ایوری ڈے از ناٹ سنڈے

سیاست کی شراب ایسی ہی شراب ہے، جس کے جام میں غریب عوام کا لہو ہوتا ہے۔



اقتدارکا ہما اپنے سر پر بٹھانے کی خواہش، ایک ایسی خواہش ہے کہ جو دنیا کی ہر قوم کی کہانی ہے۔ رومن ایمپائر ''اسلامی بادشاہ'' مٹھاس میں چھپائی کونین، مینگول، ترخان، مغل، کن کن کا نام لیں اور ان کے بعد تو تاریخ برصغیر کے حکمرانوں پر نظر ڈالتی ہے تو کرسیاں خون آلود ہیں اقتدارکی۔ آج کے بھارت میں تو تاریخ کا یہ تسلسل بہت واضح ہے۔مسلمانوں کو ایک شدید غلط فہمی یہ ہے کہ کیونکہ وہ مسلمان ہیں لہٰذا ہر چیز کے مالک ہیں۔ دنیا میں اور ان سے کوئی حساب نہیں لے سکتا ، اس خیال نے رویے میں ایک ایسی چنگیزیت بھردی ہے کہ کوئی کسی سے کچھ نہیں پوچھ سکتا، کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چاہے وہ قانون ہی ہو۔

یہاں حالیہ انٹرویو نوابشاہ کے زرداری صاحب کا قابل ذکر ہے جو خوش قسمتی سے اس قوم کے صدر بھی رہ چکے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ یہ نیب یہ میرا کیا بگاڑسکتی ہے اور پھر انھوں نے کسی کے پاؤں پڑنے کا ذکرکیا ہے۔ یا سیف الرحمن کا اور کہاکہ کہیں ان کو بھی میرے پیر نہ پڑنا پڑے۔

فائل آپ جانتے ہوںگے ریکارڈ رکھنے کے کام آتی ہے۔ ریکارڈ خراب کرنے کے بھی کام آتی ہے سیاسی میدان میں، کسی کی کونسی فائل کہاں ہے اور کب کھل جائے گی یہ ایک الگ چیز ہے مگر ایک نظام اور ہے جو نظر نہیں آتا کہ ہم نابینا لوگ ہیں۔ اس کی بھی فائل ہوتی ہے اور وہ کب کھل جاتی ہے یہ کوئی نہیں جانتا اس کے حکم پر بھٹو کی فائل کھل گئی، مجیب الرحمن، اندرا گاندھی کی فائل کھل گئی، ضیا الحق نے جب ٹرن لیا تو ان کی بھی فائل کھل گئی، اسامہ کی بھی فائل کھل گئی اور نہ جانے کتنے نام ہیں کہ غرور کا ایک لمحہ انھیں زمین کے اوپر سے زمین کے نیچے لے گیا۔اس ملک کے باضابطہ چار صوبے ہیں اور چار اسمبلیاں، ہر ایک کی کہانی الگ الگ ہے یہی وجہ ہے کہ دشمن کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ انھیں چار الگ الگ ریاستوں میں تبدیل کرسکتا ہے اور کچھ دشمن کے آلہ کار جو دشمن کے ساتھ ہیں۔ اپنی اپنی جگہ اس آئیڈیے کو برا نہیں سمجھتے شاید لوگ اس پر چراغ پا ہوں مگر اسمبلی کے فلور پر ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

بڑے صوبے میں وزیراعلیٰ کے بالواسطہ اختیارات اس صوبے کے ایک وزیر کے حوالے ہیں وہ چاہے مسلم ٹاؤن برپا کریں، چاہے کچھ بھی، کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ سندھ میں برائے نام وزیراعلیٰ اور جواب دہ زرداری کو، لوگوں کو نہیں جن کے ووٹوں سے کامیاب ہوئے، صوبہ خیبر پختونخوا کے حالات اور مرکزِ اقتدار سامنے ہیں سب ان کے واقف ہیں کھلاڑیوں نے بھی ورلڈ کپ پروگرام میں اعتراف کرلیا کہ وہ ان کی بد زبانی سے خوف زدہ رہتے تھے جو تب تھے وہ اب بھی ہیں۔ میدان بدل گیا ہے، یہاں کھلاڑی آئے دن بغاوت کرتے رہتے ہیں۔

وکٹ کیپر وزیراعلیٰ سابق صوبہ سرحد تمام باؤلرز کا جواب دیتے رہتے ہیں۔بلوچستان ایک نئی ''سیاسی وزارت اعلیٰ بانٹ'' کی مثال ہے اس سے پہلے صرف ''بندربانٹ'' کا نام سنا تھا، ان تمام تسبیح دانوں کو جس ڈوری نے بہت مشکل سے جوڑ رکھا ہے اس کا نام ہے افواج پاکستان۔اسے اپنا دامن صاف کرتے کرتے اب دس سال ہونے کو ہیں کیونکہ ان کے اقدامات ملک کے حق میں اور سیاستدانوں کے خلاف تھے اور عوام ووٹ ''بے وقوف بنانے والوں'' یعنی سیاست دانوں کو دیتے ہیں اور وہ واویلا کرکے دنیا کو باور کراتے ہیں کہ ایک طاقت ملک میں سیاست کو نہیں قدم جمانے نہیں دے رہی اور دنیا بھی ان جیسی ہی ہے لہٰذا وہ بدنام ''بدنام سیاست دان ہیرو'' جو اوپر سے لے کر شرجیل میمن تک موجود ہیں اوپر سے ہماری مراد تمام برسر اقتدار رہنے والی پارٹیوں کے ''اوپر'' ہیں۔مرکز میں کسی اور کا زور زورہ ہے۔

