پانچ اور چودہ فروری
نافقت اور موافقت کو عیاں ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے، بس وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے.
ماہ فروری دوخاص دنوں کی وجہ سے بے حد اہم ہے ایک دن وہ ہے جب کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور دوسرا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے فروری کا مہینہ شہرت رکھتا ہے۔
5 فروری کے منانے والوں میں اہل نظر اور اہل فکر کا کردار ہوتا ہے گوکہ آزادی کشمیر کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا جاتا ہے، ہر سال بات منصوبوں، کچھ کرنے کے عزم سے آگے نہیں بڑھتی ہے، اس کے برعکس 14 فروری کو وہ لوگ دھوم دھام سے مناتے ہیں جن کا کوئی نظریہ یا فکر نہیں ہے، ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو زندگی کو انجوائے کے طور پر گزارتے ہیں، انھیں کل کی فکر نہیں ہے، وہ اس بات سے بھی بے نیاز ہیں کہ ہم جس راہب کی یاد میں یہ دن مناتے ہیں، خوشیاں بانٹتے ہیں، تحفے، تحائف دیتے ہیں، کنج تنہائی کا اہتمام دھوم دھام سے کرتے ہیں، اس کا ہمارے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
شادی یا آپس کی محبت پر پابندی وہاں لگی تھی ۔ لیکن جناب! ہمارے ملک کے نوجوان ہی اس دن کو خوش آمدید نہیں کہتے ہیں بلکہ چندکے علاوہ پوری قوم پہلے ہی سے تیاریوں میں لگ جاتی ہے، بازاروں میں بھی تحفے، تحائف، کارڈز، پھول، مٹھائیاں اور کیک فروخت ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اتنے پھول خریدے جاتے ہیں کہ گل فروشوں کی دکانیں پھولوں سے خالی ہوجاتی ہیں۔ نوجوان، بوڑھے سب ہی اس دن شوخیاں دکھاتے ہیں اور ہوٹلوں اور پارکوں کی راہ لیتے ہیں۔ زندگی اور موت کا تماشا اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے کہ ایک طرف امریکا ڈرون حملوں کے ذریعے نہتے عوام کو مار رہا ہے اور ان حملوں کو قانونی و اخلاقی طور پر جائز قرار دے رہا ہے، وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ہم پر حملہ کرنے والا ہمارا دشمن ہے، لیکن ہم یہ بات اپنے لبوں پر نہیں لارہے ہیں کہ نہتے لوگوں کا خون بہانے والے ہمارے دوست کب ہوسکتے ہیں؟ ہم مغرب کی تقلید میں اندھے ہوچکے ہیں، ملک میں اس قدر قتل و غارت ہے کہ لگتا ہے کہ ہمارا مقابلہ غیر مسلموں سے ہے اور جیسے یہ ہمارا ملک ہی نہیں جہاں تحفظ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ہر روز لوگوں کی زندگیوں کا دیا بجھ جاتا ہے، کبھی بم دھماکے تو کبھی ٹارگٹ کلنگ سے اچانک ہونے والے حادثات و سانحات الگ۔
لاشیں سڑکوں پر پڑی رہتی ہیں، دھرنے دیئے جاتے ہیں، محض دولت اور مال و زر بچانے کے لیے زندہ سلامت افراد کو جلتی آگ میں جھونک دیا جاتا ہے، آن واحد میں سیکڑوں لوگ جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں، اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں، پھر ڈی این اے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، بعض اوقات اس میں بھی تاخیر ہوتی ہے، ورثاء بے چارے منتظر رہتے ہیںکہ کب انھیں ان کے پیاروں کی لاشیں موصول ہوں اور وہ ان کی آخری رسومات کرکے انھیں دفنا دیں، کتنے لواحقین ایسے ہیں جو اپنوں کی یادوں کا بوجھ اپنی خمیدہ کمر پر لادے گھوم رہے ہیں کہ انھیں لاش ہی موصول نہیں ہوئی کہ آخری دیدار کرلیں۔ اس حسرت کو لیے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا چھوڑ جاتے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں، بے شمار داستانیں ہیں جو انجام تک نہیں پہنچ سکیں اور ناکامی و بے بسی کے گھاٹ چڑھ گئیں۔ اس قسم کے حالات میں اس سال ویلنٹائن ڈے منانا کیا زیب دیتا ہے؟
مسئلہ کشمیر آج کا نہیں بلکہ جب پاکستان وجود میں آیا تھا بھارت 1947 میں ہی کشمیر پر قابض ہوگیا تھا اور اپنی فوج کے کئی ڈویژن بھیج دیئے گئے تھے اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان اپنی غاصبانہ سوچ و فکر اور اپنے نظریات کے تحت کشمیر پر قبضہ کیے ہوئے ہے، بھارت اور پاکستان میں منافرت و مخالفت کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بارہا گفت و شنید اور باضابطہ طور پر مذاکرات ہوئے ہیں لیکن بات بنتی نظر نہیں آتی کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے کو تیار نہیں، انھی حالات کی وجہ سے پاکستان و ہندوستان میں جنگ بھی ہوئی۔ 1965کی جنگ اسی مسئلے کی یاد کو تازہ کرتی ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔1990 میں میاں نواز شریف کے دور حکومت میں یوم یکجہتی کشمیر کا آغاز ہوا تھا، اب ہر سال حکومتی سطح پر 5 فروری کو باقاعدگی کے ساتھ منایا جاتا ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ 22 سال سے کشمیر کے حوالے سے بات کی جاتی ہے، پروگرام کیے جاتے ہیں، منصوبے بنائے جاتے ہیں، لیکن بات اس سے آگے ہرگز نہیں بڑھتی ہے۔
اتنے سال گزرنے کے بعد کوئی خاطر خواہ نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ کشمیریوں پر ہندوستانی فوج نے ظلم کی انتہا کردی، ہزاروں نوجوانوں کو شہید اور بے شمار کشمیریوں کو معذور کردیا گیا، ہندوستانی افواج بھی گولیاں اور گولے برساتے برساتے نفسیاتی مریض بن گئی اور فوجیوں کی خودکشی کی خبریں گشت کرنے لگیں۔ نہتے، معصوم، بے قصور مسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو ذرہ برابر لاج نہ آئی اور انصاف کا جنازہ سرعام نکال دیا گیا، بھارت کے اس ظلم سے پوری دنیا واقف ہے، لیکن مجال ہے کہ اقوام متحدہ اور دوسری امن کی تنظیمیں اس زیادتی کے خلاف آواز آٹھائیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، امریکا نے بھی کشمیریوں پر ہونے والے تشدد پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ امریکا نے عراق، افغانستان، کویت، فلسطین پر ظلم کے نام پر اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر جو وحشیانہ کارروائی کی اور ان ممالک کی حق خودارادیت کو داؤ پر لگایا محض ہتھیار رکھنے کے جرم کی سزا ان ممالک میں خونریزی کراکے دی اس کے اس عمل سے نہ صرف یہ کہ عالمی امن خطرے میں پڑ گیا بلکہ عالمی معیشت بھی ڈگمگانے لگی، امریکا نے کبھی مسلمانوں یا کشمیر کے حوالے سے منصفانہ کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہندوستان کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ کشمیر کو اپنے جارحانہ تسلط سے آزاد کرے اور انھیں آزادی سے جینے کا حق فراہم کرے جب کہ امریکا اپنے آپ کو جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے ان افکار کے نتیجے میں اس کا اولین فرض ہے کہ وہ بھارت کو یہ باور کرائے کہ کشمیر ہندوستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اس سال بھی آزادی کشمیر کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور علماء نے تقاریر کیں، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی نے جماعۃالدعوۃ کے تحت نکالے جانے والے کشمیر کارواں میں مقبوضہ کشمیر سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''بھارت کے تمام مظالم کے باوجود کشمیری قوم کا جذبہ حریت پہلے سے زیادہ بڑھ چکا ہے، پاکستان اور مسلم دنیا کشمیر کی آزادی میں اپنا کردار ادا کرے اور ہندوستان سے تجارت نہیں بلکہ شہ رگ آزاد کرانے کی بات کی جائے''۔جماعت اسلامی کے ساتھ دوسری مذہبی جماعتوں نے بھی اپنی تقاریر کے ذریعے بھارت کو احساس دلایا کہ وہ کشمیر سے اپنی فوجوں کو واپس بلائے۔آزادی کشمیر کے حوالے سے حکومت کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود آج بھی یہ مسئلہ کھٹائی میں پڑا ہے۔ آج بھی کشمیری ظلم کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ یہ قومی غیرت کا معاملہ ہے، انسانی جانوں اور ان کے جذبات کا سوال ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 5 فروری کو حکومتی سطح پر ہندوستانی ثقافت و تجارت کا بائیکاٹ کیا جاتا۔ ہندوستانی فلموں اور مال و اسباب کی درآمدگی کو ناممکن بنانا حکومت وقت کا فرض ہے اور یہ عمل دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے مناسب تھا۔ ہندوستان کشمیر کے حوالے سے قطعی طور پر لچک دکھانے کو تیار نہیں، پاکستانی قیادت کی طرف سے بارہا دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا، یکجہتی کا اظہار کیا گیا، لیکن اس کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ایک طرف وہ اتفاق و محبت کے گیت الاپتا ہے تو دوسری طرف اس کی فوج کشمیر کنٹرول لائن پر اچانک حملہ کردیتی ہے، بھارت کنٹرول لائن پر جارحیت کا ارتکاب کرکے اپنا جرم پاکستانی افواج پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے جوکہ حقائق کی روشنی میں بے بنیاد ثابت ہوتا ہے اور اس طرح کی مذموم کوششیں وہ آئے دن کرتا ہے۔ ہندوستانی تنظیم ''را'' کے دہشت گرد پاکستان کے استحکام کو کمزور کرنے کے لیے نت نئی تدبیریں اختیار کرتے ہیں جس سے قتل و غارت، تباہی و بربادی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے، رہی سہی کسر ہمارے اپنے لوگ پوری کردیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کے دشمن اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کرتے ہیں اور اپنے جرائم کی فہرست پاکستان کی امن کوشش پر چسپاں کرکے زمانے کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں لیکن حق و باطل سے ہر ذی شعور واقف ہے، منافقت اور موافقت کو عیاں ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے، بس وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کوئی ...