خواب
سچے واقعہ کے بعدیہ لکھناعبث ہے کہ ہارے ہوئے باپ کے ساتھ کیا ہوا۔ واقعہ انتہائی اہم ہے۔
جس خطے میں ہم رہتے ہیں،وہاں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال سے سوچ بالکل ایک جیسی چلی آرہی ہے۔اس سوچ کا محور صرف ایک ہے۔طاقتورکی اطاعت۔ ہردورمیں تقریباًایک جیساحال رہا ہے۔ برطانوی غلامی کئی لحاظ سے وسطی ایشیاء کے قابضین سے بہتر تھی کیونکہ برطانوی حکومت نے اپنے فائدے کے لیے برصغیر کو دنیاسے جوڑدیا۔
جب طاقت کاذکرہوتاہے تویقینااس میں ریاستی قوت اورپیسے کاعمل دخل سرِفہرست ہے ۔ہمارے معاشرے میں کیونکہ آزادیِ فکراورسنجیدہ آزادیِ تحریرنہیں ہے۔ اس وجہ سے مکمل سچ لکھناناممکن ہے۔اپنی جان بچانے کے لیے گھوم پھرکرگول مول طریقے سے لکھنا پڑتا ہے۔ تاریخی اعتبارسے مثالیں دیناقدرے آسان ہے۔اسی خطے میں"سلاطین دہلی"کابھرپوردورگزراہے۔اسی دورمیں بوڑھے بلکہ ادھیڑعمرباپ سے قدرے نوجوان بیٹے کی لڑائی کا واقعہ ہے۔وجہ کوئی اصول نہیں، کوئی مذہبی فریضہ بھی نہیں بلکہ سادہ سی تخت پرقبضہ کی لڑائی تھی۔بیٹے کالشکرہارنے لگا۔
محاورے کے اعتبارسے سپاہیوں کے پیراُکھڑنے لگے۔ ویسے پیرکیسے اُکھڑتے ہیں،اُردولغت میں اس کی تشریح ہونی چاہیے مگریہاں توہرنکتہ ہی تشریح طلب ہے۔سمجھداربیٹے نے خزانچی کوبلوایا۔حکم دیاکہ سونے کے سکے مخالف لشکر پر پھینکنا شروع کردو۔مستعدعمال نے بالکل ایسے ہی کیا۔جیسے ہی اشرفیوں کی مخالف لشکرپربارش ہوئی،انھوں نے فوراً باپ کالشکرچھوڑکربیٹے کی طرفداری شروع کردی۔نوجوان کی یہ ترکیب اس درجہ کامیاب رہی کہ اسکااپنالشکربھی قائم رہا اور مخالف سپاہ بھی ساتھ شامل ہوگئیں۔
سچے واقعہ کے بعدیہ لکھناعبث ہے کہ ہارے ہوئے باپ کے ساتھ کیا ہوا۔ واقعہ انتہائی اہم ہے۔یہ بنیادی طورپرہماری سوچ اور طرزِعمل کی غمازی کرتاہے۔واقعہ بے شک پانچ یاچھ صدیاں پُراناہے۔مگراندازِفکرمکمل طورپروہی ہے۔ہمیشہ لوگ اس فریق کے ساتھ کھڑے ہونگے جوانھیں فائدہ یا نقصان پہنچاسکتاہے۔یہ وہ اُصول ہے جوہمارے عظیم ملک کااصل آئین اورقانون ہے۔اسکوکوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔
طاقت،تخت اورحکمرانی دراصل لامحدوددنیاوی فوائدکی بنیاد ہے۔اس کی ہمارے ملک میں اَن گنت مثالیں ہیں بلکہ پاکستان کے ہرگلی، محلہ، قصبہ، شہر، دیہات میں ہرطرح کی کروڑوں جگ بیتیاں موجود ہیں۔جب ملک کے تخت کا سوال ہوتومعاملہ کس درجہ پیچیدہ ہے،اندازہ عام آدمی نہیں لگا سکتا۔ ذہنی اعتبارسے ہم اس وقت انتشارکی کیفیت میں ہیں لہذااکثریت حکومتی فوائدسے ناآشناہیں۔ووٹ کی طاقت سے حکومت کرنے کانعرہ بھی ہمارے ملک میں کافی حد تک غیرسنجیدہ ہے۔
یہ نعرہ برطانیہ اور فرانس سے نکلا مگر ان معاشروں نے اس نعرے کاہرلفظ اپنی قربانی، جدوجہد اور خون سے لکھا۔وہاں کے سیاسی فلسفیوں نے جمہوریت کا مطلب پہلے خودسمجھااورپھر لوگوں کو سمجھایا۔ جب عام لوگ یا رعایا اس ذہنی سطح پرآگئی کہ اصولِ حکمرانی کوانصاف کے تابع کرسکیں، تو ووٹ سے حکومت کرنے کاخواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ ہمارا معاشرہ اس جدوجہد کا حصہ ہی نہیں بن سکا جو یورپ نے صدیوں پہلے کی۔ اگرآپ برطانیہ میں اصولِ جمہور سے پہلے کے حالات دیکھیں توبالکل ہمارے جیسے تھے۔ ویسٹ منسٹرایبی (West Minister Ebby)کودیکھنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ برطانوی بادشاہ تخت بچانے کے لیے کتنی سفاکیت کامظاہرہ کرتے تھے۔
ایبی ایک شاہی قبرستان ہے جوایک دیدہ زیب عمارت میں قائم ہے۔ اکثر تابوتوں پر لکھا ہواہے کہ اس میں فلاں شہزادی یاشہزادہ مدفون ہے۔مرنے کی وجہ بھی درج ہے کہ بادشاہ نے اپنے بھائی،بہن یا عزیز کو مسلسل بھوک سے مروادیا۔عرض کرنے کا مقصدصرف ایک ہے۔ حکمرانی دراصل ایک ایسافلسفہ ہے جس میں صرف ایک اصول ہے کہ تخت پرقابض کیسے رہنا ہے۔اسی ضابطے کی نظروں سے ملکی حالات کودیکھیں تو ہرچیزآرام سے سمجھ آ جائے گی۔
ہمارے سماج میں برابری یامساوات کی بات ہوتی ہے مگریہ ایک سراب ہے۔ہم کسی کمزورفریق کو اپنا حکمران کسی بھی قیمت پرنہیں بننے دیتے۔ بنیادی سوچ وہی ہے کہ" طاقتورکے سامنے سرجھکاؤ"۔سیاست میں عملی مثالیں دینا ضروری ہے۔ملک معراج خالدملک کے وزیر اعظم کے عہدہ پرپہنچے۔سادہ اورایماندارآدمی۔کیاآپ یقین فرمائینگے کہ الیکشن لڑتے ہوئے ان کے خلاف کیاسیاسی نعرہ بلندکیاجاتاتھا۔توجہ چاہیے۔جوشخص اپنے ذاتی معاملات اورمسائل حل نہیں کرپاتا،وہ عام آدمی کی بہتری کیسے کرپائیگا۔مطلب یہ کہ ایماندارشخص ہے۔
نہ آپکوفائدہ دے سکتاہے اورنہ ہی آپکے جائزیاناجائزکام کروا سکتا ہے۔ معراج خالدصاحب ایک درویش صفت سیاستدان ہونے کے باوجودہمارے سیاسی نظام میں قدرے ناکامی سے ہمکنار ہوتے رہے۔یادہے۔عبوری دورمیں وزیراعظم بنائے گئے۔مثال اس لیے سامنے رکھی ہے کہ ہمارے نظام کے عملی پیمانے بالکل واضح اورشفاف ہیں۔طاقت،پیسے اور اقتدارکے بغیرکوئی شخص،جماعت یاگروہ کسی حیثیت کامالک نہیں۔ یہ اصول ہمارامقتدرطبقہ بخوبی جانتاہے۔کسی ضابطہ کے تحت اپنی اپنی جداگانہ حکمتِ عملیاں ہیں۔مگرمنزل صرف اورصرف ایک ہے۔
شائد آپ کو میری بات مناسب نہ لگے۔ یہ فقرہ جسے میں ضابطہ لکھ رہاہوں،اصول کہہ رہا ہوں۔ بنیادی طورپراقتدارکے کھیل کی روح ہے۔اس کے برخلاف جوشخص یاادارہ کچھ بھی کرنے کی جسارت کریگا، اسے بیحدنقصان پہنچایا جائیگا۔ شائد اَن دیکھے زہرکاپیالہ بھی پینا پڑے۔تسلیم کیجیے یاانکارکیجیے۔ہم کمزورفریق کوکبھی بھی حکمران نہیں بنائینگے۔اگرکچھ عرصے کے لیے یہ انہونی ہوبھی جائے،تواسے تماشہ بنادیاجائیگا۔سیاسی شخصیات میں یوسف رضا گیلانی،راجہ پرویزمشرف کااصل گناہ یہ تھاکہ طاقت کی بساط کے نحیف مہرے تھے۔
کرپشن اورمالیاتی بے ضابطگیاں الگ مگرصرف اس لیے ہٹائے گئے کہ وہ ہٹائے جا سکتے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹوکوبھی اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب ایک ریاستی فریق ان سے زیادہ طاقتور ہو چکا تھا۔ شائدبھٹوکی مثال نہیں دینی چاہیے۔اس لیے کہ انھیں اقتدارسے محروم کرنے کی وجوہات ایک سے بہت زیادہ تھیں۔کچھ معلوم ہوچکی ہیں مگراکثرنامعلوم ہیں۔مگرعلاقائی اقتدارکی شطرنج کااصول ازلی طورپرانمٹ ہے۔
اب سوال یہ آتاہے کہ کیایہ بساط تبدیل ہوسکے گی۔ امکانات کم ہیں۔اس کی وجہ صرف ایک ہے۔یہاں کوئی اصولوں پراپنے خون سے دستخط کرنے کے لیے تیارنہیں۔ درست ہے کہ کچھ منحرف مثالیں موجودہیں مگرعمومی طور پر معاملہ بالکل وہیں کاوہیں ہے۔ مقتدرانسان یاگروہ،وقت کے ساتھ ساتھ مالی فوائدکے چند ٹکڑے دیگر لوگوں کی طرف ضرور پھینکتاہے۔یہ لوگ ہر قیمت پران فوائدکے زیرِاثر مقتدر طبقے کے ساتھ رہتے ہیں۔اس کی بھی بہت زیادہ مثالیں موجود ہیں۔
بہادرشاہ ظفرکے خلاف جوبرطانوی مقدمہ قائم کیاگیا۔اس کی کاروائی کئی کتابوں میں موجودہے۔کیونکہ شہنشاہ غیرموثرتھا۔لہذاان کے خلاف گواہ،عدالت میں پیر چھونے کے بعدانھی کے خلاف گواہی دیتے تھے۔کوئی بھی بادشاہ کے لیے کلمہ خیرکہنے کے لیے تیارنہیں تھا۔صرف اس لیے کہ اب نیا دورِحکمرانی آچکا تھا جس میں حکومت ایسٹ انڈیاکمپنی کے پاس تھی اورمالی فائدہ دینے کی استطاعت بھی۔برصغیرکی اکثریت نے قبلہ تبدیل کرنے کے لیے ایک منٹ نہیں لگایا ۔ تمام لوگ نئے حکمران کی رعایابن گئے۔یہ طرزِعمل آج تک موجود ہے۔
ہاں، اگر بہادرشاہ ظفرجیت چکا ہوتا تو معاملات مختلف ہوتے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے جوکشت وخون کے مظالم برپاکیے،اس پرکسی نے چوں تک نہیں کی۔ شہرلاہورمیں راوی کے دریاسے لے کر اندرون شہرکی فصیل تک سیکڑوں پھانسی گھرموجودتھے۔راہ چلتے نوجوانوں کو پکڑ کر پھانسی دے دی جاتی تھی۔مگریہاں کوئی بغاوت نہیں ہوئی۔ انگریز بڑی کامیابی سے ہماری غلامی کی نفسیات کوجان چکا تھا۔ ویسے آج بھی ہمارے اصل حاکم وہی ہیں۔کبھی غور فرمائیے توبات سمجھ آجائے گی۔
اس طرزِعمل کی دوسری مثال پنجاب میں1946ء کے الیکشن تھے۔ الیکشن سے پہلے قائد اور پاکستان کے حق میں مضبوط ہوا چل چکی تھی۔ مقتدر طبقہ جودراصل یونیسٹ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا، جان گیا کہ اب یونیسٹ پارٹی سے تعلق رکھ کر اقتدارمیں زندہ نہیں رہ سکتے۔ راتوں رات فوری طورپر وفاداریاں تبدیل کرکے مخالف جماعت یعنی مسلم لیگ سے مل گئے۔الیکشن جیتنے اور1947ء میں اقتدارمیں آ گئے۔ یقین نہیں آتاتوموجودہ سیاستدانوں کی فہرست بنائیے اور 1946ء کے امیدواروں کی فہرست سے تقابلی جائزہ کیجیے۔خاندانی لڑی آرام سے معلوم ہوجائے گی۔
اقتدارکے مقامی قوانین کوفی الحال مکمل طورپرتبدیل کرنا اگرناممکن نہیں تودشوارضرورہے۔جیسے پہلے عرض کیاکہ یورپ میں انسانی حقوق اورجمہوریت کے لیے جوعملی جدوجہدکی گئی،وہ اس معاشرے میں ابھی تک واضح طورپرشروع نہیں ہوئی۔ ہرفریق،گروہ یاجماعت چاہتی ہے کہ کسی قسم کے مصائب جھیلے بغیردربار ِشاہی میں موجودرہے۔کوئی تکلیف بھی نہ اُٹھانی پڑے۔جب تک یہ ذہنی مفلسی موجودہے، مثالی ترقی مساوی انسانی حقوق اورانصاف کی فراہمی صرف اورصرف نعرے ہیں۔ یاشائد خواب۔ مگر زندہ رہنے کے لیے خواب دیکھنے بھی لازم ہیں!