جب زور پڑے تو پاؤں پکڑتے ہیں، زور ختم تو حکمران کے ساتھ کھڑے ہیں، رشتے داری کا مسئلہ ہے اور وزیراعظم نے بھی ہر مسئلے میں ان کو پاور آف اٹارنی دے رکھی ہے جو چاہے فیصلہ کریں، یہ اگر مہنگائی بڑھائیں جو یہ ہر ماہ بڑھاتے رہتے ہیں اور تنخواہ نہ بڑھائیں تب بھی وزیراعظم کو کچھ نہیں بول سکتے۔اہل اقتدارکا بیرون ملک کہاں کہاں کاروبار ہے اپنا، یا شراکت ہے یہ بھی پاناما کی طرح ابھی کھل جائے گا۔ جانتے ہیں لوگ وقت آنے دیجیے دیواریں بول پڑیںگی۔مغل بادشاہوں کی کہانی پاکستان میں بھی چل رہی ہے۔ نواز شریف نے مریم صاحبہ کو لیٹ انٹری دی، بیگم صاحبہ کے بجائے مریم کو موقع دیتے تو وہ پنجاب کی بے نظیر بن جاتیں شاید اب Toolate No More Bynazeer اور پھر جان کے زیاں کا بھی ڈر ہے۔

والد صاحب پنجاب کے بھٹو بننے کے بجائے دستخط کرکے باہر چلے گئے۔ بیٹوں کو تجارت میں لگادیا۔ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ صحیح فیصلہ کیا! شہباز شریف اور زرداری میں قدر مشترک ہے کہ ''توں کون'' تو وہ وہاں اپنے علاوہ کسی کے نام کا سیاسی خطبہ برداشت نہیں کرسکتے، اب جب تک حمزہ اورنگ زیب نہ بن جائیں ''کچھ ہاتھ نہیں آتا'' جہانگیر کے مقبرے کے مینار میں ایک بندے کی رہائش کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ سیاسی بساط دلچسپ ہے۔ بادشاہ سیاست، مفاہمت (جو در اصل عوام سے منافقت ہے) خود میان سیاست میں ''بے نظیر ہمدردی ووٹ'' لے کر پانچ سال ایوان صدارت کے مزے لے چکے ہیں، ایک بار پھر پر تول رہے ہیں، ان کو نواز شریف بڑا بھائی ٹھیک کہتے تھے، کافی داؤ پیچ ان سے ہی سیکھے ہیں، نواز شریف نے کہاں کے پانچ سال، کہاں کے گھوڑے اور زمینیں۔

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

سیاست کی شراب ایسی ہی شراب ہے، جس کے جام میں غریب عوام کا لہو ہوتا ہے۔ ان کی عزتیں اور غیرتیں ہوتی ہیں۔ تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ کئی خواتین نے ان رہنماؤں کی داستانیں لکھی ہیں اور لکھیںگی۔ ذاتی کردار کا ذکر ٹھیک نہیں ہوتا مگر یہ بھی ان کا ایک طرۂ امتیاز ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ ذکر ہو اس پہلو کا۔بلاول کو ماں کی طرف سے شکل و صورت آواز کے علاوہ ہمت بھی ملی ہے اور یہ ناپسندیدہ ہے شاید والد صاحب کو سیاست کرو، عوام کے پاس نہ جاؤ، انھیں خود سے بے تکلف نہ کرو سر پر ''ہاتھ'' صرف فائدے کے لیے رکھو، اس کی تفصیل بھی چھوڑدیتے ہیں۔ حالانکہ بلاول انگلینڈ کے معاشرے میں پلے بڑھے اور اس کے ہی پروردہ ہیں مگر زرداری کو ڈر لگتا ہے کہ اندر سے اگر بھٹو نکل آیا تو زرداری کا کیا ہوگا۔

حالانکہ وہ کافی ''زرداری'' ہیں۔تو اقتدار کے دالانوں میں بھگدڑ ہے، خاموشی میں چیخ پکار ہے، زرداری صاحب نے بلاول کو فی الحال سیاسی اذانیں دینے کو رکھا ہوا ہے، پر شاید وہ ان معاملات کو سمجھتے نہیں ہیں کیونکہ مؤذن کو پیش امام بننے میں کچھ زیادہ دقت نہیں ہوتی اگر وہ ذہین ہے اور پیش امام کی اہلیت رکھتے ہوئے موذن لگایا گیا ہے۔ بس اورنگ زیب اور شاہ جہاں کا معاملہ دیکھ لیں سمجھ لیں، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو کو سامنے رکھ لیں۔''سیانا کوا دونوں ٹانگوں سے پھنس جاتا ہے'' یہ ایک سندھی ضرب المثل ہے اور اس کے علاوہ بھی دوسرے پرانے گھسے پٹے لیڈروں، مفاد پرستوں اور خصوصاً سب سے یاری کا جال لانیوالے شکاری کو ایک اور محاورہ یاد رکھنا چاہیے۔"Every Day is Not Sunday"

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں