جشن مرگ محبت سے جشن ادب کی طرف
وہ دن گئے جب انگریز اہل زبان تیسری دنیا کے انگریزی دانوں کو گردانتے ہی نہ تھے۔
لاہور:
لیجیے جاڑوں کے دن تو گنے گئے۔ جاڑے پالے کا دور تمام ہوا۔ کم از کم ہمارے شہر لاہور کی حد تک مطلع صاف ہے۔ جاڑے کو چلتے چلتے جتنا زور دکھانا تھا وہ گزرے ہفتے میں دکھا چکا۔ مہاوٹ کی بارشیں اس کی کمک پر تھیں۔ ان کا زور بھی ٹوٹ چکا۔
ایک عزیز مہاوٹ کے لفظ پر چونکا اور ہم سے پوچھا کہ یہ مہاوٹ کیا ہوتی ہے۔ ہم نے کہا کہ عزیز بارشوں کا ایک ہلہ ساون بھادوں کے ساتھ آتا ہے۔ دوسرا ہلہ جاڑوں کی رت میں اگھن پوس کے جلو میں آتا ہے۔ وہ بولا کہ دونوں صورتوں میں بارش ہی ہوتی ہے نا۔ ہم نے کہا، ہاں دونوں صورتوں میں بارش ہی ہوتی ہے۔ مگر ہر رُت کے ساتھ اس کی رنگت بدل جاتی ہے۔ ساون کی جھڑی' بھادوں کی بھدبھدی۔ اگھن پوس کی مہاوٹیں۔
خیر بارش کے بدلتے رنگوں کی اپنی تفصیلات ہیں۔ اس وقت کی صورت احوال یہ ہے کہ کڑاکے کا جاڑا گیا۔ اب جو جاڑا پڑے گا، وہ گلابی جاڑا ہو گا۔ مگر کھیتوں میں جو سرسوں پھولے گی اور پھولنا شروع ہو گئی ہے، اس کی رنگت بسنتی ہو گی۔ بسنت کا اپنا رنگ ہے۔ اب اس کی آمد آمد ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی لاہور کے جیالوں کو اپنی پتنگ کے رنگوں میں رنگ ہوئی بسنت یاد آنی شروع ہو گئی ہے۔ مگر تذکرہ لاہور کے جشن بسنت کا اے دوست نہ چھیڑ۔ اس کی رنگا رنگی کو، اس کی گہما گہمی کو ملائوں اور لاہور کی انتظامیہ کی نظر کھا گئی۔
پتنگ بازوں کی طرف سے ایک فائول ہوا۔ ڈور کی جگہ تار کا استعمال۔ اس سے بچوں بڑوں کی گردنیں کٹنے لگیں۔ یہ انتظامیہ کا فریضہ تھا کہ اس غیر قانونی غیر اخلاقی حرکت پر مجرموں کو پکڑے۔ مگر انتظامیہ نااہل تھی۔ اس نے سوچا کہ اس جھنجھٹ میں کون پڑے۔ پتنگ بازی پر پابندی لگا دو۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ مولوی ملا بھی خوش۔ ان کی مراد پوری ہو گئی۔ اور نا اہل انتظامیہ نیک نام بن گئی۔ پتنگوں کے رسیا مردود ٹھہرے اور وہ جو دیس دیس سے مہمان آتے تھے اور لاہور کے اس جشن کو چار چاند لگاتے تھے، انھوں نے اس مرگ جشن پر افسوس کیا اور ادھر سے منہ موڑ کر دوسرے شاد آباد کوچوں کی طرف نکل گئے۔
اب اس سوہنی رت میں لاہور کے آسمان پر صرف چیلیں اڑتی نظر آتی ہیں۔ پتنگوں کی رنگا رنگی قصۂ ماضی بن گئی۔ ہم نے ان ہی دنوں ایک اخبار میں دیکھا کہ ایک پورا صفحہ گزرے جشن کی یاد میں سجایا گیا ہے اور اس پابندی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ مگر کون سنتا ہے۔
مگر بسنت رت کا اپنا جادو ہے۔ سرسوں کو پھولنے سے تو کوئی نہیں روک سکتا اور جب کھیت میں کھڑی سرسوں کا پھول مسکرائے گا تو اسے کونسی شریعت کے تحت کفر قرار دیں گے۔ مگر اب کیا کراچی کیا لاہور ایک دوسرے ہی جشن کی تیاریاں ہیں۔ ویسے کراچی بھی کیا خوب شہر ہے؎
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
ایک خبر تو کراچی کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گئی ہے، قتل عام کی یا عوامی زبان میں قتلام کی خبر۔ فلاں کوچے میں گولی چل گئی۔ اتنے لوگ ہلاک ہو گئے۔ فلاں مسجد میں بم پھٹا۔ فلاں شخصیت کو تاک کر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ قتل، قتل، قتل۔ مگر اسی بیچ اب اور طرح کی خبر بھی آ رہی ہے۔ وہ جو یہاں سال کے سال ایک ادبی جشن کی طرح ڈالی گئی، اس کی تیاریوں کی خبر۔ اس جشن کی اصل میں اکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور برٹش کونسل کو سوجھی تھی۔
