سیاسی اکھاڑ پچھاڑ
حالات بدلنے پر وزیروں، مشیروں سے مشورہ کیے بغیر خفیہ معاہدہ کرکے اپنی جان بچا لی جاتی ہے
شیر، ریچھ، چیتا اور بھیڑیا، چاروں شکار کی جستجو میں تھے، سب نے صلاح کی، آؤ چاروں مل کر دریا کی ترائی میں شکار کریں، جو شکار ملے گا چاروں برابر کے حصے بانٹ لیں گے۔ ایک نیل گائے کو مارا اور عہدوپیمان کے مطابق برابرکے چار حصے کیے۔
قریب تھا کہ ہر ایک اپنا اپنا حصہ لے، اتنے میں شیر نے کہا، سنو بھائیو یہ ایک حصہ قول و قرار کی رو سے میرا ہے اور دوسرے حصے کا میں اس واسطے دعوے دار ہوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، کہیں شکار ہو مجھے چہارم بطور خراج ملتا ہے، تیسرا حصہ میں اس وجہ سے لوں گا کہ اس میں دل و جگر ہے، جیسا کہ تم سب کو معلوم ہے میری پسندیدہ غذ ا ہے، رہا چوتھا حصہ سو میں تم تینوں میں کیوں تقسیم کروں، اس سے بہتر ہے میں ہی کھالوں۔ یہ کہہ کر وہ چاروں حصے چٹ کرگیا۔ کھاتے وقت تو تمام اصول کہہ رہے تھے کہ کھا جاؤ، کسی وعدے وعید، اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں تھی، مگر جب کھائے پیے کو پکڑا جاتا ہے تو واویلا شروع ہوجاتا ہے۔
ایک شخص کی اس کے دوست نے دو افراد کی دعوت کی، وہ پورا ٹبر لے کر چلے گئے، یہ دیکھ کر دوست کو بڑا غصہ آیا، طنزیہ پوچھا، حیا نہیں آئی۔ اس شخص نے کہا اس کو بخار تھا اس لیے نہیں آئی۔ تو یہی حال ہم سب کا ہے، کام خود غلط کریں گے اور جوابات ایسے سادگی سے دیں گے کہ بندہ بے بس ہوجائے۔ کافی دن سے جے آئی ٹی پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر جے آئی ٹی کے لوگ اتنے ہی جانبدار تھے تو ان کے سامنے پیش ہی نہیں ہونا چاہیے تھا، بلکہ ان کا سارا کچا چٹھا قوم کے سامنے رکھ دینا تھا، اب واویلا کرنا بیکار ہے۔
قوم کو ایسے لیڈروں کی ضرورت نہیں جو ملک وقوم کے مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کو ترجیح دیں اور یہ ہی راگ الاپتے رہیں کہ ملک و قوم کی خاطر منصوبے بنانے کی سزا مل رہی ہے، سی پیک کی وجہ سے ہمارے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہے۔ اگر ملک و قوم کا اتنا ہی خیال مدنظر ہوتا تو ملک کے مفاد کو ترجیح دی جاتی۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ عوام بھارت سے جنگ نہیں چاہتے، مگر یہ بھی نہیں چاہتے کہ تعلقات عزت و خودداری کا سودا کرکے بحال ہوں۔ مودی جیسا جو شخص پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہو، سرحدوں پر سیکڑوں فوجی اور سویلین جام شہادت صرف مودی کے سفاکانہ رویے کی وجہ سے نوش کرچکے ہوں، وہ مودی پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ آپ کیسے کشمیر کا موقف دبنگ انداز میں بیان کرسکتے ہیں، آپ کے تو کاروبار بیرون ملک استوار ہیں۔ قوم بہت سے سوالات کے جواب مانگنے میں حق بجانب ہے۔
ایک طرف یہ حکمران ہیں جو دشمن کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، دوسری طرف عوام کو مسائل میں الجھانے میں پیش پیش ہیں۔ آج مہنگائی، لوڈشیڈنگ، یوٹیلٹی بلز، بجلی کے ناجائز بلوں نے عوام کو بے حال کر رکھا ہے۔ قوم پر مہنگائی کا عذاب مسلط کرکے یہ حکمراں طبقہ کس جمہوریت کی بات کرتا ہے ، کون سی سازش بے نقاب کرنے کا عندیہ ظاہر کرتا ہے۔ اگر ایک خاندان کے خلاف چارہ جوئی کا ہونا پورے جمہوری نظام کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے تو پھر سات سلام ایسی جمہوریت کو۔ یہ جمہوریت تو آمریت سے بھی بدتر ہے۔
