آزادی فلسطین

تصویریں بولتی ہیں اور جب ظلم کی انتہا ہوجائے تو ہر جانب انصاف کی پکار سنائی دیتی ہے


Shehla Aijaz August 02, 2017
[email protected]

FAISALABAD: دنیا بھر نے دیکھ لیا کہ کس طرح اسرائیلی مسجدالاقصیٰ پر قبضہ کرنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کر رہے ہیں۔ اسرائیلی کرنل کی ایک فلسطینی کی سڑک پر نماز کی ادائیگی کے دوران اشتعال انگیز حرکت کہ جس نے نماز پڑھتے فلسطینی کو زمین پر گرا ڈالا۔ یہ حرکت ہی ثابت کر رہی تھی کہ نفرتیں اور بغض کی انتہا ہوچکی ہے۔

اس ویڈیو کلپ کو مغربی چینلز میں بارہا دکھایا گیا جس میں فضا میں اچھل کر زوردار لات رسید کرنے والے کو ایسی ظالمانہ حرکت انجام دیتے ذرا بھی تردد نہ ہوا۔ کون سا میڈیا، کون سے کیمرے، کس کی کوریج؟ دولت کے نشے میں چور زمین پر قبضہ جما لینے کی دھن اس قوم کو کس جانب لے کر جا رہی ہے۔

مسجد اقصیٰ میں ایک خاص مقصد کے تحت دہشتگردی سے روک تھام کی آڑ میں خفیہ کیمرے اور حفاظتی آلات لگائے گئے، لیکن اسرائیلی حکومت کے اس اقدام کو فلسطینی عوام نے قبول نہیں کیا اور جس طرح مذہبی جوش و جذبے سے متحد ہو کر احتجاج کیا، اس نے اسرائیلی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تو کردیا تھا لیکن جس قسم کے رویے اسرائیلی فوج اور پولیس نے عوام کے ساتھ روا رکھے، کچھ اسی قسم کے رویے صحافیوں کے ساتھ بھی رکھے گئے۔

چینل الجزیرہ نے اس تمام صورتحال کے دوران اپنے فرائض کچھ اس طرح انجام دیے جس سے تمام بیرونی دنیا کو اسرائیل کا گھناؤنا چہرہ نظر آگیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو الجزیرہ کے سخت مخالف ہوگئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی پالیسی میں ہر طرح کے صحافتی کارکن یروشلم سے دور رہیں یا محض تماشائی بن کر دیکھتے رہے، شامل ہے، جس کی شکایت یروشلم سے شایع ہونے والے اخبار ''دی یروشلم پوسٹ'' میں بھی چھپ چکی ہے۔ گو یہ اخبار خود اسرائیلی سرزمین سے نکلنے والا اخبار ہے لیکن صحافتی تقاضے پورے کرنے سے روکنے والے بھی کوئی اور نہیں خود اسرائیلی سیکیورٹی فورس ہے، جو ظاہر ہے حکومت کے اشاروں پر کام کر رہی ہے، جب کہ نیتن یاہو نے یروشلم میں الجزیرہ کے دفاتر کو بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔

فیس بک کی ایک پوسٹ میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے قطر سے تعلق رکھنے والے ٹی وی چینل الجزیرہ، جو انگریزی اور عربی میں بیک وقت نشر کیا جاتا ہے، پر الزام عائد کیا ہے کہ الجزیرہ نے مقدس مقام کے گرد اشتعال بھڑکانے کو نہیں روکا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ:

''میں نے کئی بار لا انفورسمنٹ سے پوچھا ہے، یروشلم میں الجزیرہ کے آفس کو بند کرنے کے لیے اور اگر کچھ قانونی تقاضوں کے باعث ایسا نہیں ہوتا تو میں ایسا قانون پاس کروں گا جس سے الجزیرہ اسرائیل سے غائب ہو جائے گا۔''

