سیاسی محاذ آرائی پر قوم تقسیم
جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آتے ہی عمران خان کی لاٹری کھل گئی اور پیپلز پارٹی کو بھی موقعہ مل گیا
گزشتہ ڈھائی ماہ سے سپریم کورٹ کی بنائی گئی جے آئی ٹی ملک بھر میں اور خاص طور پر سیاسی حلقوں میں مرکز نگاہ اور انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے جس کی رپورٹوں نے ملک میں سیاسی انتشار بڑھا دیا ہے اور پوری قوم تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ ملک میں موجود سیاسی انتشارکا کریڈٹ خود عمران خان بلاشبہ لے سکتے ہیں جنھوں نے چار سال سے حکومت کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور ان کے چار سالوں میں دیے گئے دھرنوں، جلسوں، احتجاجی ریلیوں، پریس کانفرنسوں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے سنگین الزامات نے وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو پریشان کر رکھا تھا جس کے بعد عمران خان کے ہاتھ پانامہ لیکس آگئی جس کی تحقیقات جے آئی ٹی نے کی جس کی رپورٹ نے ملک میں سیاسی تہلکہ مچا رکھا ہے۔
اپوزیشن کے مطابق حکمرانوں کے لیے اخلاقی طور پر استعفے کا موقعہ سپریم کورٹ کی بنائی گئی جے آئی ٹی کے اعلان کے وقت تھا اور دو ماہ تک جے آئی ٹی کی جو تحقیقات ہوتی رہیں اس عرصے میں عمران خان جے آئی ٹی کے سرپرست بن کر ابھرے تو سرکاری حلقوں اور مسلم لیگ (ن) نے بھی جے آئی ٹی پر الزامات لگانا شروع کیے جس کی تائید بعض نامور وکلا اور سیاستدانوں نے بھی کی۔ جس کے نتیجے میں جے آئی ٹی متنازعہ ہوگئی کیونکہ شروع ہی میں جے آئی ٹی اپنی غیر جانبداری برقرار نہ رکھ سکی اور اس کے بعض اقدامات نے مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامیوں کو تنقید کا موقعہ فراہم کردیا تھا اور دو ماہ بعد جے آئی ٹی نے جو رپورٹ دی اسے وزیر اعظم، مسلم لیگ (ن) اور ان کے حامیوں نے مسترد کردیا ہے اور مزاحمت کی بجائے سپریم کورٹ میں عدالتی کارروائی کا اعلان کیا ہے جو قابل ستائش اور ان کا آئینی حق ہے اور فیصلہ آخر سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آتے ہی عمران خان کی لاٹری کھل گئی اور پیپلز پارٹی کو بھی موقعہ مل گیا جوحکومت سے مستعفی ہونے کے مطالبے کر رہی ہے جس کی حمایت جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور نواز شریف کی مخالف پارٹیاں کر رہی ہیں جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی، اے این پی، پختون خواہ ملی پارٹی اور نواز شریف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ پی ٹی آئی میں شامل بابر اعوان نے تو کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی کو اب نیا وزیر اعظم نہیں نئے عام انتخابات چاہئیں اور پی ٹی آئی اب نواز شریف کے استعفے کے ساتھ ملک میں قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کرنے لگی ہے جس کی تائید پیپلز پارٹی بھی نہیں کر رہی اور پی پی کا مطالبہ ہے کہ نواز شریف خود مستعفی ہوکر اپنی پارٹی کے کسی اور رہنما کو اپنی جگہ وزیر اعظم بنادیں جو مدت پوری کرے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے 5 سال مکمل ہونے کے بعد ہی عام انتخابات ہوں۔
بابر اعوان نے پارٹی پالیسی سے بالاتر ہوکر نئے انتخابات کا جو مطالبہ کیا وہ عمران خان کے تو دل کی آواز ہے مگر دوسری پارٹیاں ایسا نہیں چاہتیں اس لیے پی ٹی آئی کو پسپا ہونا پڑا اور انھیں اب بھی 2018 تک انتظار کرنا پڑے گا اور انتخابات 2018 میں ہی ہونے چاہئیں۔
پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں میں بعض میڈیا پر روزانہ نظر آنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔ عمران خان واحد قومی اور شیخ رشید علاقائی رہنما ہیں کو روزانہ میڈیا پر آنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ عمران خان کو غیر سیاسی پروگرام میں بھی پانامہ، جے آئی ٹی اور شریف برادران یاد رہتے ہیں اور اب انھیں شریف خاندان کا پورا ٹبر کرپشن میں نظر آگیا ہے اور نئی نسل پوچھتی ہے کہ '' ٹبر'' کیا ہوتا ہے ۔