آمریت اپنے چہرے پر دو رخ چڑھا کر عوام کے سامنے نہیں آتی، آج جب عوام سے جمہوریت اور آمریت کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ فوجی حکومتوں کی کارکردگی کو بہتر قرار دیں گے۔ دور کیوں جائیں، مشرف کے دور میں آٹا سولہ روپے اور اس جمہوری حکومت میں بیالیس روپے ہے۔ پیٹ میں روٹی نہ ہو، تن پر کپڑا نہ ہو اور رہنے کو جگہ نہ ہو، تب جہموریت آمریت کچھ نہیں سوجھتا، سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں۔
اپنی سیکیورٹی پر عوام کے پیسوں سے اربوں کھربوں خرچ کرنے والوں نے عوام کو ڈاکوؤں، لٹیروں، چوروں، دہشت گردوں کے حوالے کردیا ہے، جو ان سے بچ گئے، ان کے لیے مہنگائی پیکیج موجود ہے۔ اس لیے ہی خودکشی کا رحجان بڑھ رہا ہے، نفسیاتی امراض میں اضافہ ہورہا ہے، کیوں کہ غریبوں کے لیے صرف یہی رہ گیا ہے کہ وہ دو وقت روٹی کے چکر میں پڑے رہیں، بجلی کے بلوں کی فکرکرتے رہیں، بچو ں کی تعلیم، صحت اور تعیشات کا تو زندگی میں کوئی گزر ہی نہیں رہا۔
دوسری طرف سرکاری اداروں کا حال بھی بہت برا ہے۔ حیرت ہوتی ہے اس کے باوجود جمہوریت کے راگ الاپتے تھکتے نہیں۔ اگر خود پر کوئی افتاد پڑے تو جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ چاروں طرف سے پیسے کما کر بھی مزید کی ہوس ہے، پھر بھی تاریخ میں نام لکھوانے کی تمنا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے دوسرے ملک کی کمپنی میں مارکیٹنگ منیجر کا کام کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالا۔ اگر یہ تمام لوگ جنھوں نے پاکستان سے اپنی دولت کے ڈھیر کو غیر ممالک میں چھپا کر رکھا ہے وہ خود واپس لے آئیں یا پھر زبردستی واپس لی جائے، دونوں صورتوں میں عوام کا بھلا ہوگا۔ جمہوریت پھلے گی بھی اور پھولے گی بھی۔
اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ حکمران استعفیٰ دے دیں، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اصولاً تو اس وقت ہی گھر چلے جانا چاہیے تھا، جب پاناما لیکس کا چکر شروع ہوا تھا۔ کچھ ممالک کے بڑے بڑے ناموں نے، جن کا نام اس میں آیا تھا انھوں نے ایسا ہی کیا۔ مگر ہمارے لوگ جب نہیں گئے تو اب کیا جائیں گے۔ ہوسکتا ہے انھیں بھیج دیا جائے، مگر اب جو مختلف وزیروں، مشیروں کا رویہ نظر آرہا ہے، وہ اس بات کا غماز ہے کہ جس سے بازی پلٹ جائے اور اس قصہ سے شور ہنگامہ مچا کر صاف نکل جائیں۔
یہ تو سیاسی شہید بننے کے لیے کمربستہ بیٹھے ہیں، مگر عمل کرنے میں بہت فرق ہے۔ حالات بدلنے پر وزیروں، مشیروں سے مشورہ کیے بغیر خفیہ معاہدہ کرکے اپنی جان بچا لی جاتی ہے، ان سے کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ لوگ سیاسی شہادت پر فائز ہوں گے۔جہاد کی کال دی جاتی ہے مگر اس میں دم ہمیں تو نظر آتا نہیں۔ کچھ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، چال بازیوں، غلط فہمیوں اور خرید و فروخت کے ذریعے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کریں گے۔ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ آچکی ہے، اب کچھ بھی فیصلہ آئے مگر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ہے۔ ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے حکمران خاندان کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