دونوں نے مل کر ایک ایسے میلہ کے انعقاد کا ڈول ڈالا جس میں دو روز تک صبح سے شام پڑے تک ادبی سیشن کا ایک پورا سلسلہ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا۔ انھوں نے تو اپنی دانست میں اسے انگریزی کے ادیبوں تک محدود رکھا تھا۔ لیکن جب ادھر سے ادھر تک آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں تو یہ دو لسانی جشن بن گیا۔ یعنی انگریزی کے ساتھ اردو بھی۔ اور پھر دوسری پاکستانی زبانوں کی بھی اس میں شمولیت لازم ٹھہری۔ اور اب دو کی حد سے نکل کر یہ جشن سہ روزہ ہو گیا ہے۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اب سے پہلے ہندوستان میں جے پور شہر میں ایسے جشن کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ ادھر وہاں یہ گل کھلا تو ادھر کراچی شہر کو جھرجھری آئی۔ یہاں بھی اس طرح کی تقریب کا اہتمام ہونے لگا۔ اب لاہور شہر نے پھریری لی ہے۔ آخر اب اس شہر میں بھی تو انگریزی نگارشات کی فصل پھولنے لگی ہے۔ یوں سمجھیے بلکہ اسے گلوبلائزیشن کا فیضان جانئے کہ یہاں کے وہ نوخیز جو انگریزی میں شعر و افسانہ لکھنے کا شوق رکھتے تھے، انھیں اب دور کی سوجھنے لگی ہے۔ وہ بھی اب تنگنائے پاکستان سے نکل کر بین الاقوامی ادبی اکھاڑے میں آ کر اپنا دم خم دکھانے کے درپے ہیں۔ ادھر بین الاقوامی دنیا بھی ترقی یافتہ قوموں سے گزر کر ترقی پذیر ممالک کے جوہر قابل کی حوصلہ افزائی پر مائل نظر آتی ہے۔ سو ادھر سے اب؎
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
سو وہ دن گئے جب انگریز اہل زبان تیسری دنیا کے انگریزی دانوں کو گردانتے ہی نہ تھے۔ اب ان کا رویہ بدلہ بدلہ نظر آتا ہے۔ سو اب تیسری دنیا کے انگریزی میں لکھنے والے بھی جو پہلے کسی شمار قطار ہی میں نہیں تھے اب شمار قطار میں نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہندوستان کے انگریزی کے ناول نگار جن میں سے کئی ایک نے بُکر پرائز قسم کے انعامات جیت کر میلہ لوٹ لیا۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزے نے رنگ پکڑا۔ پاکستان کے نوخیزوں نے بھی جھرجھری لی اور ناول کے نام دفتر کے دفتر لکھ ڈالے۔ انھوں نے بجا سوچا کہ جب ہم کرکٹ میں بڑھ کر میدان مار سکتے ہیں تو انگریزی ادب میں سینچری کیوں نہیں بنا سکتے۔ انگریز برصغیر سے نکلتے ہوئے اپنی دو بڑی نشانیاں چھوڑ کر گئے تھے۔ کرکٹ اور انگریزی۔ پاکستان کے کھلاڑی کرکٹ میں اپنے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ اب ذرا انگریزی ادب میں بھی تھوڑی کرکٹ ہو جائے ؎
ہمت کو شناوری مبارک
لیجیے ہم کہاں سے کہاں نکل گئے۔ کس ذوق و شوق سے ادب بکھار رہے ہیں اور لاہور اور کراچی میں ہونے والے ادبی جشنوں پر ریشہ ختمی ہو رہے ہیں۔ ساتھ میں جشن بسنت کی موت پر کف افسوس مل رہے ہیں اور سرسوں کے پھول اور بسنت رت کی باتیں کر رہے ہیں۔ ارے کچھ بسنت کی بھی خبر ہے۔ یہ ارد گرد کیسا شور بپا ہے اور شور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کراچی میں کیا قیامت برپا ہے۔ قتل، قتل، قتل۔ ادھر لٹریچر فیسٹیول کے منتظمین کس یکسوئی اور اطمینان سے اپنے جشن کے پروگرام کو ترتیب دے رہے ہیں اور شائقین ادب کو اپنے پروگرام سے مطلع کر رہے ہیں جیسے انھوں نے ہماری داستانوں لوک کہانیوں کے درویش کی یہ نصیحت سن لی ہے کہ اے عزیز گوہر مراد کی تلاش کے سفر میں پیچھے بہت شور مچے گا۔ بہت ڈرائونی آوازیں سنائی دیں گے۔ پر مڑ کر مت دیکھنا ورنہ تو پتھر کا بن جائے گا۔