عاشق البدوی معلوم سے نامعلوم کا سفر
ڈاکٹر عاشق حسین البدوی نے صحافتی کالموں میں قارئین کو نفسیات و روحانیات سے مزین تحیر خیز معلومات کی دنیا سے آشنا کیا۔
دنیا میں کچھ نابغہ روزگار شخصیات ایسی بھی آتی ہیں جن کی ہستی اسرار و تحیر کے پردے میں لپٹی رہتی ہے، لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں لیکن باوجود کوشش کے بھی کوئی سراغ ہاتھ نہیں آتا۔ آج کا کالم بھی ایک ایسی ہی شخصیت کے نام ہے، جن کے کالم ''ایکسپریس'' کی زینت کیا بنے، ان کے پڑھنے والوں کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔ جی ہاں! تذکرہ ہے ڈاکٹر عاشق حسین البدوی (مرحوم) کا، جو ''معلوم نامعلوم'' کے مستقل عنوان سے ان ہی صفحات پر آپ سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ یقیناً یہ کالم پڑھتے ہوئے ان کے مستقل قاری چونک گئے ہوں گے، کیونکہ آج بھی بہت سے لوگ ان کے انتقال سے ناواقف ہیں۔ اگر میں انھیں ایکسپریس کے بہت جلد مقبول ہوجانے والے کالم نگاروں میں شمار کروں تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ عاشق البدوی نے ایکسپریس میں محض 49 کالم لکھے لیکن ان کے تیسرے کالم کی اشاعت کے بعد ہی کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جب عاشق حسین البدوی سے رابطے کے خواہشمند ادارے میں فون نہ کرتے ہوں۔ آج بھی بدوی صاحب کے چاہنے والے ان کے پرانے کالم پڑھنے کے بعد جب فون کرکے ان سے رابطے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو میری آنکھیں انھیں یہ اطلاع دیتے ہوئے نم ہوجاتی ہیں کہ عاشق حسین البدوی گزشتہ سال اگست میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔میں عاشق البدوی کی منہ بولی بہن فریدہ شفیع کا خاص شکر گزار ہوں جو آخری دنوں میں بدوی صاحب کی تیمارداری کرتی رہیں اور اس کالم کا موجب بھی ان کا اصرار رہا۔ عاشق البدوی کا قلم اسرار و تحیر کے پردے چاک کرتا تھا اور دنیا سے رخصت کے وقت بھی وہ اپنی موت کو اسرار کے پردوں میں چھپا گئے۔ وہ اپنے پسماندگان کے علاوہ اور کیا متاع چھوڑ کر گئے کسی جانب سے کوئی ٹھوس مواد دستیاب نہ ہوسکا، ان کی تصانیف کتنی اور مضامین کے مجموعے کہاں ہیں کچھ بھی پتہ نہ چل سکا۔ ڈاکٹر بدوی دنیا کے اس بے مروت آستاں سے یوں اٹھ گئے کہ ادبی و وصحافتی حلقوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور اگر ہوئی بھی تو قحط الرجال کے اندوہ ناک موجودہ منظر نامے کی شدت میں بدوی مرحوم کی موت سے صرف اضافہ ہی ہوا ہے جب کہ ناقدری زمانہ کی اس درجہ اذیت ناک روایت کے ساتھ دنیا سے ان کا منہ موڑنا اہل صحافت و ادب کے لیے کسی المیے سے کم نہیں۔عاشق حسین البدوی کا ایکسپریس میں پہلا آرٹیکل 15 اپریل 2011 کو ''سیاہ راستہ سفید راستہ'' تھا، جب کہ آخری کالم 15 جولائی 2012 میں ''سو بار جنم لیں گے'' کے عنوان سے شایع ہوا۔ ان کے آخری کالم کے عنوان سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے آخری وقت سے کسی حد تک واقف ہوگئے تھے۔ اس آخری کالم کے اختتام پر انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے حادثے سے قارئین کو آگاہ کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ان کے کالمز تعطل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ تعطل مستقل ہوگیا۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہم ہی سوگئے داستان کہتے کہتے
