کراچی سرکلر ریلوے اب سی پیک کے تحت

1999ء میں سرکلر کی لوکل ٹرینیں خسارہ کا بہانا بنا کر بند کر دی گئیں۔


Manzoor Razi July 26, 2017

وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور ریلوے نے بھی طے کرلیا ہے کہ اب کراچی سرکلر ریلوے (KCR) کو سی پیک کے منصوبے کے تحت تین سال میں چلا دیا جائے گا؟ اس پر کام بھی جاری ہے تا حال انکروچمنٹ (ناجائز تجاوزات) ہٹانے کا مسئلہ ہے اور کہیں کہیں صفائی بھی کی گئی ہے دیگر انتظامات بھی کر لیے گئے ہیں۔

حکومت کا موقف ہے کہ ہم کراچی کے شہریوں کو بہترین تحفہ دیںگے تا کہ شہری ٹرانسپورٹ مافیا کے چنگل سے کسی طرح آزاد ہو سکیں اور کراچی کے عوام ریلوے کی بہتر سہولت حاصل کر سکیں۔ میرا چونکہ ریلوے سے گہرا تعلق تھا اور اب بھی ہے۔ میں 1945ء میں کراچی سٹی ریلوے کالونی میں پیدا ہوا۔ تقسیم ہند کا پتہ نہیں والد 1940ء میں ریلوے میں ملازم ہو گئے تھے، سو میں بھی ریلوے کالونی میں پلا بڑھا۔ مختصر یہ کہ ایوب خان کے دور حکومت میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے زیادہ تر افراد کراچی آگئے۔ کراچی شہر خالی تھا آبادی کم تھی لوگ آباد ہو گئے۔

ایوب خان کے ایک جنرل اعظم خان نے مہاجرین کی آبادی کو بسانے کے لیے لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈرگ کالونی میں رہائش کے لیے سرکاری کوارٹرز بنائے جہاں یہ لوگ آباد ہوئے۔ چونکہ ریلوے کا نظام موجود تھا اس لیے کراچی سٹی اسٹیشن تا لانڈھی لوکل ٹرینیں چلائی گئیں تا کہ اس میں عام مسافر اور رہائشی عوام سفر کر سکیں۔

25 پیسے ٹکٹ مقرر کیا گیا۔ اس طرح کراچی سٹی تا لانڈھی اور ملیرکینٹ تک ٹرینیں چلائی گئیں۔ اسی دوران طے کیا گیا کہ پورے کراچی کو محفوظ کرنے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے بھی چلائی جائے تا کہ عوام کو بہتر سفری سہولتیں میسر کی جائیں۔ یہ منصوبہ 1958ء تا 1968ء مکمل ہونا تھا۔ چونکہ کراچی کی آبادی بڑھ رہی تھی نئی نئی آبادیاں بن رہی تھیں۔

اس لیے لوکل ٹرین کا نظام ضروری تھا جب کہ کراچی میں ویگن اور بسوں کا نظام برائے نام تھا۔ قصہ مختصرکراچی سرکلر ریلوے کا پروگرام 1969ء میں مکمل ہو گیا اس طرح کراچی سٹی تا لانڈھی، ملیر کینٹ، مین لائن پر لوکل ٹرینوں کے علاوہ میل ایکسپریس ٹرینیں بھی چلتی رہیں جو ڈرگ روڈ اور لانڈھی اسٹیشن پر کھڑی ہوتی تھیں بعد میں لوکل ٹرینوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔ چونکہ ایوب خان کے دور میں لانڈھی انڈسٹریل ایریا قائم ہو چکا تھا۔ پھر (PIDC) پاکستان انڈسٹریل ایریا کے تحت سائٹ میں بھی ملوں اور کارخانے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ لاکھوں مسافر ان ٹرینوں میں سفر کرنے لگے۔ کراچی سٹی تا لانڈھی اور ملیر کینٹ کے لیے 28 ٹرینیں اپ میں جاتی تھیں اور اسی طرح 28 ٹرینیں ڈاؤن میں آتی تھی۔

بعد ازاں سرکلر ریلوے بھی چل پڑی جو لانڈھی، ملیر، کینٹ کے بعد ڈرگ روڈ اور ڈرگ کالونی سے براستہ ہوتی ہوئی ڈپوہل، کراچی یونیورسٹی، اردو کالج،گیلانی، لیاقت آباد، ناظم آباد، اورنگی ٹاؤن، منگھو پیر، سائٹ، بلدیہ، لیاری اور وزیر مینشن (ٹاور) تک چلائی گئیں۔ بعد ازاں 1970ء میں وزیر مینشن سے توسیع کر کے کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) اور کراچی سٹی پر پلیٹ فارم 5-6 کا اضافہ کر کے اس پورے سرکل کو مکمل کر لیا گیا۔ اس طرح مکمل طور پر کراچی سرکلر ریلوے چل پڑی جس پر لاکھوں مسافر 25 پیسہ ادا کر کے سفر کیا کرتے تھے۔

مجھے یہ بھی اعزاز حاصل رہا ہے کہ جنوری 1970ء میں کراچی کے پلیٹ فارم 5-6 جو کہ نیشنل بینک ہیڈ آفس کے ساتھ منسلک ہے پہلا ٹکٹ میں نے جاری کیا جو کہ PTV پر دکھایا گیا۔ وائس چیئرمین ریلوے D.S کراچی نے لائن (Q) میں لگ کر مجھ سے ٹکٹ حاصل کیا اور 13 ٹرینیں اپ میں 13 ٹرینیں ڈاؤن میں چلنے لگیں۔

اس طرح کل لوکل ٹرینیں 41 اپ میں 41 ڈاؤن میں چلنے لگیں۔ اس طرح کل 82 لوکل ٹرینیں روز آنے اور جانے لگیں۔ ماہانہ ٹرین ٹکٹ جاری کیے گئے۔ یہ لوکل ٹرینیں 1955ء تک بڑی کار آمد رہیں۔ پھر اس کا کرایہ 2 روپیہ، پھر 5 روپیہ پھر 7 روپیہ اور بعد میں 10 روپے ہو گیا بعد میں ٹرانسپورٹ مافیا بھی آگئی۔ کرائے بڑھ گئے جو کراچی سٹی تا لانڈھی 55 منٹ کا تھا اب ایک گھنٹے بیس منٹ ہوگیا جب کہ سرکلر ریلوے کا ٹائم دو گھنٹے ہوگیا بغیر ٹکٹ کا رجحان بڑھ گیا ٹرینیں لیٹ ہونا شروع ہو گئیں خسارہ بڑھ گیا۔ اس طرح ریلوے کے چیئرمین جو بعد میں وزیر ریلوے بھی بنے جو پرویز مشرف کی حکومت میں جن کا نام جاوید اشرف قاضی ریٹائرڈ جنرل تھے۔

1999ء میں سرکلر کی لوکل ٹرینیں خسارہ کا بہانا بنا کر بند کر دی گئیں۔ اس طرح 1999ء سے سرکلر ریلوے بند پڑی ہے۔ بعد میں اس کو چلانے کا منصوبہ 2005ء میں بنایا گیا تا حال سرکلر ریلوے نہیں چلی اب آخر میں پھر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، شہری حکومت کو خیال آیا کہ سرکلر ریلوے چلنی چاہیے۔ سو اب میں نئی صورتحال کے تحت جوکہ میڈیا میں خبریں بھی بن رہی ہیں۔ پہلے سرکلر ریلوے کو جاپان کی مدد سے جائیکا کے ذریعے 5 سال بعد 2019ء تک چلایا جانا تھا جس پر 240 ارب خرچ آنا تھا مگر یہ منصوبہ چل نہیں سکا۔ حکومت سندھ، ریلوے، شہری حکومت اور وفاقی حکومت نے مل کر جاپان سے معاہدہ منسوخ کیا اس پر کتنا نقصان ہوا یہ لکھنا اب بیکار ہے۔

مختصراً اب سی پیک کے تحت چین اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا اور اس پر 276 ارب خرچ آئے گا۔ ان ٹرینوں پر 6 لاکھ مسافر روزانہ سفرکریں۔ کرایہ 16 روپے تا 24 روپے ہو گا۔ ریلوے میں 34 اسٹیشن بنائے جائیںگے جوکہ انڈر گراؤنڈ اور اونچی سطح پر بھی اور زمین پر بھی ٹرینیں چلیںگی۔ دیکھیں کب چلے گی؟ ہم منتظر رہیںگے، باقی آیندہ تحریر کریںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