عظیم گلوکار مہدی حسن کی ہم قدر نہ کرسکے حصہ دوم
مہدی حسن کو تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا
یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ میڈم نورجہاں نے مہدی حسن کو پہلی بار لاہور ریڈیو پرگلبرگ کے علاقے میں واقع ایک پان کی دکان پر ٹرانزسٹر ریڈیو کے ذریعے سنا تھا، جب وہ اپنی گاڑی میں وہاں پان لینے کے لیے رکی تھیں اور ان کے ساتھ موسیقار اعجازحضروی بھی تھے اور مہدی حسن ریڈیو سے غزل گا رہے تھے جس کا مطلع تھا۔
دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
اور مہدی حسن کی آواز ان کے دل میں اترتی چلی گئی تھی پھر جب مہدی حسن لاہورکی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے تو مہدی حسن ہی ان کے پسندیدہ گلوکار ہوگئے تھے اور پھر فلم انڈسٹری نے سروں کے شہنشاہ کا خطاب دیا تھا اور مہدی حسن نے اپنی جادو بھری آواز سے لاکھوں دلوں کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔ آہستہ آہستہ دیگرگلوکاروں کی آوازیں مہدی حسن کی آواز کے سامنے دھیمی ہوتی چلی گئیں اور پھر فلمی دنیا کا ہر ہیرو مہدی حسن ہی کی آواز کے گن گاتا تھا اور یہ چاہتا تھا کہ اس کے لیے مہدی حسن کی آواز میں گیت ریکارڈ کیے جائیں، پھر مہدی حسن جس ہیرو کے لیے بھی گیت گاتے تھے اس ہیرو کی اداکاری میں چار چاند لگ جاتے تھے یہ آواز موسیقی کی دنیا میں سرمایہ افتخار بن گئی تھی۔
مہدی حسن کو تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا اور ملک کے تمام بڑے بڑے ایوارڈز مہدی حسن کی نذر کیے جاتے رہے لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کو ایک یہ اعزاز بھی حاصل ہوا تھا کہ نیپال کے بادشاہ نے بطور خاص جب انھیں اپنے ملک میں مدعو کیا تو ان کی شان بڑھاتے ہوئے انھیں سرکاری اعزاز کے ساتھ 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی اور دنیائے موسیقی اور برصغیر کے یہ واحد گلوکار تھے جن کی کسی ملک کے بادشاہ نے خود کھڑے ہوکر مہدی حسن کی پذیرائی کرتے ہوئے انھیں سلامی دی تھی مہدی حسن وہ واحد گلوکار ہیں جو مجموعی طور پر آٹھ ہزار کے قریب گیت گا کر ایک انوکھا ریکارڈ بناچکے ہیں۔
مہدی حسن نے ریڈیو، ٹی وی، فلم اور گرامو فون کمپنیوں کے لیے سب سے زیادہ گیت گانے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ اور ان کی آواز میں خوبصورت غزلوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی گلوکار ان کے مقام کو چھو نہیں سکتا ہے ان کی گائی ہوئی وہ غزلیں جب سماعت سے گزرتی ہیں تو روح میں اترتی چلی جاتی ہیں ، ذیل میں ان کی گائی ہوئی چند منتخب غزلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
آیا تری محفل میں غارت گر ہوش آیا
...
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
...
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
.....
٭پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
٭دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
٭کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
٭مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
٭شعلہ سا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
٭گو ذرا اسی بات پر برسوں کے یارانے گئے
٭گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
٭رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
مہدی حسن کی گائی ہوئی غزلوں کی تو اک آبشار ہے۔ جو اس کالم میں سموئی نہیں جاسکتی ان کے گائے ہوئے سپرہٹ گیتوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے پھر بھی چند دل نشیں گیتوں کے مکھڑے قارئین کی نذر کر رہا ہوں یہ وہ فلمی گیت ہیں جو خوشبو کی طرح آج بھی فضاؤں میں بکھرے ہوئے اور سانسوں میں بسے ہوئے ہیں۔
٭ہاں اسی موڑ پر اس جگہ بیٹھ کر
٭دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں
٭آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں
٭سو برس کی زندگی میں ایک پل
٭پیار بھرے دو شرمیلے نین
٭کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آجاتے ہیں
٭جو درد ملا اپنوں سے ملا
٭کیوں ہم سے خفا ہوتے ہو اے جانِ تمنا
٭ترے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی
٭تجھے پیار کرتے کرتے مری عمر بیت جائے
٭مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
٭زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
٭جس نے مرے دل کو درد دیا
٭بہت یاد آئیں گے وہ دن مجھے تڑپائیں گے وہ دن
٭ہم چلے اس جہاں سے دل اٹھ گیا وہاں سے
