’’وزیر اعظم شہباز شریف‘‘
شہباز شریف کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے جو انھوں نے بڑی محنت سے دن رات ایک کر کے سیاسی میدان میں بنائی ہے
لاہور:
''کرپٹ لوگوں میں بھی مختلف درجات ہیں، کوئی بہت زیادہ کرپٹ ہے کوئی درمیانہ کرپٹ ہے، کوئی تو ایکسٹرا آرڈینری کرپٹ ہے۔ یہ جو ایکسٹرا آرڈینری کرپٹ ہیں کبھی آپ دیکھئے گا منحوس چہرے ہوتے ہیں۔ منحوس چہرے پر نحوست ٹپک رہی ہوتی ہے۔ اللہ کی لعنت ان کے چہروں پر موجود ہوتی ہے۔ جو نظر آتا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑ ا کرپٹ آدمی ہے۔ کبھی غور کیجیے گا اس بات پر۔ یہ جو پاناما لیکس کا جو آپ نے دیکھا ہے نا معاملہ جو اٹھا ہے یہ بھی قدرت کی طرف سے اٹھا ہے اور اس کی وجہ سے پتہ نہیں کون کون سے معاملات اٹھیں گے۔
آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے جو لوگ ہیں جو اپنے خیال میں بڑے اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں کہ صاحب ہم نے تو یہ کر لیا وہ کر لیا ان کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھئے گا کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے۔ یہ بات میری یاد رکھیئے گا۔ کبھی کوئی واقعہ دو ماہ کے بعد ہو گا، کوئی چھ ماہ کے بعد ہو گا، کوئی ایک سال کے بعد ہو گا۔ یہ اللہ کا ایک اپنا نظام ہے''۔ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ اس ریاست کے سربراہ جناب ممنون حسین کے ہیں جس میں ہم آپ بستے ہیں۔
یہ الفاظ انھوں نے آج سے کچھ عرصہ قبل پانامہ لیکس کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد ایک تقریب سے خطاب میں کہے تھے۔ انھوں نے بعد میں بھی ایک اور تقریب میں ان الفاظ کو مختلف پیرائے میں دہراتے ہوئے کہا کہ ان کے ارد گرد بدبو دار لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھتے ہوئے ان کو گھن اور بد بو محسوس ہوتی ہے۔ ان کو یہ الفاظ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کے بارے میں وہی وضاحت کر سکتے تھے جو کہ انھوں نے نہیں کی۔ یہ ولی اللہ لوگوں والی باتیں ہیں جو کہ ہمارے صدر صاحب نے کیں، ان کے بارے میں مزید تبصرے کی گنجائش نہیں ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے پانامہ کیس کا تاریخی فیصلہ آنے کے بعد حکومتی جتھے کی جانب سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس فیصلے کو نواز لیگ نے قبول نہیں کیا، لیکن چونکہ عدالتی فیصلہ ہے اس لیے اس پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے، لیکن تاریخ اس فیصلے کو نہیں مانے گی۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں انتظامی بحران پیدا ہو گیا ہے اور تادم ِ تحریر صدر مملکت نے نئے قائد ایوان کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا جس کے بعد ہی قائد ایوان کا انتخاب ممکن ہو سکتا ہے۔ وہ شاید معزول حکومت کی جانب سے اس بات کے انتظار میں ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی جانب سے نئے اور ممکنہ عبوری قائد ایوان کا فیصلہ ہو جائے تو پھر وہ یہ قدم بھی اُٹھائیں۔
خبریں یہ آ رہی ہیں کہ پہلے عبوری وزیر اعظم منتخب کیا جائے گا اور بعد میں جناب شہباز شریف کو گوالمنڈی لاہور سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کرا کے حکومت کی باقی رہ جانے والی چند ماہ کی مدت کو مکمل کیا جا سکے۔ قدرتی طور پر موجودہ حالات میں سیاسی جا نشینی کے لیے میاں نواز شریف کی اولین ترجیح شہباز شریف ہی ہیں اور اب اس میں کوئی ابہام نظر نہیں آ رہا ہے کہ شہباز شریف ہی نواز شریف کے سیاسی جان نشین ہوں گے۔
شہباز شریف کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے جو انھوں نے بڑی محنت سے دن رات ایک کر کے سیاسی میدان میں بنائی ہے اور ان کے بارے میں نواز شریف سے اختلاف کی جو خبریں پھیلائی گئیں ان میں دور دور تک کوئی حقیقت نہیں، کہ جس شہباز شریف کو میں جانتا ہوں وہ نواز شریف کی حد درجہ عزت کرتا ہے اور ان کو اپنے والد کا درجہ دیتا ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومتی مدت کے بقایا چند ماہ کسی پارٹی ورکر ممبر قومی اسمبلی کے سر پر اقتدار کی پگ رکھ دی جائے اور اس تاثر کو زائل کر دیا جائے کہ شریف خاندان اقتدار کے ایوانوں میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کو براجمان نہیں دیکھ سکتا۔
شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے اپنے مضمرات ہو سکتے ہیں چونکہ شہباز شریف نے پنجاب میں جو ترقیاتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں ان میں خلل پڑ سکتا ہے اور اس کا نقصان آئندہ انتخابات میں یقینی ہے۔ چند ماہ کے لیے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنے سے سابق وزیر اعظم کا لاحقہ تو ان کے نام کے ساتھ جڑ جائے گا لیکن وفاقی سطح پر وہ کوئی بھی نیا منصوبہ یا اس رفتار سے کام ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا جس طرح وہ پنجاب میں کر رہے ہیں۔
پنجاب نواز لیگ کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں ہے اس قلعہ کی حفاظت موجودہ حالات میں شہباز شریف سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا۔ وہ جس طرح صوبے کے انتظامی اور ترقیاتی منصوبے چلا رہے ہیں ان کے چند ماہ کے جا نشین یہ کام قطعی طور پر سرانجام نہیں دے سکیں گے۔ اور نواز لیگ کا پنجاب کا مضبوط قلعہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جانے کے قوی امکانات ہیں، کیونکہ آئندہ انتخابات میں اب زیادہ وقت نہیں۔ اگر نواز لیگ نے آئندہ انتخابات میں اپنی پارٹی کو واضح پوزیشن دلانی ہے تو وہ پنجاب سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
پنجاب میں برتری سے ہی وفاق میں اپنے آپ کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو نئے وزیر اعظم کی نامزدگی کے وقت مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے لیگی قیادت کو اپنے جذبات اور شریف خاندان کو الگ رکھ کر یہ اہم فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا شہباز شریف بطور وزیر اعظم ان کے لیے بہتر ہوں گے یا پنجاب کے قلعہ کی حفاظت کی ذمے داری ان کی ہی رہنی چاہیے۔ یہ انتہائی نازک فیصلہ ہے جو کسی اور نے نہیں میاں نواز شریف نے خود کرنا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے رفقاء سے اس بارے میں مشاورت کر لیں اور پھر ان کے مشوروں پر غور بھی کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جی حضوری کے شوق میں مشورہ شہباز شریف کے حق میں آئے، لیکن نواز شریف کو خود اس کو سیاسی نگاہ سے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
اگرچہ پاناما کیس میں شہباز شریف ملوث نہیں ہیں۔ لیکن اگر حدیبیہ پپیر مل کیس دوبارہ کھل گیا جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں تو پھر شہباز شریف کے خاندان کے لیے بھی مشکلات کے سارے دروازے کھل سکتے ہیں اور مزید سبکی کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لیے دانشمندی اس بات میں ہے کہ شہباز شریف کو موجودہ عہدے پر ہی رہنے دیا جائے اور اگر معاملات اگلے انتخابات تک ایسے ہی رہیں جیسے اب ہیں اور نواز لیگ کی قسمت یاوری کرے اور وہ اس پوزیشن میں ہو کہ اگلے انتخابات بھی جیت سکے تو اس وقت وزیر اعظم کی ذمے داری بغیر سوچے سمجھے شہباز شریف کے سپر د کر دینی چاہیے کیونکہ میاں نواز شریف کی فعال سیاست میں غیر موجودگی کی صورت میں وہ ہی بہترین متبادل ہیں جو پارٹی کو متحد بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنی سیاست کو آگے بھی بڑھا سکتے ہیں۔