ذرا تھم کے کہ سین آن ہے

ہماری گزارش ان تمام فلم میکرز سے ہے کہ براہ کرم فلم میکنگ آرٹ کے حوالہ سے اپنی تہذیب و تمدن کا خیال رکھا جائے۔


Shehla Aijaz July 26, 2017
[email protected]

فلم انڈسٹری کا اچھا دور شروع ہو چکا ہے، خدا خدا کر کے اب ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں اچھی فلمیں بن رہی ہیں اور کچھ ایسی بھی فلمیں بن رہی ہیں کہ جن پر پیسہ تو بہایا گیا ہے لیکن محض اپنے شوق کی خاطر، فلم کرافٹ کا مذاق بنایا گیا ہے۔ ایسی فلموں کا تذکرہ کیا کریں لیکن یہ فلمیں ان فلم بینوں کے لیے نقصان دہ ہیں جو محض فلمیں دیکھنے کے لیے سینما گھروں کا رخ کرتے ہیں اور سینما گھر بھی ایسے مہنگے کہ نہ پوچھیے اور پھر ان کے پردہ سیمیں پر ایسی ایسی تماشا فلمیں دیکھ کر کان پکڑ لیں کہ توبہ ہی بھلی۔ تو فلموں کا مستقبل کیا؟

ایک زمانہ تھا جسے ہم فلموں کا سنہری دور کہہ سکتے ہیں۔ اسی پاکستانی سنہری دور کی بات ہے جب فلم 'سات لاکھ' پاکستانی سینما گھروں کی زینت بنی جس کا مشہور گانا ''آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے تو چھٹی لے کے آ جا بالما'' یہ گانا اداکارہ نیلو، صبیحہ خانم اور سنتوش کمار پر فلمایا گیا تھا۔ اس گانے کی مقبولیت پاکستان بھر میں تو تھی ہی لیکن ہندوستان میں بھی یہ گانا بے حد مقبول تھا اور فلم کی پسندیدگی کا کیا پوچھیے کہ اس فلم نے ریکارڈ قائم کیے تھے۔

اس سنہری دورکی سنہری فلم 'سات لاکھ' کی مقبولیت نے ایسا جادو جگایا کہ ایک دل والے جو اس زمانے میں ہندوستان میں تو رہتے تھے اور دل پاکستانی فلموں میں اٹکا رہتا تھا لہٰذا ٹرین میں دہلی سے سفر کرتے لاہور پہنچے اور سیدھے سینما گھر کا رخ کیا لیکن یہاں سینما پر رش کا یہ عالم کہ نہ پوچھیے سخت دل گرفتہ ہوئے کہ اپنی پسندیدہ فلم کا دیدار نہیں ہو سکے گا کسی نے سنا تو سمجھایا کہ رسائی سینما کے منیجر تک کی جائے شاید بات بن جائے، انھوں نے ہمت پکڑی اور رش کی پرواہ نہ کرتے سینما کے منیجر تک جا پہنچے ان کو اپنا ٹرین کا ٹکٹ دکھایا کہ آج ہی اس فلم کو دیکھنے بھارت سے لاہور پہنچے ہیں اور صبح پھر سے بھارت کی روانگی ہے وقت کم ہے بکنگ تیار ہے اب کیا ہو سکتا ہے۔

کیا اپنی پسندیدہ فلم کہ جس کی خاطر اتنا طویل سفر کر کے یہاں پاکستان پہنچے بنا دیکھے ہی لوٹ جائیں۔ سینما کا منیجر بھلا مانس تھا ان کے اس جذبے کو اس نے بہت سراہا اور ان کے لیے خاص طور پر الگ سے ایک کرسی منگوا کر سینما ہال میں رکھوائی اور ان کے لیے چائے پانی کا بھی بندوبست کیا کہ وہ یہی مہمان داری کر سکتے تھے، تو جناب یہ تھا پاکستانی فلموں کا سنہری دور اور قدر کرنے والے ایسے ایسے لوگ تھے کہ جن کی وجہ سے سینما ہال آباد تھے۔

اس دور میں کام کرنے والے بھی خوب تھے اور کروانے والے بھی خوب۔ ''الف سے اچھی گ سے گڑیا ج سے جاپانی'' والی خاموش مشہور پاکستانی فلمی اداکارہ جنھوں نے ماضی میں دولت اور دنیا، انیلا اور غرناطہ جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا اور اداکارہ روزینہ سے ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں انھوں نے اپنے فلمی دور کی یادیں تازہ کر کے کہا تھا کہ اس زمانے میں اس قدر ریہرسلز ہوتی تھیں اور شیڈول پر اس قدر پابندی سے عمل ہوتا تھا کہ ہم سیٹ پر دن رات رہتے تا کہ کام متاثر نہ ہو اور ڈائریکٹر ابھی اسی طرح سختی سے کام کرواتے تب کہیں جا کر ایک اچھی فلم بنتی تھی۔ ویسے سچ ہی ہے کسی اچھی چیز کی تکمیل کے لیے سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ فلم ''عندلیب'' جس میں شبنم اور وحید مراد نے کیا خوب اداکاری کی تھی اور جس کا مشہور گانا ''کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے'' نور جہاں نے کیا خوب گایا ہے اسی گانے کو احمد رشدی کی شوخ آواز نے خوبصورت اور منفرد بنا دیا تھا، ہر زمانے میں ستر کی دہائی کی فلموں کے گانوں نے کیا خوب رنگ جما رکھا تھا جو آج بھی کانوں کو بھلا لگتا ہے۔

بات ہو رہی تھی فلم ''عندلیب'' کی جسے فرید احمد نے بنایا تھا، فرید احمد مشہور ہدایت کار اور پروڈیوسر ڈبلیو زیڈ احمد کے صاحبزادے تھے، جب یہ فلم سینما پر ریلیز ہوئی تو سخت ٹینشن کا شکار تھے ان کا خیال تھا کہ فلم فیل ہو جائے گی لیکن جب فلم چلی تو اس کی شہرت نے جھنڈے گاڑ دیے وہ اس کی کامیابی پر بے حد خوش تھے یہ بات خود انھوں نے میرے والد مرحوم کو بتائی تھی۔ جب وہ اس فلم کے سلسلے میں کراچی آئے تھے اور جبر کر کے والد مرحوم کو وہ فلم بھی دکھائی تھی۔ دراصل اس زمانے میں مقابلے کا رجحان سخت تھا۔ بڑے بڑے نامی گرامی حضرات جو نہ صرف اپنے کام میں بلکہ تعلیمی قابلیت میں بھی خاصے بلند تھے۔ سخت محنت کے باوجود وہ متزلزل ہی رہتے کہ پتہ نہیں فلم بینوں کو پسند آئے یا نہ آئے۔

یہ باتیں ماضی کی ہو رہی ہیں، کیا ہوتا رہا ابتدا میں۔ آج کل میں بننے والی فلموں کی تو جناب ملبوسات کے حوالے سے تو نہ پوچھیے اب اس جانب بھی ہدایت کاروں نے خوب سیکھ لیا کہ آدھے گز میں کس طرح ہیروئن کو کسی نہ کسی طرح ڈھانپ لیا جاتا ہے۔ (مراد کپڑوں سے ہے) لیکن جس کو دیکھو فلم بنانے کا اعلان کر رہا ہے۔ کئی ایک نے تو کمال بھی کر ڈالا، ویسے ساحر لودھی اچھے بھلے پڑھے لکھے اور خوب اچھے فنکار بھی ہیں بیک وقت وہ اداکاری بھی اچھی کر لیتے ہیں اور میزبانی بھی خوب نباہ لیتے ہیں، اچھے انسان بھی ہیں لیکن یہ بھی ان کا کمال تھا کہ انھوں نے فلم بنانے کی ہمت کر ڈالی۔ ہمارے اداکار بھی اچھے ہیں، ہدایت کار بھی اچھے ہیں یہاں صلاحیتوں کی بالکل کمی نہیں ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی یہ انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں لگی ہے۔ ایسے میں محض تجربات نہ ہی کیے جائیں تو بہتر ہے۔

ایسا ہی تجربہ حنا دلپذیر نے بھی کیا تھا اور ایم شہزاد نے بھی۔ پیسہ بھی خوب لگایا لیکن کامیابی کس کس کو ملی۔ یہ دیکھیے کچھ فلمیں تو ایسی بھی دیکھی گئیں کہ جی چاہا کہ سر پیٹ لیں، تخلیق اور آرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں، بے ہودگی کے ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی گئی، خدا خیر کرے پڑوس میں ہی دیکھ لیں کھلی کھلی فلموں کے کیا کیا ہولناک سماجی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں، بلاوجہ لے تشدد، شرمندہ کرنے والے رقض، ترغیب و ہیجان انگیزی نے فلمی کلچر کو بے سمت کر دیا ہے۔

ہماری گزارش ان تمام فلم میکرز سے ہے کہ براہ کرم فلم میکنگ آرٹ کے حوالہ سے اپنی تہذیب و تمدن کا خیال رکھا جائے، نئے لوگ پڑھے لکھے بھی ہیں، ندرت خیال سے آراستہ اور جوشیلے بھی ہیں، وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں، لہٰذا اپنے علاوہ دوسروں کو بھی مواقعے دیں کہ ابھی اس انڈسٹری کے ابھرنے کا وقت شروع ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں