بے رحم یادیں

یہ سب مجھے اس لیے شدت کے ساتھ یاد آ رہا ہے کہ چونکہ میں ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والا ہوں۔


Abdul Qadir Hassan July 23, 2017
[email protected]

لاہور میں ساون کی بارشیں یاد دلاتی ہیں اٹلی کے خوبصورت شہر وینس کی جو کہ دنیا میں اپنے محل ِ وقوع کی وجہ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے، کہ یہ وہ واحدشہر ہے جو کہ سمندر کے بیچوں بیچ آباد ہے اور اس کی خوبصورت عمارتیں کئی صدیوں سے اپنی عظمت کی داستان سنا رہی ہیں۔ لاہور میں ساون کی بارشیں شروع ہونے سے یاد آ رہا ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بارشوں کے پانی نے لاہور کی زندگی کو عملاً معطل کر دیا اور آسمان سے برستی موسلا دھار بارش نے سفر میں رکاوٹیں بھی ڈال دیں۔ آسمان سے برسنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ کسی کے پا س نہیں کیونکہ آسمان اپنی اسی انفرادیت کی وجہ سے زمین پر بھی بادشاہت قائم کر لیتا ہے۔

یہ سب مجھے اس لیے شدت کے ساتھ یاد آ رہا ہے کہ چونکہ میں ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والا ہوں اور وہاں پر ساون کی بارشیں زحمت کے بجائے رحمت بن کر برستی ہیں جس کے بعد زمین اور پہاڑوں پر ایستادہ درخت اور جڑی بوٹیاں نئی زندگی پاتی ہیں اور ان سے پھوٹنے والی مسحور کن خوشبو ماحول کو معطر رکھتی ہے۔ اس لیے میں ان سنگلاخ پہاڑوں کا پروردہ ہوں۔ ان سبز پوش پہاڑوں کا میں اس قدر فریفتہ ہوں کہ موقع ملتا ہے تو میں لاہور شہر کو چھوڑ کر ان پہاڑوں کو دیکھنے نکل جاتا ہوں۔

میں ان پہاڑوں کے کسی موسم میں پیدا ہوا اور پھر ہر موسم میں یہاں کھیلا کودا۔ گرمی، سردی، بہار، خزاں کے موسم یہاں دیکھے اور ان کا لطف اُٹھایا لیکن سردی کا نہیں کہ اس موسم میں پہاڑی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ درست کہ دھوپ میں باہر کھلی جگہ بیٹھ کر اور سورج کی ننگی گرمی کا لُطف کسی دَور کی بہت ہی قدرتی زندگی کا احساس دلاتا ہے لیکن بادل کا ایک بھی ٹکڑا یہ سارا مزہ کر کرا کر دیتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے آسمان نے اڑتے ہوئے بادل سے شکست کھا لی ہے اور سرد ہوا سے وہ پہاڑوں کے کونوں میں چھپا رہتا ہے۔

''اِک جہاں تک رہا ہے مجھے'' ۔ یہ عنایت بائی ڈھیرو والی کی گائی ہوئی ایک غزل کا مطلع ہے جس کی یاد اسی ساون کے موسم کی مناسبت سے آئی ہے جو کہ میرے بچپن کی حسین یادوں میں سے ہے۔ یہ حسین خاتون جگہ جگہ مجرے کرتی تھی اور ایک ہر دلعزیز گانے والی تھی جو شادی بیاہ کی تقریبات میں میرے گاؤں میں بھی آتی تھی اور میں نے اسے دیکھا کرتا تھا۔ میں تو ابھی بچہ ہی تھا لیکن اس کا سرخ و سفید لہراتا ہوا بدن یاد رہے گا۔

وقت کے بہت بڑے موسیقار استاد بڑے غلام علی خان جو اس کے استاد تھے اور سارنگی لے کر اس کے ساتھ کھڑے ہو کر مجرے کیا کرتے تھے۔ ان کی قسمت سے ہمارے گاؤں میں دو ایک کن رس بھی تھے جو وقت کے ان استادوں کی کسی خوبی پر داد دیتے اور کسی غلطی پر خاموش رہ جاتے۔ لاہور کی عنایت بائی ڈھیرو والی دو دفعہ ہمارے گاؤں آئیں۔ گاؤں کے پیشہ ور لوگ ان کو بلاتے تھے اور ان کا مقررہ معاوضہ ادا کرتے تھے۔ عنایت بائی چند ہزار پر راضی ہو جاتی تھیں جب کہ وقت کے سب سے بڑے موسیقار استاد غلام علی خان مرد ہونے کی وجہ سے کم پر راضی ہو جاتے تھے۔

