تھر عشق کی ہر دَم نئی بہار چھٹی قسط
صحرا کی وسعت میں پھیلتا مائی بھاگی کا گیت ، تھر کی موسیقی دھیمی، شاعری سادہ اور دلوں کو چھولینے والی ہے
بہت شانت، دھیمی، صحرا جیسی وسعت لیے ہوئے موسیقی۔
رنگ و آہنگ کا حسین امتزاج اور شاعری دلوں کو چھو لینے والی، سادگی اور معصومیت میں رچی بسی، سیدھی دل میں اتر جانے والی... اور ہماری طرح سے موسیقی کے آلات بھی نہیں ہیں وہاں پر۔ بس ایک گھڑا، اکتارہ جسے شاہ لطیف نے ایجاد کیا تھا۔ بہت زیادہ ہوا تو ایک پیتل کی تھالی۔ بس یہی آلاتِ موسیقی ہیں تھر میں۔
اکثر رات کو چوپال میں لوگ گیت گاتے ہیں اور سننے والے جھومتے ہیں اور کبھی کبھی بے خود ہوکر محوِ رقص ہوجاتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی پوری چوپال وجد میں آجاتی ہے اور پھر تو ایسا رنگ چڑھتا ہے کہ بس... میں اُسے لفظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتا۔ ہر موسم کا گیت، ہر پہر کا گیت، شادی اور بارات کے گیت، درد میں ڈوبے ہوئے اور انسان کو اپنی اصل منزل کا پتا بتاتے گیت... آپ ذرا ایک جھلک تو دیکھیں، کیا بات ہے اس گیت میں:
اس دنیا میں موت کا پتھر لعل جواہر توڑے
ترس ذرا نہ اُس کو آئے نازک بدن بھنبھوڑے
ازل کا مالی رحم نہ کھائے شاخ سے پھول مروڑے
نیا پرانا کچھ بھی نہ دیکھے، جڑ سے پیڑ بھنبھوڑے
جہاں بھی جا کر چھپ جائو گے، ملک الموت نہ چھوڑے
نازک بدن کو کیڑے کھائیں، جیسے موت جھنجھوڑے
قبریں دیکھو،غور کرو، کیا خاک نے جسم نچوڑے
کیسا لگا آپ کو؟ ہے ناں اس میں زندگی بھر کا نچوڑ۔ اور سنیے:
آیا ساون مینہ برسائے، سکھیاں پینگ چڑھائیں ری
عشق کی ظالم گھور گھٹائیں، میرے سر پر چھائیں ری
برہا والی بجلی چمکے، آنکھیں نیِر بہائیں ری
سہل نہیں ہے عشق ہدایت، اِس میں بڑی بلائیں ری
اور یہ دیکھیے کیا بات ہے اس میں:
آخر سوہنی وہاں پہ پہنچی، گھڑا جہاں رکھ آئے
پائوں میں کانٹے چبھ چبھ جائیں، پھر بھی بڑھتی جائے
اور گھڑا جو دیکھا اُس نے رو رو کرے صدائیں
کہے، رضا ہے تیری مولا، آنسو چھلکے آئیں
پکے سے تو کچا کرکے، یوں تقدیر بنائے
تو چاہے تو موت بھی بھاگے، کسی کو آنچ نہ آئے
اور ہمارے بھٹائی شاہ لطیف سائیں نے کہا ہے:
تیری رحمت سے مل گئے مجھ کو
زندگی ہی میں وہ مرے پیارے
اب وہ مجھ سے جدا نہ ہوں یارب
راحتِ جاں ہیں جن کے نظّارے
دشوار گزار رستہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔جیپ اچھلتی کودتی رواں دواں تھی کہ گائوں کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے۔ ''لطیف بھائی! آگیا گائوں۔'' جانو کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اپنے گائوں، اپنے شہر پہنچنے کی خوشی تو سب کو ہوتی ہے ناں۔ اور پھر ایک گھر کے سامنے گاڑی رکی۔ جانو اچھل کر نیچے اترا اور ہمارا سامان اتارنے لگا۔ چھوٹا سا گائوں، بس چار دکانیں۔ انڈین بارڈر سے صرف بیس منٹ کی مسافت پر۔ وہی ہوا جو ہر گائوں میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ گائوں کے بچے، بوڑھے اور جوان آگے بڑھ بڑھ کر سلام دعا کرتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہم ایک چونرے میں بیٹھ گئے اور گائوں کے لوگ ہمارا حال چال معلوم کرنے لگے۔ وہ آپ سے بہت کچھ سننا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں تو خیر کیا... کراچی کیسا ہے، وہاں کیا ہورہا ہے... اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو سیاسی حالات پر بات کریں۔ جب بھی کوئی مہمان آتا ہے، وہ سب سے پہلے پانی پلاتے ہیں اور بہت اہتمام کے ساتھ اور آپ سے پوچھے مانگے بغیر کھانے کا انتظام۔
میں بہت تھک گیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد گپ شپ ہوتی رہی اور مجھے نیند آگئی۔ میں مغرب کی نماز پڑھ کر سویا تھا۔ اب میری آنکھ کھلی تو رات کے نو بج رہے تھے۔ پورا گائوں سو چکا تھا، لیکن نوجوانوں کی ٹولی میرے انتظار میں جاگ رہی تھی۔ ارباب مالک انہیں بتا چکا تھا کہ میں دو، ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا۔ پھر کیا تھا وہی تھری کے گیت۔
کچھ انھوں نے سنائے اور پھر میری باری تھی۔ آپ کہیں بھی جائیں اگر آپ کو اس علاقے کی زبان کی تھوڑی سی بھی شد بدھ ہے تو اپنائیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ میں مائی بھاگی کا ایک گیت گا رہا تھا اور نوجوان میرا ساتھ دے رہے تھے۔ آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا، وسیع صحرا میں ہماری آواز گونج رہی تھی۔ پھر ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی اور نوجوانوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی اور میں دور کہیں صحرا میں کھویا ہوا تھا۔ کیا کرتا:
اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی
ہاں رات گزر ہی جاتی ہے۔ گزر جانے کے لیے ہی تو ہے وہ۔ رات، رات ہے، چاہے کتنی بھی لمبی ہو۔ اُس کی سحر ہوکر رہتی ہے۔ سحر کو کون روک سکتا ہے! کوئی بھی تو نہیں... ہاں کوئی بھی... جابر، ظالم، سرکش، باغی، عابد، زاہد، کوئی بھی نہیں روک سکتا سحر کو... ہاں اتنا ضرور ہے کتنا کھپ جاتا ہے انسان اس میں۔ بے حسوں، بے ضمیروں کی بات چھوڑ دیجیے، اُن کا تذکرہ رہنے ہی دیجیے۔ میرے سامنے اپنا دشمنِ جاں... ہاں ہاں میرا اجمل سراج کھڑا تھا ؎
طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں
جو تیرے دل میں تمنائے وصل زندہ ہو
تو اِس حیات کو اندیشۂ فنا ہی نہیں
تھری... میں نے آپ کو بتایا تو تھا، منہ اندھیرے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، پُرمشقت اور کٹھن دن سے لڑنے کے لیے... اُسے زیر کرنے کے لیے... اپنی ہمت سے اُسے بِتادینے کے لیے۔ ہاں منہ اندھیرے وہ اپنے بازو پھیلائے دن کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اکثر مجھے یاد آتا ہے:
منہ اندھیرے نظر آتے ہیں جو کچھ لوگ یہاں
یہ سحر خیز ہیں یا رات کے جاگے ہوئے ہیں
ہاں اب ہم جانو کے رحم و کرم پر تھے۔ بہت خوش تھا وہ اور اس کا بوڑھا ماموں، جو تھر کی تاریخ کا حافظ ہے۔ اُس کا سادہ لوح باپ، جس نے مجھ سے پوچھا تھا، ''سائیں! آپ دن بھر میں کتنے اخبار بیچ لیتے ہو؟'' مجھ سے پہلے ارباب مالک بول پڑا،''نہ بابا سائیں! یہ اخبار نہیں بیچتا'' یہ تو اخبار لکھتا ہے۔'' اور میں نے دیکھا اس کا چہرہ کتنا غمگین ہوگیا تھا... ''اوہو جب ہی تو کہوں اسے اناج کیوں نہیں لگتا۔ کیوں یہ کھاتا پیتا نہیں ہے۔ بس سارا دن دھواں اپنے اندر اتارتا رہتا ہے۔ میرے بچے تُو تو بہت تھک جاتا ہوگا۔ اتنا بڑا اخبار لکھنا، کتنا محنت طلب کام ہے۔''... ہے ناں سادگی کی انتہا۔ وہ مجھ سے اور زیادہ شفقت سے پیش آنے لگا تھا۔ وہ ہیں ہی ایسے۔ محبت و ایثار میں گندھے ہوئے۔ جن کا دل ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ہمارے دل کی طرح نہیں کہ بس ہڈیوں کے پنجرے میں لوتھڑا جو صرف دھک دھک کررہا ہے۔
ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں نے جانو سے کہا:''بس جانو تمہاری ضد پوری ہوئی۔ اب مجھے اجازت دو اور اجازت بھی کھلے دل سے۔ ہنسی خوشی سے۔ میں پھر آئوں گا' وعدہ رہا۔ زندگی نے وفا کی تو ضرور۔'' میری بات سن کر وہ سر جھکائے بیٹھ گیا اور ایک تنکے سے ریت پر آڑی ترچھی لکیریں بنانے لگا، ''آپ بالکل بھی نہیں رک سکتے؟'' کتنا مشکل سوال تھا اُس کا۔ ''میں ضرور آئوں گا۔'' اس سے زیادہ میں اُسے کچھ نہ کہہ سکا۔
ہمارا سامان جیپ میں رکھ کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ آج وہ بہت خاموش تھا۔ اُس کی ساری شوخی ہوا ہو گئی تھی۔ وہ پورے راستے خاموش رہا۔ بس ہوں، ہاں سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس نے اپنی جیپ ہماری گاڑی کے برابر آکر روکی اور ہمارا سامان منتقل کیا۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔
''اچھا جانو اپنا بہت خیال رکھنا۔'' مجھ سے گلے ملتے ہوئے وہ پھٹ پڑا۔ ''آپ بہت بُرے ہیں... بہت ہی بُرے۔'' وہ سچ کہہ رہا تھا' سچ کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے... ''ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، بالکل ٹھیک۔'' اُس وقت مجھے اپنا عرفان ستار یاد آیا ؎
ابھی اے بادِ وحشت اس طرف کا رُخ نہ کرنا
یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جارہا ہے
ہمیں آج اسلام کوٹ سے ہوتے ہوئے عمر کوٹ پہنچنا تھا۔ تھری اسی طرح زندگی سے نبرد آزما تھے۔ میں انہیں دیکھ کر سوچتا رہتا ہوں: کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں یہ۔ ہم ایسے کیوں نہیں ہیں؟ شاہ سائیں یاد آتے ہیں۔ آپ نے کہا تھا :
ایثار و قربانی کا سبق سوئی سے حاصل کرو
دوسروں کو لباسِ فاخرہ سے آراستہ کرتی ہے
اپنا تن ڈھانپنے کی
اُسے کوئی فکر نہیں ہوتی
اور یہ بھی تو کہا تھا شاہ سائیں نے ؎
سُکھ ہے تو آپے سے باہر نہ ہوجائو
دکھ درد میں صابر و شاکر رہو
نفس کی پیروی کے بجائے
عرفانِ نفس کی راہ اختیار کرو
اب آپ کو مل گیا ناں جواب کہ تھری ایسے شانت، ایسے محنتی، محبت و ایثار کا پیکر، خلوص و عظمت کا مینار کیوں ہیں۔ وہ زندگی کی اصل کو جانتے ہیں اس لیے۔ ہم بھی زندگی کو جانتے ہیں؟ پتا نہیں، بس ماہ و سال بیت رہے ہیں، کھا پی رہے ہیں، آسائشوں کی تلاش و حصول میں زندگی کھپا دی ہم نے، کیا وہ مل گئیں؟ اور اگر مل بھی گئیں تو کیا قیمت چکائی ہے ہم نے اس کی۔ کبھی نہیں سوچتے ہم۔ سوچنے کی فرصت کسے ہے! اور اگر مل بھی جائے تو ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ آپ رنجیدہ نہ ہوں نہ ہی خفا... میں تو اپنی بات کررہا ہوں۔ چلیے ہم کوئی اور بات کرتے ہیں۔
(جاری ہے۔)