ملک میں ہر جگہ پانامہ، جے آئی ٹی کا تذکرہ عام ہے اور ہیرڈریسرز کی دکانوں میں جہاں سیاسی بات نہ کرنے کا بھی لکھا ہوتا ہے مگر وہاں بھی پانامہ، جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے تذکرے عام ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپریل میں جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا تھا اس پر ہر شخص سیاسی رہنما و کارکن اور وکلا حضرات بھی اپنی اپنی مرضی کی رائے دے رہے ہیں۔ بعض نامور وکلا کے خیال میں جے آئی ٹی کے قیام کا فیصلہ غلط اور بعض درست قرار دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی سے انکوائری کے بعد خود فیصلہ کرنا ہے مگر عمران خان اور شیخ رشید سپریم کورٹ سے بالا ہوکر اپنا فیصلہ کئی بار سنا چکے ہیں کہ نواز شریف ہی نہیں ان کا پورا خاندان مجرم ہے جب کہ یہ فیصلہ ابھی سپریم کورٹ میں ہونا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ پر میڈیا، وکلا حضرات، سیاستدان، تاجر اور عام لوگ بھی تقسیم ہوچکے ہیں اور عالمی میڈیا نے بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔ پانامہ پر قوم کی رائے بھی الگ الگ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر جج حضرات وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ دے چکے اور تین مزید انکوائری چاہتے تھے جو اب مکمل ہوچکی ہے اور ملک کے اس اہم ترین معاملے پر پوری قوم ہی نہیں دنیا بھر کی نظریں مرکوز ہیں۔
دوسرے ملکوں میں تو وقت کے حکمرانوں اور سابق حکمرانوں کے خلاف تحقیقات اور فیصلے معمول کی بات ہیں مگر پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ برسر اقتدار وزیر اعظم کے خلاف دو سینئر ججوں اور جے آئی ٹی نے فیصلہ دے دیا ہے جس کا مکمل اور تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی جو تاریخ ساز ہوگا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمانی کمیٹی اور اپنی کابینہ کے اجلاس میں خود کو پاک صاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھ پر اور شہباز شریف کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے جب کہ شہباز شریف اپنے بھائی کی دیانت کی قسم اٹھانے کو تیار ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ مجھے میری کرپشن کا تو بتایا جائے جب کہ ان کے مخالفین سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔
اے این پی رہنما کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل وزیر اعظم کا استعفیٰ جرم قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔ وزیر اعظم اور ان کے حلیفوں کو ایوان میں اپنی اکثریت اور عوام سے ملنے والے بڑی تعداد کے ووٹوں پر ناز ہے کہ انھوں نے اپوزیشن سے زیادہ ووٹ لیے تھے تو مقررہ مدت سے قبل کیوں الیکشن کرائیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل کیوں استعفیٰ دیں مگر اپوزیشن میں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور (ق) لیگ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اخلاقی اقدار کے تحت استعفیٰ دیں اور کسی اور کو وزیر اعظم بنا دیں۔
اپوزیشن جس اخلاقی اقدار پر وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ رہی ہے وہ اخلاقی اقدار بیرونی دنیا میں تو ہے مگر 70 سال میں ایسی ایک بھی اخلاقی قدر کبھی پاکستان کی کسی حکومت یا حکمران میں تو نظر نہیں آئی کہ وہ الزام لگنے پر مستعفی ہوجائیں۔ یہاں تو کرپشن میں ڈوبے اور الزامات سے داغدار کسی بھی ذمے دار نے استعفیٰ نہیں دیا کہ وہ کوئی اچھی مثال بھی قائم کرجاتے، یہاں تو اقتدار کرپشن کے لیے حاصل کیا جاتا ہے مگر پکڑا کوئی نہیں جاتا بلکہ خود کرپٹ ہوتے ہوئے دوسرے کو کرپٹ کہا جاتا رہا ہے کہ ہماری کرپشن کا تو کوئی ثبوت ہے ہی نہیں۔