فلک بوس عمارتیں زمیں بوس شہری
اگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اپنا کردار ادا کرتی تو یہ حادثہ ہی رونما نہ ہوتا۔
منگل کی شب کراچی میں ایک تین منزلہ رہائشی عمارت زمین بوس ہوگئی، جس میں 6 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے، 8 سال قبل بھی اسی علاقے میں رہائشی عمارت گرنے سے 17 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ اس حادثے میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آرکیٹکٹ پر ساری ذمے داری تھوپ کر بری الذمہ ہوگئی تھی، جس نے عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرکے اپنی جان خلاصی کرالی تھی۔
حالیہ واقعے میں بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ابتدائی طور پر عمارت کے انہدام کی ذمے داری واٹر بورڈ کے محکمے پر تھوپ کر اپنی جان خلاصی کی کوشش کی ہے، جب کہ محکمہ واٹر بورڈ کے حکام نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے کہ حادثہ سیوریج کے پانی کی رسائی کے باعث پیش آیا ہے۔ ان کے مطابق معائنے کے دوران اس قسم کے شواہد نہیں ملے کہ وہاں سیوریج کا پانی رس رہا تھا۔
عمارت گرنے کے حالیہ واقعے کے کئی المناک پہلو ہیں اس عمارت میں چاروں خاندان کرایہ دار تھے جنھوں نے مالک مکان سے عمارت کی خستگی کی شکایات بھی کی تھیں، عمارت ایک جانب جھکی ہوئی تھی لیکن ہوس زدہ مالک عمارت کی مرمت کرانے کے بجائے چوتھی منزل پر پینٹ ہاؤس تعمیر کرا رہا تھا اور متعلقہ ادارے اس پر آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے۔ دیگر عمارتوں کے گرنے کے خدشے کے باعث بھاری مشینوں سے امدادی آپریشن نہیں کیا جاسکا۔
ملبے تلے دب کر جاں بحق ہونے والے 27 سالہ نوجوان فیصل کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ ''میرا بیٹا صبح 8 بجے تک زندہ تھا، عمارت گرنے کے کچھ دیر بعد فیصل کا دھڑ ملبے سے نکل آیا تھا، اس کی ٹانگیں ملبے میں پھنسی ہوئی تھیں، اسے رات بھر پانی اور آکسیجن فراہم کرتے رہے اور ریسکیو اداروں سے اس کی جان کی بھیک مانگتے رہے، ان کے پاس آلات نہیں تھے، میرا بچہ رات بھر تڑپتا رہا، بالآخر دن 11 بجے ٹانگیں کاٹ کر مردہ حالت میں نکالا گیا۔ میرا پوتا ایان بھی جان سے گیا، میرے بیٹے کی موت حکمرانوں کی نااہلی کے باعث ہوئی ہے، سب آکر فوٹو سیشن کرا رہے تھے۔'' مرحوم فیصل کے والد کے منہ سے نکلنے والے یہ جملے محض جذباتی ردعمل نہیں، بلکہ مبنی برحقیقت ہیں۔
اگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اپنا کردار ادا کرتی تو یہ حادثہ ہی رونما نہ ہوتا۔ اگر دیگر شہری ادارے بیدار و مستعد ہوتے تو عمارت میں دبے افراد اتنی کسمپرسی سے مظلومانہ موت نہ مرتے کہ ان کے ٹکڑے کرکے نکالا جاتا۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ادارہ کہاں تھا، اس کے وجود کا کیا جواز ہے؟ کشمیر کے زلزلے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ جتنے لوگوں کی ہلاکتیں زلزلہ سے ہوئی تھیں، کم و بیش اتنی ہی ہلاکتیں بروقت امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی تھیں۔
عمارت کے ملبے میں دبے فیصل کو ہاتھ سے پنکھا جھلتے ساری دنیا نے دیکھا، جب رات بھر تڑپ تڑپ کر جان دینے اور ٹکڑے کرکے لاش نکالنے کے بعد بیٹے اور پوتے کی لاش فیصل کے باپ کو دی گئی ہوگی تو اس پر کون سی قیامت ٹوٹی ہوگی؟ اس سے قبل شیرشاہ پل کے حادثے کے نتیجے میں پل تلے دبی کار میں پھنسے شہری کی ہلاکت نے بھی تمام حکومتی اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے اکا دکا واقعات میں تمام حکومتی مشینری اور شہری ادارے بے دست و پا نظر آتے ہیں تو کسی ناگہانی صورتحال میں ان سے کسی کارکردگی کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم بلدیہ فیکٹری کی آتشزدگی کے موقع پر بھی دیکھ چکے ہیں۔