انٹرنیٹ کی اس تیز ترین دنیا میں ایک خبر کو دنیا بھر میں وائرل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یروشلم میں ہونے والے اس سال کے بدترین واقعے نے جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا وہیں اپنے بدترین رویوں سے اسرائیلی پولیس فورس نے حکومتی سطح سے جاری ہونے والے فیصلوں کی قلعی کھول دی ہے کہ کون کس حد تک دہشتگرد ہے۔ یہاں تک کہ عالمی میڈیا بھی بول اٹھا، شاید اسی لیے کہ ایک طویل عرصے تک فلسطینی عوام ظلم کی چکی میں پستے رہے، مظلوم چیختے رہے لیکن اب ان کی چیخوں اور آہوں کو نیوز چینلز اور صحافتی اداروں کی بدولت زبان مل گئی ہے اور قلم کی یہ طاقت اسرائیلی حکمرانوں کو گراں گزر رہی ہے، خاص کر فوٹو جرنلسٹ ان کی زد میں ہے، صحافیوں کو یروشلم میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے اور ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔

تصویریں بولتی ہیں اور جب ظلم کی انتہا ہوجائے تو ہر جانب انصاف کی پکار سنائی دیتی ہے اور ان تمام بے گناہوں کی گواہی ہے وہ تصاویر جنھیں ایک دیانتدار صحافی بڑی محنت سے اپنی جان پر کھیل کر اتارتا ہے، لیکن یروشلم میں ان تمام صحافیوں سے ہتک آمیز سلوک کیا گیا، یہاں تک کہ ان کے وہاں داخل ہونے پر بھی پابندی عائد تھی، خاص کر (Loin's Gate) سے جہاں سے عام شہری اور سیاح تو داخل ہو سکتے تھے لیکن صحافیوں پر پابندی عائد تھی۔

فارن پریس ایسوسی ایشن نے اسرائیلی حکومت کے اس رویے کی سخت مذمت کی ہے، ایف پی اے کا کہنا ہے کہ ان کے صحافیوں کے پاس پریس کارڈز ہوتے ہیں جو حکومتی پریس کے ادارے کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں اور ان کارڈز کی موجودگی میں سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

یروشلم پوسٹ کے چیف فوٹو گرافر مارک اسرائیل سیلم (Marcisrael Sellem) کا شناختی کارڈ سیکیورٹی فورس نے ضبط کر لیا اور ان کو اس وقت وہ کارڈ واپس کیا گیا جب اتوار کو وہ اپنا دورہ مکمل کرکے یروشلم سے لوٹے، سیلم کو سختی سے ان تمام تصاویر کو ختم کردینے کو کہا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے ہفتے سیکیورٹی فورس نے مجھے تصاویر اتارنے نہ دیں اور ایک آفیسر نے کہا کہ وہ بھی دوسرے صحافیوں کی طرح شِٹ ہے۔

سیلم نے افسردگی سے کہا ''فلسطینی اپنے موبائل فون کے ذریعے تصاویر بنا رہے تھے لیکن اسرائیلی صحافیوں کی جانب سے کوئی کوریج نہیں کی گئی اور یہ بہت خوفناک بات ہے۔''

ایک اور فوٹو جرنلسٹ گیلی ٹیبون کا کہنا تھا ''بہت فوٹو گرافرز کو پولیس نے مارا، یہ پریس اور جمہوریت کی آزادی کا معاملہ ہے۔''

نیویارک میں یروشلم کے ظالم یہودیوں کے خلاف یہودیوں نے ہی ریلی نکالی اور اسرائیلی حکومت اپنے ہی ملک کے اخبارات اور چینلز سے یروشلم میں ہونے والے واقعے سے آنکھیں بند رکھنا چاہتی ہے آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ کہتے ہیں کہ خون بولتا ہے، اسرائیلی حکومت نے اپنے تحفظات کو جن آلات کی صورت میں مسجد اقصیٰ میں لگایا تھا انھیں تو ہٹا دیا ہے لیکن اپنے ماتھے سے دہشتگرد کا جو داغ لگا ہے اسے کیسے دور کر سکے گی کہ قلم کی کاٹ اور کیمرے کی آنکھ اب ان کی جانب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں