سیاست اور مردہ سیاسی اصول
آج کل جو واویلا مچایا جا رہا ہے یہ سب اقتدار کے لیے انتشار کی سیاست کی جا رہی ہے
گزشتہ ایک ماہ سے پاناما لیکس پر تمام اخبارات اور چینلز متواتر کام کر رہے ہیں، عوام بھی دیکھ رہے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ چاروں صوبوں میں ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان فن پہلوانی کی مشق کر رہے ہیں، جو اقتدار میں نہیں ہیں وہ بہت بے چین ہیں، جو اقتدار میں ہیں وہ ان سے زیادہ بے چین ہوکر بیانات کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ڈرامائی تشکیل دینے کے بعد اپوزیشن اور برسر اقتدار دونوں نے مل کر بے ہودہ الزامات کی دکان کھول لی ہے، جسے تہمت کے ذریعے پروان چڑھایا جارہا ہے۔ پاناما لیکس کے بخار کو آج غالباً 6 ماہ ہوگئے ہیں اور پاکستانی عوام شدید اضطراب کا شکار ہیں۔
اپوزیشن کا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم استعفیٰ دیتے ہیں تو اگلے الیکشن میں ہم قوم کے پاس سرخرو ہوکر جائیں گے اور انھیں بتائیں گے کہ اس ملک میں ہم نے عوام کی خاطر کرپشن کا سدباب کیا۔ جب کہ اپوزیشن کی جو بڑی پارٹیاں ہیں ان کے تمام بڑوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ ضمانتوں پر ہیں، مگر جو دیہات میں رہ رہا ہے اس غریب کو تو معلوم ہی نہیں کہ یہ غربت کے مارے وہ لوگ ہیں جنھیں وقتاً فوقتاً تھوڑا سا راشن تقسیم کرکے بہلایا جاتا ہے۔
ماضی کی حکومتوں میں کیا ہوا اور حالیہ حکومت نے کیا کیا، اس پر نظر ڈالتے ہیں، کیونکہ پاناما لیکس کا فیصلہ اانے کے بعد بھی اس کے مضمرات و نتائج کا سلسلہ چلتا رہے گا، مگر اس کی آڑ میں اپوزیشن نے عوامی مسائل کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
آج کل جو واویلا مچایا جا رہا ہے یہ سب اقتدار کے لیے انتشار کی سیاست کی جا رہی ہے، صاحب اقتدار لوگ ہوں یا اپوزیشن والے، کسی کا بھی قبلہ کم ازکم عوام کے لیے درست نہیں۔ شام کو چینلز کی دکان پر سیاسی چابی والے گڈے بیٹھ کر ایک دوسرے کی توہین و تذلیل کرتے ہیں، ان میں کوئی ایسا سیاست دان نہیں ہوتا جو عوام کے مسائل پر بات کرے، سب کے سب بے مقصد تصادم کی دوڑ میں اول آنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خبر اخبارات کی زینت بنی نظر آئی کہ واٹر بورڈ سے جو پانی سپلائی ہو رہا ہے اس میں انسانی فضلہ شامل ہے۔
ماضی میں اٹلی کی حکومت نے 18 کروڑ روپے، سندھ کی حکومت نے 5 کروڑ روپے محکمہ پبلک ہیلتھ کو دیے تھے جو شہریوں کو صاف پینے کے پانی کے لیے فراہم کیے گئے تھے۔ اس پیسے کا کیا ہوا؟ اور مزے کی بات دیکھیں کہ وہ اسکیم ہی غیر فعال ہوگئی۔ پائپ لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ عوام میں اتنی طاقت نہیں کہ یہ منرل واٹر سے طہارت، وضو کرے یا نہائے۔ کتنا فرق ہے ہمارے سیاستدانوں میں اور اس مفلوک الحال عوام میں۔
ایک ترمیمی بل ایکٹ 2016ء دسمبر کو صدر پاکستان کے دستخط کے بعد رائج ہوا کہ جس ملازم نے کرپشن کی اور پھر اس کے بعد رقم واپس کردی، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کا محکمہ اس کے خلاف کارروائی کرتا، ایسا نہیں ہوتا بلکہ بہت عزت و تکریم کے ساتھ اس کو دوبارہ اسی پوسٹ پر نامزد کردیا جاتا ہے۔
اپوزیشن نے اس بل کو پاس کیسے ہونے دیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب ایک ہی حمام میں ایک دوسرے کی بقا کے لیے ڈفلی بجا رہے ہیں۔ ہاؤس بلڈنگ سے اگر کسی غریب نے صرف ایک ماہ قسط ادا نہیں کی توسارے ''ایماندار'' افسران متحرک ہوجاتے ہیں، جب کہ اس قرضے کی ادائیگی بہت تیر مارا تو بیس ہزار ہو گی، جب کہ انھوں نے اپنی بقا کے لیے (صاحب اقتدار اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں) یہ ڈھائی کروڑ کی کرپشن میں پلی بارگین میں گھر کی راہ لیتے ہیں، یعنی ان سیاستدانوں کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق ہے اور نہ ضابطہ حیات ہے۔ انھیں حقائق اب تسلیم کرنے ہوں گے۔
سیاست دان سوچ لیں کہ ایسا نہ ہو کہ سب دھرے کا دھرا رہ جائے اور یہ خود ستائشی اور خودپرستی کو اگر سیاسی طور پر مقدم رکھا گیا ایسا نہ ہو کہ یہ طویل تاریکی کی شکل اختیار کرلے اور کوئی نیک بندہ یا طالع آزما یہ بدمعاشی کے سب دروازے بند کردے اور کھیل رعونت اپنے انجام کو پہنچ جائے۔
پچھلے دنوں یہ خبر بڑی تواتر سے اخبارات میں آتی رہی کہ عنقریب فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، اس پر ہمارے بیشتر سیاستدان کولہو کے بیل کی طرح اس کام میں جت گئے، جو بڑوں کے چھوٹے سیاسی کھلاڑی تھے، انھوں نے واویلا مچانا شروع کردیا اور جو سیاسی خواتین تھیں انھوں نے جی بھر کر کدورتیں نکالیں، جب کہ یہ ترسے ہوئے عوام تو سوشل میڈیا پر کہہ رہے تھے کہ فوجی عدالتوں کا قیام بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اونٹ کی ناک سے نکیل نکل گئی ہے، اس قوم کو دانشمندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے، یہ اب ازالہ چاہتی ہے، کیونکہ اب وی آئی پی حضرات نے غرور اور فکر کی چھتری کے تلے اطمینان کی چھاؤں تلاش کرلی ہے۔ آپ کو بہت حیرت ہوگی کہ آج پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ 20 ہزار کا مقروض ہوتا ہے اور وہ اس کا مقروض کس طرح ہوا یہ بھی سن لیں۔
نہ تو اس نے گورنمنٹ نوکری لی، نہ اس کے پاس پینے کو پانی ہے، نہ تعلیم کے اخراجات ہیں، نہ اس کے گھر کے پاس صفائی کے انتظامات ہیں، نہ آفس جانے کے لیے ٹرانسپورٹ ہے، نہ قانونی مدد ہے، ایک موبائل کے لیے جانور کی طرح مار دیا جاتا ہے۔ نہ سیکیورٹی ہے، نہ اس کو اسپتال میں دوا میسر ہے، تو پھر سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ مقروض کیسے ہوگیا کہ جب اس نے کوئی سہولت حاصل ہی نہیں کی اور نہ نظریہ ضرورت کے تحت اس پاکستانی کو کچھ ملا تو پھر یہ ایک لاکھ 20 ہزار کا مقروض کیسے ہوگیا؟
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا قرض دوسروں میں تقسیم ہوگیا، کچھ پروٹوکول کی صورت میں، کچھ مہنگی گاڑیوں کی وجہ سے اور ان صاحب حیثیت سیاستدانوں کے غیر ملکی علاج کی وجہ سے۔ یہ سب اس قوم کی مرہون منت ہے کہ یہ عیاشیاں کر رہے ہیں، جب کہ اس قرضے کا غریب سے کیا لینا دینا۔ جبھی تو فوجی عدالتوں کے قیام کی آواز سنتے ہی ان سیاستدانوں کی آواز بیٹھ جاتی ہے۔
دل ڈوبنے لگتا ہے ، عوام میں بے چینی، عدم رواداری، عدم برداشت یہ ایک دوسرے کو طعنے دیتی زندگی، تمکنت سے عاری اور مایوسی سے بھرے چہرے، یہ سب کیا ہے؟ سیاستدانوں کی سنسنی پھیلاتی خبروں کی وجہ سے ہے۔ کوئی عوام کے لیے بات کرنے کو تیار نہیں۔ اجتماعی بگاڑ کو جنم دینے والے یہ چند سیاستدان اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ یہ المیہ ہے۔ سب پاناما لیکس کھیل رہے ہیں، انھیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ٹریفک کا نظام کیسا چل رہا ہے، دکاندار من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں، بغیر کاغذات اور لائسنس کے نوعمر کار، رکشہ، موٹرسائیکل چلا رہے ہیں۔
واٹر بورڈ کی جانب سے عوام پانی کے قطرے قطرے کو مجبور، حتیٰ کہ اب تو مسجد میں وضو کے لیے پانی نہیں ہوتا۔ بل باقاعدگی سے آرہے ہیں، نہ دینے پر دھمکیاں دی جاتی ہیں، عوامی چڑچڑے پن کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ اچھی علامت نہیں ہے، جب عوام ہیجانی کیفیت اور اکتاہٹ کا سفر شروع کردیں تو پھر کرتا دھرتا حضرات سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن اور صاحب اقتدار صبر کا دامن ہاتھ میں تھام لیں اور تہذیب و شائستگی، باریک بینی سے غریبوں کے سماجی حقوق پر توجہ دیں اور آئین کو ہوا کہنے والے اپنی آئینی ذمے داری پوری کریں۔ اب بیانات اور بودی دلیلوں اور مکاری سے کام نہیں چلے گا اور اگر چلانے کی کوشش کی تو سیاستدانوں کو سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اور درویش کی صدا کیا ہے۔