ہمارا بنیادی مسئلہ
یہ حالات کہیں دور پار کے نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد ہی وقوع پذیر ہو رہے ہیں
ضروری اشیا کی گرانی کا گلہ تو گھریلو خواتین کا ایک معمول ہے اور ان کا یہ گلہ ہر مرد کو قبول بھی ہے کیونکہ اشیا کی گرانی کی پہلی ضرب گھریلو خواتین کے محدود بجٹ پر پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ محسوس بھی انھیں زیادہ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن اس معاشرتی آفت کا مقابلہ مردوں پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ کمائیں اور اس مصیبت کا سامنا کریں، گھریلو خواتین کو معاف کر دیا گیا کہ ان کے پاس اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کے وسائل نہیں ہوتے اور اس وجہ سے یہ قابل معافی ٹھہرتی ہیں لیکن ذمے داری کسی کی بھی ہو اس کی زد سب سے پہلے زیادہ تر گھریلو خواتین پر پڑتی ہے کیونکہ بجٹ عملاً وہی استعمال کرتی ہیں اور اس کا دکھ سکھ انھیں ہی سہنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرتی نظام میں وہ اس ذمے داری سے بھاگ نہیں سکتیں چنانچہ اشیائے ضرورت اور بجٹ کی مہنگائی کی سزا سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں۔
گھریلو خواتین جو چکی چولہے کا بندوبست بھی کرتی ہیں ، کھانا پکانے کا بھی ، کھانے والوں کی پسند ناپسند کا بھی۔ ناپسند کی سزا بھی انھیں ملتی ہے کہ کھانا اچھا نہ ہونے کی صورت میں فوری طعنہ بھی انھی کو ملتا ہے اور ان کے پچھلے بنائے گئے لذیز کھانوں کو فوراً بھلا دیا جاتا ہے ۔ آیندہ کی احتیاط کا مشورہ بھی اور مردوں کی کمائی کی بے قدری کا رونا بھی رویا جاتا ہے کہ اسے اس طرح ضایع نہیںہونا چاہیے کہ اس کے پیچھے بڑی محنت اور مشقت ہوتی ہے جسے ضایع ہرگز نہیں جانے دینا چاہیے بلکہ اس سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔
یہ وہ گھریلو معاملات ہیں جو کہ ہر گھر میں روزانہ چلتے رہتے ہیں اور اس کا شکار خواتین ہی ہوتی ہیں کہ ان کو گرانی کے اس زمانے میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ ہی پورے کنبے کو خوش رکھنے کی اہم ترین ذمے داری ادا کرنی ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں گھریلو خواتین کی یہ بنیادی ذمے داری قرار پائی ہے کہ گھر کا نظم و نسق انھوں نے ہی سنبھالنا ہے اور مرد حضرات کی ذمے داری صرف ان کو ماہانہ محدود بجٹ کی فراہمی ہے جو کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوںکو استعمال میں لاتے ہوئے ماہانہ کما کر لاتے ہیں اور خاتون خانہ کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں کہ وہ اب اس سے گھر کے مہینہ بھر کے اخراجات چلائے اور ساتھ ہی یہ تاکید مزید بھی کی جاتی ہے کہ یہی وسائل ہیں جن میں اسے پورا مہینہ گزارنا ہے اور مزید کی طلب کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔ خاتوں خانہ جب بھی بازار سے لوٹتی ہیں تو ان کے پاس بازار سے خریداری کے بارے میں شکایتوں کا ایک انبار ہوتا ہے وہ مہنگائی کا شکوہ کرتی ہی نظر آتی ہیں لیکن وہ بھی کیا کریں اپنی یہ شکایتیں سنا کر وہ اپنے ذہنی بوجھ کو ہلکا کرتی ہیں اور ایک بار پھر سے گھر داری کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں اور اپنے گلے شکوے آیندہ خریداری تک بھول جاتی ہیں۔
یہ صورتحال اس متوسط طبقے کے گھر کی ہے جن کے پاس ماہانہ اتنا بجٹ ہوتا ہے کہ وہ بمشکل کھینچ تان کر اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں اور اس پر اﷲکا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ مہنگائی کے اس دور میں اپنے اہل خانہ کی ضروریات پورا کر رہے ہیں کیونکہ اب مہنگائی کے حالات کی وجہ سے اخراجات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں اور معاشرے میں افراتفری کا عالم ہے جس کی بنیادی وجہ روزمرہ کے اخراجات کا پورا نہ ہونا ہے اور اخراجات کا پورا نہ ہونا کئی خرابیوں کو جنم دے رہا ہے اور اس روز مرہ کی ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کرپشن کا ناسور ہم سب کو اپنے شکنجے میں جکڑ رہا ہے کہ جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہم مجبور ہو کر ناجائز طریقے ڈھونڈتے ہیں جو کہ بالآخر خرابی کا باعث بنتے ہیں اور ہم اپنی جائز ضرورتوںکو پورا کرتے کرتے گناہوں کی لامتناہی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں جو کہ ہمارا ذہنی اور قلبی سکون بھی چھین لیتے ہیں اور ہم دنیا کو سنوارتے سنوارتے اپنی عاقبت بھی بگاڑ لیتے ہیں۔
ذرا اس بات پر غور کریں کہ جن گھرانوں کے پاس دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے اور اب ہمارے ملک میں زیادہ تعداد انھی خاندانوں کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں غریب اور امیر کے درمیان فاصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ متوسط طبقہ ختم ہو گیا ہے اب یا تو غریب ہیں یا پھر ہماری امیر اشرافیہ ہے درمیان کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور سفید پوش لوگ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے قابل بھی نہیں رہے ۔ ایک بات جو بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ یہ سفید پوش لوگ نہ تو کسی سے مانگ سکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ حالات میں اپنی سفید پوشی کو برقرار رکھ سکتے ہیں یہ سب سے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اور ان کو اپنی بقا کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی ۔ ہمارے معاشرے میں توازن برقرار نہیں رہا اور اس کا شکار یہی متوسط طبقہ ہوا ہے۔
آئے دن اخبارات میں معاشی مشکلات کی وجہ سے خودکشی کی خبریں اب معمول بنتی جا رہی ہیں ، ہم بطور مسلمان یہ جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس موت کی صورت میں مغفرت کی کوئی گنجائش نہیں لیکن اس بات کو جاننے کے باوجود خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور بدقسمت لوگ اپنے بچوں کے منہ میں حلال خوراک کا نوالہ نہ پہنچانے کے باعث شدید مایوسی کے عالم میں ان اذیت ناک لمحات کو برداشت نہ کرتے ہوئے بھی حرام موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ حالات کہیں دور پار کے نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد ہی وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور ہم سب اس کے ذمے دار بھی ہیں لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس ذمے داری کو قبول کرنے پہ تیار نہیں اور اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہمارے اپنے اخراجات ہی پورے نہیں ہو رہے ہم دوسروں کا کیا کریں لیکن بھوک کے مارے لوگوں کو خودکشیوں سے باز رکھنے کے لیے یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے ہمسائیوں کے حالات کی اس قدر تو خبر رکھیں کہ ان کے گھر میں اگر چولہا نہیں جل رہا تو اپنے پیٹ کی خوراک میں معمولی سی کمی کر کے ان غریب لوگوں کے خشک لبوں کو تر کرنے کا کچھ سامان ہی فراہم کر سکیں جس سے ہمیں قلبی سکون کے علاوہ آخرت بھی سنوارنے کا ایک وسیلہ میسر آئے گا، یہ میرے پروردگار کا حکم بھی ہے اور اس کا وعدہ بھی ہے کہ اس نے ہر ذی روح کو ایک مقرر رزق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور کیا پتا کہ آپ ہی اس کے روزی رساں ہوں۔ اگر ہم اپنی معمولی سی کوشش سے کسی کے دکھ کم کرسکتے ہیں تو اس کا اجر کوئی اور نہیں وہ ذات پاک ہی دے گی، کوئی بھی بچہ بھوکا نہیں سوئے گا، بات صرف احساس کی ہے اور جس دن ہم سب میں یہ احساس جاگ گیا ہم دنیاوی بجٹ کے ساتھ آخرت بھی سنوار لیں گے۔