جناح ہاؤس

اس ملک میں جہاں محمدعلی جناحؒ کے ہر اصول کوزندہ درگور کردیا گیا وہاں رشید جیسا انسان اب تک کیسے سانس لے رہاہے۔


راؤ منظر حیات July 24, 2017
[email protected]

رشید دل سے بول رہاتھا۔ سفید بالوں والا اجنبی سا اُدھیڑعمرآدمی۔ ایسے لگتا تھا کہ شدیدغم، بے بسی اورقلق کا شکار ہے۔ تیزی سے ربط میں جزئیات سے بھری ہوئی گفتگو۔ معلوم ہوتاتھاکہ اس صدی کابندہ ہی نہیں۔ابھی تک ماضی میں اَٹکا ہوا انسان۔

شاہراہ فیصل پرموجودایک رعب دارمینشن میں زندگی گزارنے والے رشیدکاکراچی سے کوئی تعلق نہیں۔سات دہائیوں سے ہمارے ملک کے عظیم ترین انسان قائداعظم اورانکے خاندان سے جڑاہواانسان۔رشیددراصل قائداعظم کے خاندان سے منسلک وہ شخص ہے جسکے پاس ماضی کی حیرت انگیزمعلومات ہیں۔دودن پہلے قائدکے ذاتی گھر میںجانے کااتفاق ہوا۔انتہائی سنجیدہ اتفاق۔کراچی کی مین روڈپریہ دیدہ زیب گھراب میوزیم بنادیاگیاہے۔عجائب گھر لکھتے ہوئے ذہنی اُلجھن سی ہوتی ہے۔

رشیداسی میوزیم کا اکلوتا گائیڈ ہے۔اس ملک میں جہاں محمدعلی جناحؒ کے ہر اصول کوزندہ درگورکردیاگیاوہاں رشیدجیساانسان اب تک کیسے سانس لے رہاہے۔کوئی علم نہیں۔شائدکسی بادشاہ کوپتہ ہی نہیں چلاکہ اس جیسااُجلاانسان وہاں موجود ہے۔ بولنے میں گدازتھا۔کوئی روایتی گائڈبھی نہیں ہے۔پتہ نہیں کون ہے۔قائدکے گھرجاتے ہوئے بڑی عجیب سی کیفیت تھی۔ غم،تجسس اورعزت سے گندھے ہوئے انسانی جذبات۔ پہلے دل میں آیاکہ وضوکرکے جاناچاہیے۔پرپھرذہن کو جھٹک کرخیال دل سے نکال دیا۔پرشائدپہلی بات ہی ٹھیک تھی۔

بھورے رنگ کے بڑے سے گھرکے باہرانتہائی خوبصورت باغ تھا۔ایک باذوق آدمی کی پہلی نشانی۔ رینجرزکاایک سپاہی ہرآنے والے سے شناختی کارڈجمع کروانے کاکہہ رہاتھا۔مجھے غورسے دیکھا۔کہنے لگاکہ آپ جائیں۔کارڈجمع کروانے کی کوئی ضرورت نہیں۔عجیب سی رعایت تھی۔پراس میں اعتمادکااظہارشامل تھا۔جیسے ہی گھر سے باہرراہداری پرپہنچاتورشیدخودبخودچلتاہوانزدیک آگیا۔قائداعظم کے گھرکے متعلق معلومات فراہم کرنا شروع کردیں۔چھ سال مادرِملت فاطمہ جناح کی خدمت کی ہے۔

زیارت ریزیڈنسی میں صرف ایک بارقائد کو دیکھا تھا۔ہاتھ بھی ملایاتھا۔مادرِملت نے توخیرمیرے ہوتے ہوئے دم توڑا۔آگے سے گھربندہے۔پچھلے دروازے سے جاناہوگا۔گھرکے پچھلے حصے میں،عمارت سے قدرے فاصلے پرایک بڑاساکمرہ ہے۔اس میں کئی مزدورکام کررہے تھے۔ چھت کودوبارہ تعمیرکیاجارہاتھا۔یہ اس گھرکاکچن تھا۔ سارا کھانایہیں پکتاتھا۔گھرسے باہراسلیے تعمیرکیاگیاکہ کھانے کی خوشبومکینوں تک نہ پہنچ سکے۔وہیں سے راہداری میں چلتے ہوئے گھرکادروازہ آیا۔

رشیدنے دروازہ کھولا۔جیسے ہی عمارت میں داخل ہوا،ایسے لگاکہ تاریخ کے ورق میںحنوط ساہوچکاہوں۔شاندارانسان کی بے مثال تاریخ۔ رشید بول رہاتھا۔پورے گھرکاسامان مالابارہلزبمبئی سے لایا گیا۔ ساراسامان قائدکامکمل طورپرذاتی تھا۔ایک ایک چیز ویسے ہی رکھی گئی ہے جیسے جناح صاحب کے زمانے میں تھی۔رَتی بھربھی فرق نہیںہے۔

