولہان ہوگئے اور پنڈلیوں اور گھٹنوں پر گہرے زخم آئے۔

بدن مبارک سے خون مبارک بہتا ہوا قدموں تک پہنچا، قدموں سے رستا ہوا نعلین مبارک تک پہنچ گیا، نعلین اور قدمین آپس میں خون کی وجہ سے چمٹ گئے۔ حضرت زید بن حارثہؓ آپؐ کو بچانے کے لیے کبھی آگے آتے، کبھی دائیں بائیں اور کبھی پیچھے ان کا بھی سر لہولہان ہوگیا۔ پتھروں کے برستی بارش میں کبھی آپؐ بیٹھ جاتے تو طائف والے آپؐ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر دوبارہ کھڑا کر دیتے، چند قدم چلتے پھر بیٹھ جاتے اور وہ دوبارہ آپؐ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے اور پتھر برساتے۔

جب آپؐ بے ہوش کر گر پڑے تو حضرت زید بن حارثہؓ نے آپؐ کو اٹھایا، قریب ہی کچھ پانی تھا وہاں لے گئے تاکہ خون کے دھبے دھوئیں، کچھ دیر بعد طبیعت کچھ سنبھلی تو قریب میں ایک باغ تھا اور انگور کی سایہ دار بیل کے نیچے تھوڑی دیر لیٹ گئے اور معبود برحق کی بارگاہ میں عابد حق پرست بن کر مناجات و دعا میں مشغول ہوگئے۔ آپؐ کے سوز و گداز، تڑپ اور درد اور زخموں کی ٹیس نے نالہ و فریاد میں وہ تاثیر پیدا کی جس سے عرش بریں تک کانپ اٹھا۔ اس موقع پر آپؐ نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی : '' اے اللہ میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں، یہ مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں.

اس کا شکوہ بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں، اے سارے مہربانوں سے زیادہ مہربان۔ اے میرے پروردگار! آپ مجھے کن کے حوالے کر رہے ہیں، جو مجھ سے دور ہیں، جو مجھ سے منہ چڑھا کر بات کرتے ہیں۔ اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں اور اگر مجھ پر تیرا عتاب نہیں تو مجھے کسی بھی بات کی پروا نہیں۔ خداوندا! تیرا تیری عافیت کا دامن بہت وسیع ہے۔ اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو، تجھ ہی کو منانا ہے اور اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہوجائے۔''

یہاں سے اٹھے، قرن الثعالب پہاڑی سامنے تھی، اوپر نظر اٹھائی بادل نے آپؐ پر سایہ کیا ہوا تھا، بادل پر نظر جمائی تو اس میں جبرائیل امینؑ جلوہ افروز تھے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے سن لیا، دیکھ لیا، آپؐ نے جو کچھ فرمایا، انہوں نے جیسا سلوک کیا سب کا سب دیکھ اور سن لیا۔ یہ میرے ساتھ ملک الجبال (پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ ) موجود ہے، آپؐ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔ ملک الجبال نے عرض کی: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے آپؐ جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا آپؐ حکم دیں تو مکہ کی دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش کے دوراہے پر کھڑے تھے، ایک آزمائش اہل طائف نے آپؐ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، دوسری آزمائش کہ جبرائیل امینؑ اور ملک الجبال ان کو پیس ڈالنے کی فرمائش کے منتظر کھڑے ہیں۔ پہلا امتحان تھا صبر و ضبط، تحمل و برداشت اور استقلال کا، دوسرا امتحان تھا دعویٰ رحم و کرم کا۔ فراخی، حوصلہ اور وسعت ظرفی کا۔ اللہ کریم نے آپؐ کو دونوں میں کام یاب فرمایا۔ آپؐ نے فرشتوں کو جواب دیا : اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا، میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں، مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسا ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی توحید کے قائل اور شرک سے بے زار ہوں گے۔

قریب ہی مکہ کے مشہور سردار عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ کا باغ تھا۔ اس وقت یہ دونوں بھائی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے ایک غلام کو انگوروں کے خوشے دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس غلام کا نام عداس تھا اور مذہباً نصرانی تھا۔ وہ آپؐ کے پاس آیا اور انگور پیش کیے۔ آپؐ نے انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو زبان مبارک پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جاری ہوگیا۔

عداس کہنے لگا : یہاں کے لوگ تو الرحمٰن الرحیم نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں کے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نینوا۔ آپؐ نے فرمایا : وہی نینوا جو میرے بھائی حضرت یونس علیہ السلام کا وطن تھا۔ وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگا کہ آپ یونس علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا میرے اور ان کے درمیان نبوت کا رشتہ ہے وہ بھی اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہوں۔ عداس یہ سن کر اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ عداس کے قبول اسلام نے گویا آپؐ کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔ طائف سے واپسی پر جنات کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔

سفر طائف سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات بھی آئیں تو ثابت قدمی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنے چاہییں، تبلیغ کی محنت کا نتیجہ اگر وقتی طور نظر نہ بھی آئے تو بھی اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ محنت کا ثمرکچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرماتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں