نیو جرسی عید ملن مشاعرہ
اس مشاعرے کے لیے نیو یارک اور نیو جرسی سے چیدہ چیدہ معروف شاعروں اور شاعرات کو مدعو کیا گیاتھا
امریکا کی بیشتر بڑی ریاستوں میں مئی، جون اور جولائی کے تین مہینے موسم گرما میں شمار ہوتے ہیں اور یہاں کے باسی ان گرمی کے دنوں کو ''سویٹ سمر'' کہتے ہیں۔ سویٹ سمر کا اپنا جدا گانہ انداز ہوتا ہے ہرگھر کے باہر بڑی تعداد میں لوگ پیدل چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
اس موسم میں تمام گرم کپڑے، جیکٹس، گلوز اور گرم مفلرس کچھ دنوں کے لیے مفرور ہوجاتے ہیں۔ جگہ جگہ موجود خوبصورت جھیلوں، نہروں اور بیچ (ساحل سمندر) پر بہاریں عود کر آتی ہیں۔ ہر بیچ پر انسانوں کی بھیڑ ہی بھیڑ نظر آتی ہے۔ سمندر کی ریت کے دن پھر جاتے ہیں یہ ریت سب کو بہت پیاری لگنے لگتی ہے، چمکتی ہوئی جاذب نظر ہوتی ہے، لوگ جوق در جوق سمندری لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ مجھے تو ایسے موقعے پر شاعر کلیم عثمانی کا لکھا ہوا اور مہدی حسن کا گایا ہوا مدھر گیت یاد آجاتا ہے۔
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی
تیری زلف کو چھوکر آج ہوئی خاموش ہوا دیوانی سی
گرمی کے ان دنوں میں نیو جرسی سے لے کر نیو یارک تک ادبی، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر آجاتی ہیں۔ جہاں نیو یارک میں پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے سیاسی جماتیں بھی اپنی اپنی سرگرمیوں کے ساتھ فعال ہوگئی تھیں وہاں ادبی اور ثقافتی تنظیموں کی تقریبات میں اضافہ ہوگیا تھا ،گزشتہ دنوں نیو جرسی میں عید ملن مشاعرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، جس کے انعقاد کا سہرا شاہنواز گروپ آف کمپنیز کے روح راں نادر خان اور نیو جرسی کی مشہور سماجی شخصیت واحد شبلی کے سر جاتا ہے جو شاہنواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کے ایڈمن بھی ہیں۔
اس مشاعرے کے لیے نیو یارک اور نیو جرسی سے چیدہ چیدہ معروف شاعروں اور شاعرات کو مدعو کیا گیاتھا جب کہ نیو جرسی میں ادبی تقریبات کا فقدان رہتا ہے اور نیو یارک اس قسم کی تقریبات میں ہمہ وقت پیش پیش رہتا ہے۔ نیو جرسی میں ادبی تقریبات کو فروغ دینے کے لیے نیو جرسی میں بھی حلقۂ احباب ذوق کو روبہ عمل لانے کے لیے میرے لاہور کے دوست کئی فلموں کے پروڈیوسر اور شاعر آفتاب قمر زیدی نے چند مخلص ساتھیوں کے ساتھ نیو جرسی میں بھی حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی تھی اور ادبی سرگرمیوں کا بھی آغاز کیا تھا۔ نیو جرسی عید ملن مشاعرہ کا اہتمام اس لیے آسان ہوگیا تھا کہ اس مشاعرے کے لیے شاعر جمیل عثمان، آفتاب قمر اور میری معاونت بھی واحد شبلی کو حاصل تھی۔
چند ماہ پہلے شاہنواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کی طرف سے اس ادارے سے وابستہ سینئر سٹیزنز کی ذہنی تفریح کے لیے موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ مذکورہ عید ملن مشاعرہ کی صدارت کے لیے پاکستان اور ہندوستان میں یکساں مشہور منفرد لہجہ کی شاعرہ صبیحہ حسین کو ادبی تنظیم کامران فاؤنڈیشن کی روح رواں اور مشہور شاعرہ فرح کامران کے سپرد کیے گئے تھے۔
عید ملن مشاعرے کے آغاز سے پہلے مذکورہ رفاہی ادارے کی غرض و غایت پر واحد شبلی صاحب نے کچھ روشنی ڈالی تھی اور پھر اس کے بعد ایک شاندار عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے کے بعد مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ سب سے پہلے نعت رسولؐ سے آغاز ہوا اور پھر مشاعرے کی میزبان فرح کامران نے مائک سنبھال لیا اور مشاعرے کے دستورکے مطابق فرح کامران نے پہلے اپنا کلام سنایا ان کے دو منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
کیا شناسائی تھی اس کو میرے جسم و جان سے
آنکھ سے دل میں مرے جھانک لیا کرتا تھا
مرنے کا تماشا دیکھاکیے،
جب خاک ہوئے کاندھا نہ دیا
جل جل کے چتا جب راکھ ہوئی
تب آگ بجھائے جاتے ہو
فرح کامران کے اشعار کو کافی داد ملی، پھر دعوت کلام کے لیے شاعر آفتاب قمر کو ڈائس پر بلایاگیا۔ آفتاب قمر نے تحت الفظ میں ایک غزل اور چند اشعار سنائے۔
وہ شخص تو مجھ سے مرے سارے حوالے لے گیا
دے کر شبِ تاریک وہ دن کے اجالے لے گیا
ہر منظر کو اس کا منظر لکھتا ہوں
یہ بھی لیکن اس سے چھپ کر لکھتا ہوں
پھر نیو جرسی ہی کے شاعر جمیل عثمان نے اپنا کلام پیش کیا اور عید ملن مشاعرہ کا حسن بڑھاتے ہوئے ہلالِ عید کے عنوان سے اشعار سنائے دو اشعار سامعین کی نذر ہیں۔
چاند بن کر روشنی پھیلایے
دو گھڑی کو بام پر آجایے
چلے جیسے نرم روبادِ نسیم
ابر بن کر چار سو چھا جایے
سامعین نے ان اشعار پر جمیل عثمان کو بھی بڑی داد دی پھر ان کی بعد ایک جانی پہچانی شاعرہ زریں یاسین اپنے ترنم کے ساتھ مائیک پر آئیں اور انھوں نے بھی اپنی دو غزلیں سنائیں ان کے منتخب اشعار بھی حاضر ہیں۔
میرے دل کا رِ ہا مدعا مختلف
جو بھی چاہا تھا اس نے کیا مختلف
شدتِ شوق سے پاؤں گردش میں تھے
رقص کا تھا مگر دائرہ مختلف
زریں یاسین کے بعد نیو یارک سے آئے ہوئے شاعر ڈاکٹر شفیق اپنا کلام سنانے آئے جنھوں نے اپنے خوبصورت اشعار اپنے خوبصورت پٹھانی لہجے میں پیش کرکے سامعین سے خوب داد وصول کی:
کر دیا بدنام تب یہ کام ہونا چاہیے
اب تمہارے ساتھ میرا نام ہونا چاہیے
کل ترے اقرار سے آیا نہیں دل کو قرار
اب ترے انکار سے یہ کام ہونا چاہیے
ڈاکٹر شفیق کے بعد فرح کامران صاحبہ نے راقم کو دعوت دیتے ہوئے کہا اب میں معروف نغمہ نگار و شاعر یونس ہمدم سے گزارش کرتی ہوں وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں۔ میں نے پہلے اپنی دو غزلیں اور پھر ایک نظم جس کا عنوان تھا ''اس نے کہا'' پیش کی جسے بڑا پسند کیا گیا۔ اپنی غزل کے دو اشعار سامعین کی نذر ہیں
جس کا کردار نہ ہو اور نہ ہو جس کا ضمیر
ایسا انسان تو زندہ بھی ہو مر جاتا ہے
چند آنسو بھی ندامت کے اثر رکھتے ہیں
اس طرح بوجھ گناہوں کا اتر جاتا ہے
اب نصف شب ہونے والی تھی اور محفل مشاعرہ اپنے عروج پر تھی۔ مشاعرے کی میزبان فرح کامران نے صدر محفل صبیحہ صبا صاحبہ کو محفل کا مزید حسن بڑھانے کے لیے دعوت کلام دی، صبیحہ صبا اپنا ایک جداگانہ اور ممتاز مقام رکھتی ہیں ایک ایسا منفرد مقام جو ہندو پاک میں بہت کم شاعرات کو حاصل ہے۔ صبیحہ صبا نے اپنی کئی پرانی اور نئی غزلیں سنائیں اور دل میں اتر جانے والے خوبصورت اشعار پیش کیے جو نذر قارئین ہیں۔
وہ غم جہاں کے ہجوم میں جو ملے تو ایسے بچھڑ گئے
نہ سراغ ان کا مجھے ملا نہ ان ہی کو میری خبر ہوئی
مرے راز داں مرے نامہ بر یہ خبر تو دے کبھی آن کر
مرے حال زار کو جان کرکبھی آنکھ ان کی بھی تر ہوئی
پھر اپنی ایک پرانی غزل بھی سنائی جس کے دو اشعار حاضر ہیں۔
بظاہر رونقوں میں، بزم آرائی میں جیتے ہیں
حقیقت ہے کہ ہم تنہا ہیں تنہائی میں جیتے ہیں
سجاکر چار سو رنگیں محل تیرے خیالوں کے
تری یادوں کی رعنائی میں، زیبائی میں جیتے ہیں
صبیحہ صبا نے اپنے ہر شعر پر خوب داد پائی اور اس طرح نیو جرسی کا یہ خوبصورت عید ملن مشاعرہ نصف شب کے بعد بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