سب سے پہلے گھرکاڈرائنگ روم تھا۔دروازے کے سامنے شیشہ لگاہواتھا۔تاکہ لوگ کمرے میں داخل ہوئے بغیراطمینان سے ہرچیزدیکھ سکیں۔ڈرائنگ روم میں کئی صوفے پڑے ہوئے تھے۔پائیدارلکڑی اورنفیس کپڑے سے مزین صوفے آج کے لحاظ سے بھی انتہائی دیدہ زیب تھے۔درمیان میں ایک گول میزتھی۔جس پرایک کرسٹل کا ڈیکوریشن پیس پڑاہواتھا۔کمرے میں مختلف جگہوں پر انتہائی شاندارگلدان موجودتھے۔رشیدکہنے لگاکہ نیلے رنگ کا گلدان قائدنے خودفرانس سے خریداتھا۔

ایک ایک چیزاس عظیم انسان کی نفاست کی گواہی دے رہی تھی۔فرش پرایک بڑاساقالین تھا۔باریک نقش ونگارسے منقش،بیش قیمت قالین۔تمام چیزیں جناح صاحب نے بڑے شوق سے جمع کی تھیں۔میرے ذہن میں گھوڑے دوڑنے لگے۔اس ڈرائنگ روم نے پتہ نہیں،تاریخ کے کون کون سے پنے اپنے سینے میں سموئے ہونگے۔کون کون یہاں آیاہوگا۔کس کس سطح کے سیاستدان یہاں مشاورت کرتے ہونگے۔ ڈرائنگ روم بھرپورتاریخ،صاحبان،بھرپورتاریخ کاایک انمول دریچہ ہے۔کمرے میں بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں جنکی بدولت بجلی کے بغیرہرچیزآرام سے نظرآتی ہے۔

ڈرائنگ روم سے منسلک قائداعظم کادفترتھا۔ان کی کرسی، میزکمرے کے آخرمیں رکھی ہوئی تھی۔میزکے بالکل ساتھ ایک فرشی اسٹینڈپرسنہرا اورسفیدرنگ سے مزین ایک ٹیلی فون پڑاہواتھا۔چھت لکڑی سے بنی ہوئی تھی۔دفترکے درمیان میں ایک صوفہ ہے،جسکے چاروں طرف بھورے رنگ کی لکڑی لگی ہوئی تھی۔اس کے سامنے ایک ایک نشست والے تین صوفے پڑے ہوئے تھے۔گہرے رنگ کے کپڑے سے مزین یہ صوفے چیخ چیخ کربتارہے تھے کہ انھوں نے اس ملک کی تاریخ نہیں بلکہ تقدیربنتے ہوئے دیکھی ہے۔

دفترمیں ایک طرف دوکرسیاں آمنے سامنے رکھی ہوئی تھیں۔درمیان ایک ٹیبل تھی۔کونوں پرچھوٹی چھوٹی تپائیاں موجودتھیں۔قائداس دفترمیں اَٹھارہ اَٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔مسلسل کسی قسم کے آرام کے بغیر۔دفترمیں ایک طرف زمین پرایک بڑاساصندوق موجود ہے۔ رشید کہنے لگاکہ یہ ایک خاص خوشبودارلکڑی کابناہواہے۔اس میں فائلیں اسلیے محفوظ رہتی تھیں کہ دیمک نہیں لگ سکتی۔ دفتر میں ڈرائنگ روم کی طرح بڑی بڑی فرنچ کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ان میں سے روشنی پورے کمرے میں چھن چھن کر آرہی تھی۔چھت پرتین پروں والے دوسفیدرنگ کے پنکھے تھے۔

دفترمیں ہروہ چیزموجودتھی جوایک محنتی لیڈرکے شایانِ شان ہوسکتی ہے۔انتہائی سادہ گھرمگربے حد پُروقار۔ رشید آہستہ آہستہ جذباتی ہورہاتھا۔بولنے لگاکہ یہ آج کل کے لیڈروں کادفترنہیں جوعملی طورپرکروڑوں روپوں کے سرکاری نوادرات سے مزین ہوتاہے۔یہ توایک بڑے لیڈرکاذاتی دفترتھا۔کسی تصنع اورغیرسنجیدگی سے محفوظ۔نچلی منزل پرہی قائدکاڈائننگ روم تھا۔اس سے پہلے راہداری میں الماریوں میں وہ تمام قیمتی برتن موجودتھے جو قائد اور مادرِملت استعمال کرتے تھے۔ان میں ایک ہلکے نیلے رنگ کاٹی سیٹ بھی تھا۔رشیدبولنے لگا۔

ٹی سیٹ جاپانی حکومت نے تحفہ دیا تھا۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگرکوئی چائے میں زہر ملادے، تو کپ خودبخودٹوٹ جاتاہے۔اس طرح کے پانچ کپ قائد کو دیے گئے اورپانچ ہی کپ گاندھی کودیے گئے تھے۔ایسے معلوم ہوتاہے کہ یہ حفاظتی قدم صرف اسلیے اُٹھایاگیاہوگاکہ اس اَمرکاخدشہ موجودتھا۔کھانے کے کمرے میں شاندار کھانے کی ٹیبل موجودتھی۔ڈائننگ ٹیبل کے اردگر خوبصورت کرسیاں موجود تھیں۔ قائد دوپہر اوررات کاکھانا، اسی ٹیبل پرکھاتے تھے۔مگرناشتہ بالائی منزل پرکرتے تھے۔ اپنے بیڈروم کے باہر۔وہاں بھی ایک چھوٹی سی میز موجود ہے۔رشیدکہتارہاتھاکہ اوپروالی منزل پردونوں بہن بھائی روزانہ اکٹھے ناشتہ کرتے تھے۔

اوپروالی منزل ایک جہان حیرت ہے۔چوبی سیڑھیوںپرآج بھی سرخ قالین بچھاہواہے۔قائدکے شایانِ شان،یہ خوش قسمت قالین،جانے کتنی باراس عظیم شخص کی قدم بوسی کرتاہوگا۔داہنے ہاتھ پرمادرِ ملت کابیڈروم موجودتھا۔سنگل بیڈ پر تقریباًسفید رنگ کی چادرااورایک تکیہ رکھاہواتھا۔پلنگ کے بالکل ساتھ،فرش پرمادرِ ملت کے سلیپرموجودہیں۔سادہ سی چپل۔ کسی بھی ادنیٰ شان وشوکت سے بہت دور۔پلنگ کے سامنے ایک گول میزاورتین دیدہ زیب کرسیاں ہیں۔

کرسیوں کی پشت سنہری مینا کاری سے بھرپورتھیں اوران پرسرخ کپڑوں کی نشستیں ہیں۔کرسیاں مادرِملت کے اعلیٰ ذوق کاجیتاجاگتانشان ہیں۔فرش پر دوغالیچے بچھے ہوئے ہیں۔کونے میں ایک اونچا ساٹیبل لیمپ ہے۔کمرے میں چاروں طرف بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں،جس سے کمرہ مکمل طورپر ہوادار اور قدرتی روشنی سے آراستہ رہتا ہے۔

فاطمہ جناح کے کمرے کے مقابل قائداعظم کاذاتی کمرہ اورساتھ ہی بیٹھنے کاکمرہ ہے۔حدِادب،صاحب حدِ ادب۔قائدکاکمرے میں ایک سنگل بیڈ پڑا ہوا ہے۔ بیڈ کے ایک طرف تپائی پران کی اہلیہ رَتی جناح کی چھوٹی سے تصویرموجودہے۔دوسری تپائی پرکالے رنگ کاانٹرکام ٹیلیفون موجودہے۔کمرہ انتہائی سادہ اورپُررعب ہے۔ذاتی بیڈروم سے منسلک ایک ہواداربڑاساکمرہ ہے۔اس کمرے کے متعلق ذکرکیاتھاکہ قائداورمادرِملت ہرصبح یہیںناشتہ کرتے تھے۔

اسی ترتیب سے چھوٹی سی ٹیبل اوردوکرسیاں موجودہیں۔ذاتی بیڈروم میں استعمال کی اشیاء موجود ہیں۔ پانی کاجگ اورسادہ ساگلاس۔ہرطرف کھلی کھلی سی کھڑکیاں اس طرح ایستادہ ہیں،جیسے پورے گھرمیں۔ قائدکے بستر پر ایک سادہ ساتکیہ اورسفیدرنگ کی بے شکن چادربچھی ہوئی ہے۔کمرے کی ایک ایک چیزگواہی دے رہی تھی کہ یہ ایک ایسے عظیم لیڈرکامسکن ہے،جس نے اپنے عیش وآرام کو قربان کرکے صرف محنت کی اورمسلمانوں کے لیے ایک بہشت تخلیق کردی۔

رشیدنے مجھے کہاکہ اگرآپ اس کمرے کی کوئی تصویر بناناچاہیں توبنالیں۔مگرتصویربناناتومنع ہے۔میراجواب سنکر رشیدنے عجیب سے لہجے میں کہاکہ آپ چاہیں تو بنالیں۔ رشیدنے اجازت تودے دی۔مگرمیں گھرکے غیرمکین مالک کے رعب کی بدولت پسینہ پسینہ ہوگیا۔مجھ میں ہمت ہی نہیں تھی کہ قائدکے ذاتی کمرے کی کوئی تصویرکھینچ سکوں۔

ایسے لگاکہ ابھی ایک دروازہ کھلے گا،اوراس میں وہ شاندار انسان چلتاہواآکراپنی کرسی پربیٹھ جائیگا۔انٹرکام پرچائے لانے کاکہے گا۔آرام کے بجائے کام کرناشروع کردیگا۔مجھ میں جرات ہی نہیں تھی کہ اپنے ملک کے خالق کی تنہائی میں مخل ہوں۔رشیدکی اجازت کے باوجودخاموشی سے دبے پاؤں واپس آگیاکہ قائداعظم کے آرام میں خلل نہ آجائے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