الیکشن کمیشن بے اختیار اور متنازعہ کیوں
الیکشن کمیشن جان بوجھ کر اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے اور بعض جگہ کمیشن اپنے اختیارات استعمال ہی نہیں کرتا
PARIS:
آئینی طور پر بنائے گئے پاکستان الیکشن کمیشن کو ملک میں کبھی غیر جانبدار سمجھا گیا نہ کبھی یہ غیر متنازعہ قرار پایا اور ہر دور میں تنقید کا ہدف بھی رہا اور اب پہلی بار عمران خان نے الیکشن کمیشن کو متعصب بھی قرار دیا ہے اور سپریم کورٹ میں اس کے اختیارات کو چیلنج بھی کیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن کی پوزیشن واضح ہوگئی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن پر صرف وہی پارٹی یا آزاد امیدوار مکمل اعتماد کرتا ہے جو کامیاب ہو جاتا ہے اور شکست خوردہ پارٹی اور امیدوار ہمیشہ الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کبھی اسے جانبدار قرار دیتا ہے اور اکثر کہا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن منصفانہ الیکشن کرانے اور دھاندلی روکنے میں ناکام رہتا ہے اور اس پر الیکشن میں الزامات کی بارش کی جاتی ہے۔
آئینی طور پر اب چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے اور اسی طرح چیئرمین نیب اور نگران وزیر اعظم اور نگراں وزرائے اعلیٰ بھی دونوں کے رضامند ہوئے بغیر مقرر نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں ایک اچھی شہرت کے حامل الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم مرحوم بھی تھے، جو سندھ کے گورنر رہے مگر جلد مستعفی ہوگئے تھے اور سپریم کورٹ کے اصول پرست جج بھی تھے، جن پر ملک بھر میں مکمل اعتماد کیا جاتا تھا اور اسی لیے انھیں چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا، جنھوں نے ملک میں عام انتخابات بھی منعقد کرائے تھے مگر بعد میں ان پر بھی تنقید ہوئی۔
جس پر جسٹس فخر الدین مستعفی ہوگئے تھے اور بعد میں وہ الیکشن کمیشن کے اندرونی معاملات دل میں لیے رخصت ہوگئے اور الیکشن کمیشن کے اندرونی معاملات اب تک راز ہیں اور چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے الیکشن کمیشن کے ارکان کی کارکردگی، غیر جانبداری یا جانبداری اور مجبوریوں پر پردہ ہی پڑا ہوا ہے البتہ ریٹائر ہوکر الیکشن کمیشن کے افسران سیاسی مفاد اور شہرت کے لیے میڈیا پر متنازعہ ضرور قرار پاتے ہیں کہ وہ اگر اتنے ہی اصول پرست تھے تو وہ ڈیوٹی پر خاموش کیوں بیٹھے رہے اور انھوں نے دھاندلی اور غیر قانونی کاموں کی پردہ پوشی کیوں کی اور مستعفی کیوں نہیں ہوئے اور جو باتیں انھیں ڈیوٹی پر ہوتے ہوئے کرنی تھیں وہ اس وقت کیوں نہ کیں اور ان کا ضمیر ریٹائر ہوکر کیوں جاگتا ہے۔
موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن بھی سیاسی الزامات سے محفوظ نہیں اور عمران خان نے انھیں متنازعہ بنا رکھا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی شدید تنقید کا نشانہ الیکشن کمیشن بنا تھا جو اب تک جاری ہے اور عمران خان نے تنقید کی انتہا جب الیکشن کمیشن پر متعصب ہونے کا سنگین الزام لگا کر کی تو چیف الیکشن کمشنر کے صبر کی انتہا نہ رہی اور انھوں نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا مگر عمران خان نے پرواہ نہ کی اور تنقید جاری رکھی اور اپنے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے کے بجائے اپنے وکیل تبدیل اور الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے رہے اور اب یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں اپنا فیصلہ بھی محفوظ کررکھا ہے۔