حیرت ہوتی ہے کہ بعد میں بر صغیر پاک و ہند کاسب سے بڑا فنکار ایک طوائف کے ساتھ موسیقی کی سنگت میں مگن ہو کر گاتا تھا اور جھومتا تھا۔ استاد بڑے غلام علی خان نے عنایت بائی کے ساتھ میرے گاؤں کی محفلوں میں شرکت کی اور اس دوران عنایت بائی کے نازک پاؤں میں پہاڑی راستوں کی کنکریاں چبھتی تھیں مگر پھر بھی وہ ہمت کر کے اپنا مجرا مکمل کر لیتی تھیں اور گاؤں کے عشاق سے داد پاتی تھیں۔

چچا دوست محمد جن کی بیٹھک میں یہ مجرے ہوتے تھے اس پر بڑا فخر کرتے تھے اور پوچھتے پھرا کرتے تھے کہ سنا ہے کہ یہ موسیقی ریکارڈ ہو جاتی ہے مگر ان کی قسمت میں ایسا نہ ہوا جب کہ وہ اپنی قوت سے بڑھ کر لاہور سے آنے والے ان فنکاروں کی خدمت پر تیا رہتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں دو تین مجروں اور موسیقی کی محفلوں کے بعد یہ لوگ واپس لاہور چلے جاتے مگر اپنی یادیں چھوڑ جاتے۔

یہ سب یادیں زبانی کلامی تھیں سُر سنگیت کے ساتھ۔ مگر ان میں عنایت بائی کی آواز شامل نہیں تھی۔ بعد میں ایک دفعہ لاہور میں عنایت بائی سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی تو اس نے اپنے بتایا کہ مجرے کے دوران پاؤں میں کنکر چبھنے کی وجہ سے اس کی طبعیت خراب ہو گئی اور وہ بستر پر لیٹ گئی جہاں گاؤں کی لڑکیاں خوشی خوشی اس کی خدمت کرتی رہیں۔ اس نے اپنا پاؤں بھی دکھایا جو کہ زخمی ہو گیا تھا۔ معلوم نہیں کہ عنایت بائی زندہ ہے یا نہیں لیکن وادی سون کے سبزہ زار اسے یاد کرتے ہیں۔

پُرانے زمانے کی یادیں آج کل واقعی یادیں بن کر ہی رہ گئی ہیں کہ آج کل کے مصروف ترین دور میں اب اس طرح کی محفلیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور اگر کہیں پر یہ محفلیں برپا بھی ہوتی ہیں تو ان کے سامعین وہ نہیں ہوتے جو گئے وقتوں میں ان فنکاروں پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر تیار رہتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ اب نیا زمانہ ہے اور اس زمانے کے اپنے اصول و ضابطے ہیں جن کو ماضی کے ان کن رسوں کے ہم پلہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ذوق ہی اب ختم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ عیاشی نے لے لی ہے اور آج کل ہونے والے مجروں کی داستانوں سے تو آپ سب واقف ہیں۔

کہاں لاہور کی عنایت بائی ڈھیرو والی اور کہاں گاؤں کی ایک بیٹھک جس میں ان فنکاروں کے لیے صاف دھلے دھلائے بستر بچھائے جاتے تھے۔ جن کے اوپر موسیقی کی وہ محفلیں جمتی تھیں جو اب خواب و خیال ہو چکی ہیں۔ کیا آپ تسلیم کریں گے برصغیر کا بہت بڑا موسیقار بان کی ان چارپائیوں پر اپنی لازوال موسیقی کی محفل جماتا اور کچھ ہی دور پہاڑی کے دامن میں عنایت بائی مجرا کرتی۔

اس کی سنگت میں استاد غلام علی خان کبھی سستی کر جاتے تو عنایت بائی ڈھیرو والی ان کی طرف برہم ہو کر دیکھتی استاد فوراً ہی غلطی کی تصحیح کر لیتے اور پہاڑوں کے دامن میں استاد بڑے غلام علی خان کی موسیقی ان کی ساتھی طوائف عنایت بائی کی آواز سرسبز پہاڑوں میں گونجنے لگتی۔ یہ سب پھر نہ آنے والے مناظر ہیں۔ استاد بڑے غلام علی خان اور ان کی طوائف اب نہ جانے کس مٹی میں فن کا جادو جگا رہے ہیں، بے رحم وقت اور اس کی یادیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں