امن کے دہانے پر
پاکستان کے اپنے حق میں ہے کہ افغانستان میں دیر پا امن کا قیام ہو سکے اور متحارب گروہ کسی ایک فارمولے پر متفق ہو سکیں۔
لندن کے مضافات میں ہونے والی تین ممالک کی سربراہ کانفرنس اس فیصلے پر اختتام کو پہنچی کہ پاکستان اور افغانستان چھ ماہ کے اندر امن معاہدے کو حتمی شکل دے کر خطے میں امن کو یقینی بنائیں گے۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا کہ امن مذاکرات میں طالبان کو شریک کرنے کے لیے انھیں دوحہ (قطر) میں اپنا دفتر کھو لنے کی دعوت دی جائے۔ اس سے قبل حامد کرزئی کی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات پر ہچکچاہٹ کا شکار تھی اور لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔
لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس سہ فریقی کانفرنس کے بعد دونوں ممالک ایک تزویراتی شراکتی معاہدے (Strategic Partnership Agreement) پر متفق ہو گئے ہیں۔ جس کے ذریعے2014 میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اس خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے ٹھوس حکمت عملیاں تیار کی جائیں گی۔ مگر اگلے ہی روز افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس کانفرنس کو اصل فریقین یعنی امریکا اور برسر پیکار قوتوں کے درمیان نتیجہ خیز مذاکرات میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ اس طرح لندن مذاکرات کے نتیجے میں جس پیش رفت کی امید ہوئی تھی، وہ معاہدے پر عملدرآمد سے پہلے ہی خاصی مشکوک ہو گئی ہے۔
دراصل امریکی منصوبہ ساز کئی برسوں سے مختلف آپشنز پر مسلسل کام کر رہے ہیں، جن میں القاعدہ کی طرف جھکائو نہ رکھنے والے طالبان گروہوں سے در پردہ مذاکرات کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کے تعاون سے 2014سے قبل افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام شامل ہے۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران طالبان کے مختلف گروہوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر رابطے ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں دونوں فریقین کے لیے کسی قابل قبول فارمولے پر پہنچنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ جس کی طرف ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے حالیہ بیان میں اشارہ بھی کیا ہے۔ کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ لندن میں ہونے والے سہ فریقی معاہدے کے نتیجے میں امریکا کے ساتھ ان کے مذاکرات جو اب آخری مراحل میں ہیں، سبوتاژ ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد ان کے اقتدار میں آنے میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ امریکا اس خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے افغان فوج کو نیٹو افواج کی جگہ لینے کے لیے تیار بھی کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکا نے حلیف ممالک کے تعاون سے ایک فنڈ بھی قائم کیا ہے۔ جس کے بارے میں طے ہوا تھا کہ آٹھ ارب ڈالر امریکا اور بقیہ آٹھ ارب ڈالر حلیف ممالک دیں گے۔ اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے امریکا کی نیٹو ممالک کے ساتھ گفت و شنید جاری ہے۔ امریکی حکومت کو یقین ہے کہ 2014کے وسط سے پہلے، جب نیٹو افواج کا انخلا شروع ہو گا، وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس لیے بعض حلقوں کی رائے میں لندن کانفرنس کے بارے میں امریکی حکام بھی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
اب جہاں تک لندن میں ہونے والی متذکرہ بالا کانفرنس کا تعلق ہے، تو افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے یہ تیسری کانفرنس تھی، جس کی میزبانی تسلسل کے ساتھ برطانیہ نے کی۔ مگر سابقہ دونوں کانفرنسوں کے مقابلے میں یہ کانفرنس اس لحاظ سے اہم تھی کہ اس میں پاکستان اور افغانستان کی سیاسی قیادت کے علاوہ ان ممالک کی مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں نے بھی شرکت کی۔ پچھلی کانفرنسوں کے مقابلے میں اس کانفرنس میں افغانستان کا رویہ بھی خاصی حد تک سنجیدہ تھا۔ کیونکہ کانفرنس سے قبل اس کے وزیر دفاع نے پاکستان کا پانچ روزہ دورہ کیا اور پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے ساتھ اس کانفرنس کے اہم نکات پر مشاورت کر کے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔
حالانکہ کانفرنس سے ایک روز قبل افغان بارڈر فورسز نے قبائلی علاقہ میں گولا باری کی، جس سے چھ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور اسی دوران افغانستان کے راستے وسط ایشیاء کے لیے پاکستان کے تجارتی کنٹینرز کو سرحد پر کئی روز تک روکے رکھا گیا۔ مگر ان تمام مشکلات کے باوجود کانفرنس میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے گریز کرتے ہوئے دونوں ممالک کا اعتماد سازی پر متفق ہونا اور مل جل کر امن اقدامات کو آگے بڑھانے کی یقین دہانی کرانا ایک حوصلہ افزاء پیش رفت ہے۔
