ذکر کچھ سینے میں چھپے رازوں کا
درپردہ ایک مکمل خفیہ اسکرپٹ اور پلاننگ کے تحت سارے واقعات ظہور پذیر ہو رہے تھے۔
ISLAMABAD:
پچھلے دنوں مسلم لیگ (ن) کے بہت سے لیڈروں کی جانب سے پاناما کیس پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی کے حوالے سے پسِ پردہ سازش کابڑا ذکرکیا گیا۔خود وزیرِ اعظم نے بھی اپنے خلاف ہونے والی اِس سازش پر اِن ہی دنوں میںبڑی لب کشائی کی۔اُن کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے اپنی پیشی کے موقعے پر اِس سازش کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں کہہ گئیں۔
وہ بلاکسی اشتعال انگیزی اور چرب زبانی کے ہماری سیاسی تاریخ کی کچھ ایسی تلخ حقیقتیں بیان کرگئیں جن کاسامنا بہرحال ہمارے یہاں ہر جمہوری حکومت کو رہا ہے۔ وہ خواہ محمد خان جونیجو ہوں، یا محترمہ بینظیر بھٹو ہوں یاپھر محمد نواز شریف ہر سول وزیرِ اعظم کو ماضی میںکسی نہ کسی بہانے سے اقتدار سے محروم کیا جاتا رہا۔ مریم نواز نے جب اس سلسلے میں یہ کہا کہ میرے والدکے سینے میںایسے بہت سے را ز دفن ہیں تووہ شاید کچھ غلط بھی نہیںکہہ رہی تھیں۔ نواز شریف اس سے پہلے دوبار وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن اُنہیں ہر بارعوام کے ووٹوںکی بجائے غیر جمہوری طریقوں سے باہر نکالاجاتا رہا۔
سب سے پہلے 18 اپریل1993ء میں جب میاں صاحب کا بحیثیت وزیرِ اعظم پہلا دور حکومت تھا اور ابھی تقریباً دو سال ہی گزرے تھے تو اُس وقت کے صدرِ مملکت غلام اسحق خان نے-2b 58 بی کے ذریعے الزامات لگاکر میاں صاحب کواچانک فارغ کردیا ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اُن کے اِن الزامات کو غلط اور بے بنیاد قرارد یکر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کودوبارہ بحال کردیا توپھر بھی باز نہیں آئے اور سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے جواب میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ '' ابھی تو میرے ترکش میں بہت سے تیر باقی ہیں'' اور پھر سب نے دیکھا کہ ہوا بھی یونہی کہ کس طرح ایک منظم سازش کے تحت سارے منصوبے پر بڑی ہشیاری اورچالاکی سے عمل کیا جاتا ہے۔
میاں صاحب کی کمر توڑنے کی غرض سے سب سے پہلے بھاری مینڈیٹ والے پنجاب کے مسلم لیگی وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے خلاف عدم اعتماد کے تحریک لاکرمنظوراحمد وٹوکی شکل ایک سرکش کٹھ پتلی وزیرِاعلیٰ کو لاکر بٹھا دیا جاتا ہے جو اِس سازش کے باقی ماندہ اسکرپٹ پر بڑی ہشیاری اور چابکدستی سے عمل کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹوکے لانگ مارچ کو نہ صرف ویلکم کرتا ہے بلکہ اُسے ہر قسم کے مدد اورکمک بھی فراہم کرتا ہے۔
نتیجتاً یوں صرف تین ماہ کے مختصر عرصے میں عدالتِ عظمیٰ کے واضح فرمان اور بھاری عوامی مینڈیٹ کے باوجود میاں صاحب کی حکومت کو ازخود مستعفی ہونے پر مجبورکردیا جاتا ہے۔ یہ سب اندرونِ خانہ تیار ہونے والی کسی سازش کاحصہ نہ تھا تو اور کیا تھا۔کرپشن کے جن الزامات کے ساتھ غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑی تھیں اُنہیں تو ہماری عدلیہ نے اپنے تاریخی دوٹوک فیصلے میں یکسر مسترد کردیا تھا۔ پھرکیا وجہ تھی کہ اُس حکومت کو چلنے نہیں دیاگیا۔
اِس کے بعد دوسری مرتبہ 1999ء میں کارگل کے ایشو کوبنیاد بناکر اُس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء سے پندرہ روز پہلے ہی ایک کورکمانڈرز کی میٹنگ میں سول حکومت کی رخصتی کے معاملات زیرِ غور لائے گئے اور یہ طے کرلیا گیا کہ اب اس سول حکومت کے ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا۔ جس کی مخبری کوئٹہ کے کورکمانڈرلیفٹننٹ جنرل طارق پرویز نے وزیرِ اعظم کو کردی ۔ یہ وہی کورکمانڈر ہیں جنھیں بعد میں پرویز مشرف نے اِس جرم کے پاداش میں زیرِ عتاب بھی رکھا۔
