GDP نہیں HDI
مالی سال 17-2016ء میں حکومت نے 10.1 ارب ڈالر کے قرضے لیے
مالی سال 17-2016ء میں حکومت نے 10.1 ارب ڈالر کے قرضے لیے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک سال کے اندر کبھی بھی اتنے قرضے نہیں لیے گئے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس میں چار ارب ڈالر کے قرضے چھوٹے دورانیہ کے تھے یا یوں کہئے کمرشل بینکوں سے لیے گئے تھے اور جس پر سود کی شرح زیادہ لاگو ہوتی ہے، گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں بجٹ اخراجات کی مد میں دو ارب ڈالر تک کا تخمینہ لگایا گیا جب کہ لیے چار ارب ڈالر گئے۔ ہمارا بیرونی زرمبادلہ 24 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا جو کہ اب 20 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔
یہ زرمبادلہ اور بھی گِر جاتا اگر ہم بیرونی قرضے لے کر مصنوعی طریقے سے اِس کو بہتر نہ بناتے۔ اگر ہماری برآمدات 24 ارب ڈالر سے گِر کر 20 ارب ڈالر نہ ہوتیں تو بیرونی زرمبادلہ کو مصنوعی طریقے سے توازن میں رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ساتھ ساتھ Remittences بھی ساڑھے 19 ارب سے گِر کر ساڑھے 17 ارب تک پہنچے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہماری درآمدات 45 ارب ڈالر سے 53 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ آخری ڈیٹا آنے تک پتہ یہ چلا کہ کر نٹ اکاؤنٹ خسارہ دراصل 12.1 ارب ڈالر ہے۔اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ہم ایک بہت بڑے دلدل میں دھنسے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں اور درآمدات کم ہو رہی ہیں۔
اگلے ہفتے تک 2017ء کی مردم شماری کی آخری رپورٹ پیش ہونے کو ہے یعنی ہر سال ہماری آبادی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے کہ ہم نئے قطر کو جنم دے رہے ہیں (قطر کی کل آبادی 26 لاکھ ہے) ہماری درآمدات میں ہر سال کھانے کی اشیاء میں اضافہ ہورہاہے لگ بھگ 17 فیصد۔ لازمی پہلو اِس کا یہ ہے کہ جس طرح سے آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے اسی طرح سے کھانے پینے کی اشیاء کا بھی مگر آبادی تو چین کی بھی بڑھ رہی ہے 1990ء میں چین کی فی کس آمدنی ہم سے% 50 کم تھی اور آج 200% سے زیادہ ہے۔ 1990ء کی دہائی میں ہی ہندوستان کی فی کس آمدنی40% کم تھی اور آج 20% سے زیادہ ہے۔ہمارا معاملہ بنیادی طور پر معاملہ ہے ہمارے انسانی وسائل کی کمی کا۔ ہم جس معیار پر اپنی معیشت کو تولتے اور پرکھتے ہیں وہ ہمارے ملک کے لیے بنی ہی نہیں ہے مثال کے طور پرمجموعی پیدا وار، شرح نمو، بیرونی ذخائر، اسٹاک ایکسچینج، رئیل اسٹیٹ اور ایسے تمام پیمانے جو مروّج ہیں جن سے اِس ملک کی مانیٹری اور فسکل پالیسی کا تعین ہوتا ہے۔ GDP (مجموعی پیداوار) کے بر عکس ہماری ترقی کو پرکھنے کا معیارHDI (انسانی وسائل کی ترقی) ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں، میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوںکہ پاکستان کی ایکسپورٹ کے گرنے کی وجہ پاکستان میں HDI کے معیار کا گِرنا ہے۔ چین نے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو قدراً بہتر اسکول و اسپتالیں دیں، صحیح اور صحتمند غذا فراہم کی، پینے کا صاف پانی دیا مختصر یہ ہے کہ ایک بہترمعیار زندگی دیا اور ساتھ ہی ایک ایساا نفرا اسٹرکچر دیا جس سے ایک Skilled Labour پیدا ہوا اور یہSkilled Labour ایسے سیکٹر میں Employed ہوا جو برآمدات کے لیے کام کرتا تھا جس سے چین کے بیرونی زرِمبادلہ میں اضافہ ہوا۔ہماری معیشت کا کیا ماجرا ہے۔
بہت زیادہ اونچ نیچ کا شکار ہے۔ یومیہ آمدنی ساڑھے چار سو روپے ہو گی مگر 60% آبادی ایسی ہے جس کی یومیہ آمدنی ایک سو روپے سے زیادہ نہیں۔ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والوں کو جس پیمانے سے تولا جاتا ہے وہ اگر ایک ڈالر سے بڑھا کر دو ڈالر فی کس پر رکھا جائے تو اس پیمانے کے تناظر میںپاکستان کی اکثر یت غربت کی لکیر کے نیچے رہتی ہے جو بنیادی بات اِس تمام دیے ہوئے ڈیٹا کے حوالے سے میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستان کی غربت کی لکیر کا، پاکستان کی برآمدات سے، پاکستان کی تجارت سے، پاکستان کے زر مبادلہ سے NEXUSہے۔ ہماری گورننس 1990 ء تک قدرے بہتر تھی۔چین و ہندوستان کی گورننس اْس زمانے میں یقینا ہم سے بھی بہتر ہو گی مگر مارکیٹ اکانومی میں وہ ہمارے بعد داخل ہوئے، 1990ء میںامریکا، افغانستان سے رخصت ہو گیا اور ہمارے پاس مذہبی انتہا پرستی چھوڑ گیا۔ ہمارا یہ ملک نظریاتی تشخص کے نظرئیے میں الجھتا گیا۔
یہ وہ ہی نوازشریف تھے جو ضیاء الحق کا تسلسل تھے اور آج وہ جمہوریت کے دعویدار ہیں۔ کل جو بھٹوز جمہوریت کے علمبردارتھے، تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ آج ان کے جانشین آصف زرداری صاحب ہیں۔ 1990ء سے لے کر آج تک یعنی اِن 27 سالوں میں دس سال آمریت کا راج رہاا ور 17سال جمہوریت۔1998ء تک جمہوریت کو58 2 (B) کے تحت معذور رکھا گیا۔ وہ فطری طورپر پنپ نہ سکی اور اس طرح سے وہINSTITUTION نہ بن سکی۔ آمریت نے ایک ایسے سیاسی کلچر کو پروان چڑھایا جس نے درباری تو بہت پیدا کیے مگر خودار سیاستدان نہ پیدا ہو سکا۔ ملک برادریوں، سرداروں، پنچائیتوں، چوہدریوں، خانوں اور وڈیروںکے ماتحت اور امریکا کے اثر و رسوخ میں چلتا رہا۔ اِس ملک کا کوئی بھی وفادار نہ تھا۔ پاکستان کومستقل مزاجی سے جمہوریت کے اندر پروان چڑھنے کا موقع 2008ء سے مِلا۔ دو ادوار جموریت کے مستقل چلے اور تیسرا بیلٹ باکس دہلیز پر کھڑا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اِن ادوار میں وزیر اعظم پانچ سال پورے نہ کر سکے مگر پارلیمنٹ کو نہ توڑا گیا۔
ہماری معیشت دونوں ادوار میں اور مشرف کے دور میںاْنیس، بیس کے فرق سے ایک ہی اصول پر چلتی رہی۔ اقرباء پروری دونوں کا ایمانِ اول تھا جو تبدیلی بالآخر آئی وہ یہ کہ ہم امریکا کے پنجے سے نکل چکے ہیں۔ ہمار ے اندرونی سیاسی بحران میں امریکا کا کلیدی کردار رہا۔ ہمارے لیڈران اور آمر دونوں امریکا کے زیر ِ اثر رہے اور اب حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ ہم کسی بھی وقت آنیوالے سالوں میںقرضے کے بحران میں پھنس سکتے ہیں جس طرح ماضی قریب میںیونان قرضے تلے دھنس گیا تھا۔
یونان کا TAXATION STRUCTURE بھی ہم جیسا تھا یعنی اشرافیہ کے لیے جنت، ٹیکس کی شرح، مجموعی پیداوار کی بہ نسبت9.5 ہے جو ہمیں گورننس کے اعتبار سے دنیا کے چند بد ترین ممالک میں شامل کر تا ہے۔ اس ملک کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اِس ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے یعنی فطری اعتبار سے فارن پالیسی بنانی ہے، تجارتی تعلقات پیدا کرنے ہیں لوگوں سے جڑی اور سچی قیادت پیدا کرنی ہے۔ آزاد ادارے بنانے ہیں جلد و سستا انصاف مہیا کرنا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی معیشت کو پرکھنے کا معیار، ہماری GDP کو نہیں بلکہHDI کو بنانا ہے۔