پاکستان، افغانستان کے مسئلے کے حل میں گزشتہ کئی برس سے خاصی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس سے قبل ہونے والی کانفرنسوں میں ہونے والے فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان فروری 2012سے اب تک دو درجن کے قریب اہم طالبان رہنمائوں کو رہا کر چکا ہے۔ جب کہ مزید26 اہم ترین رہنمائوں کی رہائی کے لیے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ یہ ساری کوششیں آیندہ برس نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ پاکستانی منصوبہ سازوں کو یقین کی حد تک خطرہ ہے کہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں پھیلنے والا انتشار اسے بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اس سوچ کو بھی تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ افغان مسائل میں مسلسل کئی دہائیوں تک الجھے رہنے کی وجہ سے اس کی معیشت اور سماجی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
یہ خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ نیٹو افوج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں موجود انتشار میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ پاکستان میں یہ خوف بھی اپنی جگہ بجا طور پر موجود ہے کہ نیٹو افواج کے نکلتے ہی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو جانے کے باعث صرف افغانستان ہی مزید غیر مستحکم نہیں ہو گا، بلکہ سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ اس لیے پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کے غلط تصورات سے باہر نکل کر آج کے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے صحیح سمت میں فیصلے کرے۔ شاید یہی وہ سوچ ہے، جو پاکستانی منصوبہ سازوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ قیام امن کے لیے کیے جانے والے ایسے اقدامات کی حمایت کریں، جن سے افغانستان میں استحکام یقینی ہو جائے اور یہ مسئلہ جلد از جلد کسی منطقی انجام تک پہنچ سکے۔
لیکن صورتحال اتنی سادہ نہیں ہے جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے۔ افغانستان میں صرف طالبان ہی طاقتور فیکٹر نہیں ہیں، بلکہ شمالی اتحاد بھی ایک طاقتور فریق ہے۔ اگر اس فریق کے مفادات کو اہمیت نہیں دی گئی اور صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تکیہ کیا گیا، تو اس کے صرف افغانستان کے مستقبل پر ہی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، بلکہ پورا خطہ اس سے متاثر ہو گا۔ اسوقت جو صورتحال ہے، اسے دیکھتے ہوئے افغانستان میں دو ممکنہ منظر نامے نظر آ رہے ہیں۔ اول، اگر طالبان جمہوری عمل کو تسلیم کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو آیندہ انتخابات تک برقرار رکھنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، تو افغانستان کی یکجہتی برقرار رہنے کی توقع کی سکتی ہے۔
اس طرح وہاں جاری انتشار میں اضافہ کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔ جس کے پاکستان پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ دوئم، طالبان کے اپنی ضد پر ڈٹے رہنے اور طاقت کے بل پر افغانستان پر قابض ہونے کی کوشش کے نتیجے میں افغانستان کی تقسیم یقینی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غیر پختون آبادی کسی بھی طور پر طالبان کے زیر اثر نہیں رہنا چاہتی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ غیر پختون قیادت، جس کا مرکز پہلے ہی سے مزار شریف تھا، اب اپنی قوت وہاں مجتمع کر رہی ہے۔ تا کہ افغانستان کی تقسیم کی صورت میں مزار شریف کو غیر پختون ریاست کا دارالحکومت بنایا جا سکے۔
اس صورت حال کے نتیجے میں افغانستان میں خوفناک خانہ جنگی کا خطرہ ہے، جس کے انتہائی منفی اثرات کا پاکستان پر پڑنا بھی یقینی ہیں۔ بعض بین الاقوامی تجزیہ نگار افغانستان میں جاری انتشار میں اضافے کے نتیجے میں اس کی ممکنہ تقسیم کے عمل کا پھیلائو پاکستان تک دیکھ رہے ہیں۔ جہاں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم وقت گزرنے کے ساتھ متشدد ہو رہی ہے اور مختلف سماجی گروہوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پاکستان ایک انتہائی زد پذیر (Fragile) صورتحال کا شکار ہو چکا ہے۔ جس پر افغانستان کی موجودہ صورتحال کے براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس لیے پاکستان کے اپنے حق میں ہے کہ افغانستان میں دیر پا امن کا قیام ہو سکے اور اس ملک کے مختلف اور متحارب گروہ کسی ایک فارمولے پر متفق ہو سکیں۔ لہٰذا پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے کہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان ایک بار پھر 1990کے عشرے کی طرح انتشار نہ ہونے پائے، بلکہ جغرافیائی یکجہتی کے ساتھ استحکام کی راہ پر گامزن ہو۔ یہ طے ہے کہ آج کی اس دنیا میں ایک مستحکم افغانستان نہ صرف اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے، بلکہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی اہم ہے۔ لہٰذا اس وقت یہ خطہ امن کے دہانے پر ہے، جس کی تکمیل اس خطے کی قیادت کے ویژن سے ہی ممکن ہے۔