کارگل کی جنگ کے بارے میں پرویز مشرف ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ یہ جنگ ہم نے واشنگٹن میں مذاکرات کی میز پر ہار دی، جب کہ غیر جانبدار مبصرین اور شواہد یہ بتا رہے ہیں کہ یہ جنرل مشرف کی جانب سے اپنے طور پر کی جانے والی ایک انتہائی غیر ذمے دارانہ حرکت تھی۔ جس کاخمیازہ ہمیں اپنے سیکڑوں فوجی جوانوں کی شہادت کی شکل میں اُٹھانا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس جنگ کے بارے میں ہندوستان نے تو ایک کمیشن بناکر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تحقیقات تو کرلی لیکن ہمارے یہاں جنرل مشرف اِس طرح کی کسی بھی تحقیقات سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔کیونکہ اُنہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہوگئیں توپھراُن کاسارابھرم کھل جائے گا۔ 12 اکتوبر1999ء کی شام کو جوکچھ ہوا اُس کے پیچھے بھی ایسی ہی کچھ وجوہات کارفرما تھیں۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی تو محض ایک بہانہ تھا۔ ورنہ میاں صاحب کا اقتدار سے معزول کیاجانا تو پندرہ روز پہلے ہی طے ہوچکا تھا۔
تمام سویلین جمہوری حکومتوں کے خلاف قیام پاکستان سے لے کراب تک ہمارے یہاں یہی کچھ ہوتا رہا ہے لیکن ہمارے یہاں کسی میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ اِن پس پردہ سازشی عناصرکو بے نقاب کر پائیں۔ جس نے بھی کبھی ایسی جراتِ رندانہ دکھانے کی کوشش کی اُس کاکام تمام کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کارگل معرکہ پرکمیشن بنانے کا مطالبہ کرنے والے وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو جب 2013ء میں ایک بار پھر اقتدار ملا تو وہ خود اپنے اِس مطالبے پر عملدرآمد نہیں کر پائے۔ وہ آج بھی اپنے خلاف ایسی ہی کسی سازش کی رٹ تو لگا رہے ہیں لیکن سازشی عناصرکا نام بتاتے ہوئے اُن کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے اکابرین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسی سازشیں کون کرتارہتا ہے کیونکہ وہ بھی خود بھی ایسی سازشوں کانشانہ بنتے رہے ہیں مگر وہ بھی اِس بارے میںکچھ بتانے کا حوصلہ نہیں رکھتے بس میاں صاحب کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے لطف اندوز ہوکر اُنہیں اِس کام پر اکساتے رہتے ہیں۔
2014ء میں انقلاب اور تبدیلی کے نام پر جو کچھ ڈراما رچایاگیا وہ ہمارے سیاستدانوں کے درمیان کوئی عام سیاسی کشمکش اور محاذآرائی نہ تھی۔ درپردہ ایک مکمل خفیہ اسکرپٹ اور پلاننگ کے تحت سارے واقعات ظہور پذیر ہو رہے تھے۔ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ اس ڈرامے کا آخری ڈراپ سین تھا۔ جو ناکامی و نامرادی سے دوچار ہوا۔ ورنہ خانصاحب کے دعوؤں کے عین مطابق اُس دن ایمپائرکی انگلی اٹھ جانی تھی اور میاں صاحب کا جانا تقریباً طے ہوچکا تھا۔
جمہوری حکومتوں کے خلاف ہمارے یہاں سازشیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن اِس میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خودہمارے سیاستداں ہی ایسی سازشوں کے آلہ کاربن کر اُنہیں مزید مہمیزکرنے کا ذریعہ بھی بنتے رہے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف جب کبھی ایسی کوئی سازش تیارکی گئی تو میاں نواز شریف اُن سازشی عناصرکے دوست اور حامی بن گئے اور جب میاں صاحب کے اپنے خلاف جب کبھی کوئی منصوبہ بندی ہورہی تھی تو اس کی مشاورت میں محترمہ بھی کبھی پیچھے نہیں رہیں۔
دو دو بار شکست و ریخت کا مزہ چکھ لینے کے بعد جب اِن دونوں سیاسی جماعتوں کو عقل آئی تو میثاقِ جمہوریت ترتیب دیا گیا۔ لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب اِن دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف جگہ بنا چکی تھی جس کے سربراہ کو ماضی میں ایسی کسی سازش کاسابقہ نہیں پڑا تھا اور وہ نئی نئی عوامی مقبولیت اور پذیرائی کے نشے میں اقتدار حاصل کرنے کے درپے ہیںخواہ اُس کے لیے موجودہ جمہوری سیٹ اپ ہی کیوں نہ اکھاڑ پھینکا جائے۔
دوسری جانب میاں نواز شریف تین بار وزیرِاعظم بن جانے کے بعد بھی یہاں کے سیاسی نظام کے اسرار ورموز ابھی تک سمجھ نہیں پائے ہیں۔ اُنہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ آئین و دستور میں درج اپنی مقررہ پانچ سال مدت پوری کرنے کے لیے یہاں کچھ قوتوں اور اداروں سے سمجھوتہ کرنا بہت ضروری ہے۔اُن کی سرپرستی اور بالادستی قبول کیے بغیرکوئی بھی حکمراں ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتا۔