سپریم کورٹ کی طرح الیکشن کمیشن بھی اہم اور آئینی ادارہ ہے جس کے پاس ملک بھر میں عام انتخابات کے علاوہ صدر مملکت اور سینیٹ کے انتخابات کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی بھی ذمے داری ہے مگر الیکشن کمیشن ملک میں بروقت بلدیاتی انتخابات کرانے میں مکمل ناکام رہا ہے جب کہ بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد آئینی تقاضا ہے مگر الیکشن کمیشن اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کا محتاج ہے اور اس نے خود کبھی بلدیاتی انتخابات کی تاخیر کی ذمے دار صوبائی حکومتوں کے خلاف ایکشن نہیں لیا اور ملک کے عوام کو نچلی سطح پر اپنے نمایندوں کے انتخاب کے حق سے محروم رکھا اور الیکشن کمیشن کا یہ کام بھی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دلچسپی اور حکم پر ہوا۔
الیکشن کمیشن میں انتخابی عذر داریاں ہمیشہ سے مذاق بنی رہی ہیں جس کی مثال ماضی میں اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے سے قبل اسمبلیاں ٹوٹنا رہا ہے جہاں دو تین سال میں الیکشن کمیشن میں فیصلے نہ ہوسکے۔ 2002ء سے ملک میں عام انتخابات پانچ پانچ سال بعد ہوئے اور موجودہ اسمبلیاں چار سال گزار چکی ہیں مگر اب بھی بعض معاملات الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں۔ الیکشن کمیشن میں تاخیر سے فیصلوں کے بعد عدالت سے رجوع کرلیا جاتا ہے اور معاملہ لٹکا رہتا ہے اور عدالتوں کے حتمی فیصلوں کے بعد ضمنی انتخابات کی نوبت آتی ہے جس کی تازہ مثال کراچی میں 9 جولائی کا سندھ اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہے اور نیا رکن صرف دس ماہ کے لیے رکن اسمبلی منتخب ہوا ہے تو ایسے انتخاب کا کیا فائدہ؟
الیکشن کمیشن جان بوجھ کر اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے اور بعض جگہ کمیشن اپنے اختیارات استعمال ہی نہیں کرتا اور عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں خاموش رہتا ہے جس کی ایک مثال کراچی کے ضلع غربی کی ڈی ایم سی کے چیئرمین کے انتخاب کی ہے جس کے خلاف 11 ماہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا تھا جب کہ یہ وفاقی نہیں صوبائی معاملہ ہے اور کیس نہیں چل رہا جس کی وجہ سے ڈی ایم سی سرکاری ایڈمنسٹریٹر چلا رہا ہے اور منتخب چیئرمین عدالتی حکم پر بے بس اور الیکشن کمیشن خاموش ہے۔
الیکشن کمیشن عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا مگر متعلقہ عدالتوں سے جلد فیصلے کی درخواست تو کرسکتا ہے کہ منتخب عوامی نمایندوں کی مدت مقدمات میں متاثر ہو رہی ہے۔
ادھر حکومت کا یہ حال ہے کہ 2018ء میں ملک میں عام انتخابات ہونے ہیں مگر الیکشن کمیشن کو اب تک انتخابی تیاریوں کے لیے کوئی فنڈ نہیں دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بروقت فنڈ نہ ملنے کے باعث انتخابی مواد کی خریداری ممکن نہیں ہوسکی اور انتخابی عملے کی تربیت موخر کردی گئی ہے اور اب سی سی ٹی وی کیمروں کی خریداری نہیں ہوسکی کیونکہ الیکشن کمیشن کے پاس اس وقت صرف عملے کی تنخواہوں اور دفتری اخراجات کا فنڈ موجود ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتیں ہی الیکشن کمیشن کی تشکیل کرتی ہیں اور الیکشن کمیشن کو مزید اختیارات دیے جانے کی ضرورت ہے جس کے اختیارات بہت کم ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن 20 سال سے سویا رہا اسے تمام جماعتوں سے ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے۔
پہلی بار سیاسی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ سامنے آیا ہے اور اس سے قبل الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے معاملے پر خود تحقیقات نہیں کرتا اور سیاسی جماعتوں کے سرٹیفکیٹ تسلیم کرلیے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن نے کبھی سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات کی چھان بین نہیں کی اور ہر دفعہ ارکان اسمبلی کے داخل کرائے گئے مالی گوشوارے تسلیم کرلیے جاتے ہیں جو غلط اور گمراہ کن ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بااختیار نہ ہونے سے متنازعہ اور سیاسی تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے جس کے ذمے دار خود سیاستدان بھی ہیں جن کے لیے بااختیار الیکشن کمیشن نقصان دہ ہے اور ارکان پارلیمنٹ الیکشن کمیشن کو اختیارات نہیں دے رہے۔