٭میں جس دن بھلا دوں ترا پیار دل سے
٭یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی
٭یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہم دم
٭تری محفل سے یہ دیوانہ چلا جائے گا
٭بہت خوبصورت ہے میرا صنم
٭میں نے تجھ کو آکے پکارا نہیں
٭جب کوئی پیار سے بلائے گا
٭اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
٭خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے
٭مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
٭نیناں رے تم ہی برے تم سے برا نہ کوئے
مہدی حسن کے دلکش گیتوں کے مکھڑے لکھتے ہوئے میں خود گیتوں کی دنیا میں کھو گیا ہوں اور گیتوں کے مکھڑے ہیں کہ قلم کی نوک پر آتے جا رہے ہیں مگر میرے کالم کا دامن چھوٹا پڑ گیا ہے۔ مہدی حسن کے گائے سارے ہی گیت امر گیتوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ مہدی حسن سے کراچی کی فلم انڈسٹری سے لے کر لاہور کی فلمی دنیا تک میری بھی ان سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں جب میں نے کراچی کی ایک فلم ''آجا کہیں دور چلیں'' کے لیے اپنا پہلا فلمی گیت لکھا تھا جس کے بول تھے لیکے چلی ہو مورا پیا گوری تو میری خوش نصیبی تھی کہ وہ مہدی حسن صاحب کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا۔ پھر جب میں لاہور کی فلم انڈسٹری سے بحیثیت گیت نگار وابستہ ہوا تو وہاں بھی فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے جو میں نے پہلا گیت لکھا جس کے بول تھے:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رلاتا ہے
اسے بھی مہدی حسن کی جادو بھری آواز ملی اور پھر جب میں سنگیتا پروڈکشن سے وابستہ ہوا اور میں نے فلم ''عشق عشق'' کے لیے اپنا پہلا گیت لکھا جس کے بول تھے:
نیناں رے نیناں تم ہی برے تم سے برا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے آپ ہی بیٹھا روئے
تو میرے اس گیت کو بھی مہدی حسن کی ہی طلسماتی آواز میسر ہوئی تھی۔ اور یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ میرے اس گیت کا پورا مکھڑا ہندوستان کے موسیقار ہمیش ریشمیا نے اپنی فلم ''عشق ڈینجرس'' میں کاپی کیا تھا مگر وہ گیت فلاپ ہوگیا تھا اور مہدی حسن کا گایا ہوا گیت آج بھی پھولوں کی طرح تروتازہ ہے۔ مہدی حسن کے ساتھ میری ایک آخری ملاقات امریکا آنے سے چند ماہ پہلے ہوئی تھی، ان دنوں وہ کچھ کچھ بیمار رہنے لگے تھے اور ان کے گھٹنوں میں شدید درد تھا۔ میں ان کی رہائش گاہ جو انچولی سوسائٹی میں تھی وہاں ملنے گیا تھا۔ وہ ایک تین منزلہ عمارت تھی اوران کا قیام تیسری منزل پر تھا۔ مجھے ایک چھوٹی سی بیٹھک میں بٹھایا گیا تھا۔ پھر دس پندرہ منٹ بعد اس بیٹھک میں خانصاحب مہدی حسن دیوار کا سہارا لیتے ہوئے تشریف لائے۔ میں ادب سے کھڑا ہوگیا انھوں نے مجھے گلے لگایا میں نے ان کی اور انھوں نے میری خیریت پوچھی پھر کچھ دیر بعد چائے آگئی۔ چائے کے دوران لاہور کی یادیں تازہ ہوتی رہیں اور اس دوران میڈم نور جہاں کے ساتھ گائے ہوئے چند خوبصورت دوگانوں کی باتیں ہوتی رہیں۔
موسیقار نثار بزمی کی دلکش دھنیں اور احمد فراز کی غزلوں کا تذکرہ نکلا کچھ فیض صاحب کی شاعری پر گفتگو رہی پھر انھوں نے اپنے ایک خاص میوزیشن سے کہا کہ جاؤ اندر سے میرا پاندان اٹھا لاؤ۔ اندر سے ان کا پاندان آگیا تو مہدی صاحب نے دو پان بنائے پہلے ایک خود کھایا اور پھر دوسرا مجھے دینے سے پہلے بولے ہمدم میاں! تھوڑی سی خوشبو چلے گی۔ یہ ہندوستان کا قوام ہے بمبئی سے ایک عقیدت مند لے کر آیا تھا۔ زعفرانی قوام ہے بڑی زبردست خوشبو ہے۔ میں نے کہا آپ یہ خوشبو بس تھوڑی سی میرے پان کو چھوا دیں میرے لیے تو یہ پان اور یہ خوشبو ایک اعزاز ہے۔ پھر میں نے ان کے ہاتھ سے دیا ہوا وہ پان کھایا کیا خوشبو تھی ذہن مہک اٹھا تھا، آج بھی وہ پان اور وہ خوشبو میرے ذہن میں بسی ہوئی ہے مجھے امریکا آنے کے بعد ہی ان کے انتقال کی دکھ بھری خبر ملی تھی اور میں بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس رات مہدی حسن صاحب سے اپنی آخری ملاقات یاد کرکے ساری رات سو نہ سکا تھا میرا دل دکھ کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا، مہدی حسن ایک عظیم گلوکار اور محبت بھری شخصیت کے مالک تھے وہ اپنی ذات میں ایک درویش کا درجہ رکھتے تھے ان کی سریلی آواز دلوں سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی۔ آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا:
وہ اک آواز تھی یا اک اُجالا
سروں کی روشنی مہدی حسن تھے
غزل کی آبرو تھی ان کے دم سے
غزل کی زندگی مہدی حسن تھے