چھوٹی موٹی آتشزدگی کے موقع پر بھی فائربریگیڈ کے پاس فیول نہیں ہوتا، پانی ختم ہوجاتا ہے، فائرٹینڈر خراب ہوتے ہیں، جائے حادثہ پر فوٹو سیشن کرانے، ہمدردی و مذمت میں بیانات داغنے والے کسی ایک عوامی نمایندے یا رہنما نے بھی حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ تباہ شدہ مکان کے ملبے پر لاشیں لیے بیٹھے بے سر و سامان کرایہ دار مکینوں کے لیے حکومت فوری رہائش کا بندوبست یا امداد کا اعلان کرے۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرات سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ پورے شہر میں کاغذوں کی طرح عمارتیں بنانے کی اجازت دے کر شہر کا ستیا ناس کردیا گیا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران آنکھیں بند کرکے کمائی کر رہے ہیں جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، حد تو یہ ہے کہ سندھ حکومت بھی کوئی اقدام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی عمارتوں سے متعلق پالیسی پر چیف سیکیورٹی سندھ اور اتھارٹی کے افسران کو آیندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔
شہر قائد میں سرکاری و نجی اراضی پر قبضہ، چائنا کٹنگ، غیر قانونی تعمیرات، بغیر نقشوں اور منظوری کے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر اور پزیشنز بناکر بیچنے کا مذموم اور منظم کاروبار متعلقہ اداروں کی ملی بھگت اور آشیرباد سے دھڑلے سے چل رہا ہے، جس میں بغیر کسی محنت، ہنر، سرمایہ کاری یا رسک کے پیسہ ہی پیسہ ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ایم سی، کے ڈی اے، مختار کار، سب رجسٹرار، ان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں اور انسانی زندگیوں کی قیمت پر دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں جس کی وجہ سے بے پناہ شہری مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
نکاسی و فراہمی آب، صحت و صفائی اور امن و امان کے مسائل اور مقدمات میں بھی بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ 2005 میں بھی اینٹی کرپشن کے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مار کر ریکارڈ اپنے قبضے میں لیا تھا اور بہت سی گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں، اس وقت ایک کنٹریکٹ پر ملازم شخص تمام سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا تھا، فائلیں چیف کنٹرولر کے بجائے سندھ بلڈنگ کنٹرول کے اطراف میں واقع اس شخص کے آفس جایا کرتی تھیں، فیصلہ و مک مکا وہاں ہوتے تھے، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق چیف کنٹرولر بھی نیب کی کارروائی کے دوران ملک سے فرار ہوگئے تھے اور ابھی حال ہی میں گرین سگنل مل جانے پر خاموشی سے واپس آگئے ہیں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس کے تحت اتھارٹی کو وسیع اختیار حاصل ہیں، جس میں اتھارٹی اور تعمیراتی اداروں کے کردار، فرائض اور ذمے داریوں کا تعین کردیا گیا ہے کہ رجسٹریشن این او سی اور پلان کیسے منظور ہوگا رہائش کے لیے اجازت نامہ (Occupancy Certificate) کیسے لیا جائے گا، متعلقہ اتھارٹی کو رجسٹریشن سرٹیفکیٹ منسوخ یا معطل کرنے کا اختیار کن صورتوں میں ہوگا، اسٹرکچرل انجینئر، آرکیٹکٹ انجینئر اور پروف انجینئر کے فرائض و ذمے داریاں کیا ہوں گی، بلڈر کو تعمیراتی کام میں رد و بدل یا قیمتوں میں اضافے کا اختیار نہیں ہوگا کسی بھی تعمیراتی نقص کو دور کرنے یا عمارت کو گرانے کا اختیار بھی اتھارٹی کو دیا گیا ہے، لائسنس یافتہ آرکیٹکٹ، بلڈنگ ڈیزائنر، انسپیکٹنگ انجینئر، اسٹرکچرل انجینئر، بلڈنگ سپروائزر، ٹاؤن پلانر، بلڈرز و ڈیولپرز کی شرائط بھی وضع کردی گئی ہیں، اس آرڈیننس کے تحت تادیبی کارروائی کے علاوہ 2 سال تک قید اور جرمانے کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ریونیو ڈپارٹمنٹ، کے ایم سی، کے ڈی اے اور دیگر متعلقہ ادارے نئی اور غیر قانونی تعمیرات کے سلسلے میں بہت سرگرم عمل ہیں، یہ محکمہ قانونی کام کرنے والے شہریوں سے بھاری رشوتیں لینے کے لیے ناجائز رکاوٹیں اور پریشانیاں کھڑی کرتے ہیں جب کہ غیر قانونی کام کرنے والوں کو ہر قسم کا تعاون مدد اور طریقہ کار فراہم کرتے ہیں، کسی حادثے یا عدالتی باز پرس یا قدغن کی صورت میں اس کی آڑ میں رشوتوں کا بازار مزید گرم کردیتے ہیں۔
عدالتی کارروائیوں میں بھی ان کا بال بیکا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، بلکہ عام شہری ہی متاثر ہوتے ہیں، جیساکہ رہائشی اجازت کے سرٹیفکیٹ (Occupancy Certificate) پر عملدرآمد کی وجہ سے سال بھر سے جائیداد کی خرید و فروخت کا سلسلہ رکا ہوا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شہریوں کے مفادات کے نگراں اور انھیں سہولیات فراہم کرنے والے یہ ادارے ان کے حقوق کے اجتماعی استحصال کے ادارے بنے ہوئے ہیں۔