انتقال کے وقت مرحوم کی عمر 68 برس تھی۔ وہ جہاں گرد تھے، دنیا کے جس خطے میں گئے وہاں کی سماجی اور تہذیبی زندگی کے اسرار و رموز کی تہہ میں اتر گئے۔ راقم کی کالموں کے سلسلے میں بدوی صاحب سے کئی بار ٹیلیفونک گفتگو رہی، رئیس امروہوی مرحوم کے بعد نفسیات و مابعد نفسیات کے موضوعات پر مجھے عاشق البدوی نے ہی متاثر کیا ہے، یہی وجہ تھی کہ ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا اور انھوں نے سروسز میس میں ملاقات کا وقت بھی دیا لیکن ذاتی اور ادارہ جاتی مصروفیات کے سبب یہ ملاقات ٹلتی ہی رہی۔ عاشق البدوی کے بارے ایک بات جو لوگ نہیں جانتے وہ یہ کہ 1971 کی پاک و ہند جنگ میں شکر گڑھ، سیالکوٹ کے محاذ پر لڑتے ہوئے انھیں تمغہ دفاع اور تمغہ جنگ کے اعزازات دیے گئے تھے۔
یہاں ہم عاشق بدوی کے کالموں سے کچھ جملے اقتباس کررہے ہیں۔ ''آدمی اور جانور میں کیا فرق ہے؟ جانور کھاتا پیتا، سوتا، نسل بڑھاتا، دفاع اور حملہ کرتا ہے۔ دنیا کے بیشتر لوگ یہی حیوانی زندگی گزارتے ہیں۔''''آدمی جو کچھ بننا چاہتا ہے، اسے ویسے ہی لوگوں کی ہم نشینی اختیار کرنی چاہیے۔''
''نفس انسان کی اپنی ذات یا اپنا آپ ہے، جس میں ذہن، شعور، لاشعور اور انا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وہ انسانی جبلت یا حیوانی جز ہے جسے سدھا کر اڑیل گھوڑے سے اڑن گھوڑا (روح حیوانی+ روح مثالی) بنایا جاتا ہے۔''
''دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں، ایک لیڈر اور دوسرا اس کا پیروکار۔ ایک تیسری قسم بھی ہے جو لیڈر ہے نا پیروکار، وہ دونوں درجات میں فٹ نہیں ہوتا اس لیے دونوں کے درمیان روڑے کی مانند ہوتا ہے اور ان کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔''
عاشق البدوی نے اپنے کالموں میں نفسیات اور خفیہ علوم کی کئی مشقیں بھی بیان کی ہیں، اس کے علاوہ مختلف قسم کے علاجوں کے بارے میں بھی قارئین کو آگاہی دی ہے۔
ڈاکٹر عاشق حسین البدوی نے اپنے دلچسپ اسلوب سے صحافتی کالموں میں قارئین کو نفسیات و روحانیات سے مزین تحیر خیز معلومات کی ایک نئی دنیا سے آشنا کیا۔ وہ بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری، اشتراک و یکجہتی کے بڑے علمبردار تھے۔ اردو ادب و صحافت میں سری علوم، وجدانیات و روحانیات سمیت یوگا اور انسانی شعور، لاشعور اور تحت الشعور سے متعلق معلومات اور انکشافات کا دریا تھے۔ لامے ان کی تحریروں میں اپنے ہوشربا وجدانی کمالات کی کہانیوں سے لبریز نظر آتے تھے اور قارئین کی دلچسپی کا سامان مہیا کرتے تھے۔ مرحوم بلاشبہ نابغہ روزگار اور مرنجان مرنج قسم کے شگفتہ فکر اور امید افروز قلم کار و مفکر تھے جن کی تحریریں، تراجم اور کالم انسانی نفسیات میں منفرد تحقیق کا مرقع ہیں۔ ڈاکٹر بدوی بس میں سفر کے دوران اچانک نیچے گر کر شدید زخمی ہوگئے تھے۔ سول اسپتال میں ان کا علاج اور آپریشن ہوا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ قارئین کرام اور ڈاکٹر صاحب کے رفیقان قلم اور دانشور دوستوں سے التماس ہے کہ اگر ان کے پاس بدوی مرحوم کے حوالے سے معلومات اور کچھ یادیں ہوں تو ضرور قلمبند کرکے ہمارے نام بتوسط ایڈیٹوریل ڈپارٹمنٹ، ایکسپریس، کراچی کو ارسال کریں یا ہمارے ای میل ایڈریس پر روانہ کریں۔ قارئین ایک قلندر صفت، بے لوث اور انسان دوست قلمکارکے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ انشاء اﷲ عاشق حسین البدوی سے متعلق مزید معلومات اگلے کالم میں پیش کریں گے۔