یہ کیا ہو رہا ہے
یہ بھی حکمرانوں اور وردی بے وردی والی نوکر شاہی کی عوام کے خلاف سازش اور مجرمانہ حرکات ہیں
یہ وہی سب کچھ ہو رہا ہے، جو ماضی سے ہوتا آرہا ہے۔ پاکستان میں سول حکومت جیسی بھی چلی آرہی تھی اچانک وزیر اعظم لیاقت علی خان کوگولی مار دی گئی پھر جنرل اسکندر مرزا آئے اس کے فوراً بعد جنرل ایوب خان فیلڈ مارشل بن گئے اور بعد ازاں صدر! محترمہ فاطمہ جناح بھی صدارتی امیدوار تھی لیکن نا جانے کیسے ایوب خان جیت گئے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ بہر حال کچھ بھی کیا گیا ایوب خان صدر بن گئے۔
پارٹیوں پر پابندی لگ گئی۔ کمیونسٹ پارٹی پر تو 1954ء میں ہی پابندی لگ گئی تھی جب کہ اس سے قبل سابق مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ صرف 19نشستیں حاصل کر پائی۔ 80 فیصد نشستیں جگتو فرنٹ ( متحدہ محاذ) نے حاصل کیں اور جگتو فرنٹ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے 80 فیصد امیدوارکمیونسٹ پارٹی کے تھے۔ شاید اس لیے حکمران طبقہ خوفزدہ یا قبل ازصف بندی کے طور پر کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی ۔اسی تسلسل میں 1960ء میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر کو شاہی قلعے میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہیدکر دیا گیا اور بتایا گیا کہ انھوں نے خودکشی کر لی تھی۔ یہاں اکژ یہی کہا جاتا آ رہا ہے۔ نذیر عباسی کو جنرل ضیاالحق کے دور میںکراچی میں جسمانی اذیت دے کر شہید کردیا گیا اور کہا کہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔
سی پی کے نذیر عباسی کی شہادت 9 اگست 1980ء میں ہوئی اور اسی روز ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں این ایس ایف نے زبردست احتجاجی جلسہ کیا جس میں طلبہ کا سمندر امنڈ آیا اور طلبہ نے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا دینے کا مطالبہ کیا لیکن آج تک قاتل پکڑے گئے اور نہ سزا ہوئی۔ اسی طرح ذوالفقارعلی بھٹو کا بھی عدالتی قتل ہوا اور عدالت نے یہ کہا کہ نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاالحق کی حکومت جائز ہے۔
یہ تسلسل ایک لا متناہی اور سرمایہ دارنہ نظام کا نا گزیر نتیجہ ہے۔ ہم کمیونزم کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بات کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام مسلسل اتھل پتھل اور الٹ پھیر کے بغیر چل نہیں سکتا۔ یہ عمل سرمایہ داری کی حیات کو طول دینے اور عوام کو نان ایشوز میں الجھائے رکھنے کا بہترین نسخہ ہے۔ یہی صورت حال ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ بھی ہوئی۔ ہر چند کہ یہ خود عوام کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ارب پتی سے کھرب پتی بننے کی کوششوں میں مسلسل لگے ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر سرمایہ داری میں لوٹ مار ہی ہوتی ہے اور اس کے بغیر ایک جانب کوئی ارب پتی اور دوسری جانب کوئی گداگر بن ہی نہیں سکتا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں قدر زائد کے نام پر لوٹ مار! موجودہ حالات میںعدالت نے نواز شریف کو دولت چھپانے کا فتویٰ دیا ہے۔ دولت کو ملک میں واپس لانے یا انھیںاس جرم میں جیل بھیجنے کی بات نہیں کی ہے، صرف نا اہل کہہ کر وزارت عظمٰی سے ہٹانے کی بات کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بد عنوانی کا احتساب کرنے والے خود بھی بد عنوانی سے پاک ہوں۔
پاکستان کی کون سی بو رژوا پارٹی ہے (سرمایہ دارانہ) جس کے سربراہ کوئی کام دھندا کرتے ہیں، وہ تو صرف شغل کے طور پر سیاست کرتے ہیں۔ کرپشن سرمایا دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا نا گزیر نتیجہ ہے۔ یہ کرپشن ہر ادارہ اور تقریباً ہر فرد کر رہا ہے۔ اور سرمایہ داری میں اسے ختم کیا نہیں جا سکتا۔ اگر ایسا ہو سکتا تو امریکا کے صدارتی امیدوار برنی سینڈرزکوپیسوں کے بل بوتے پر ہیلری نا ہرواتی۔ ان مقدمات سے قبل سابق چیف آف آرمی اسٹاف کے بھائی دس ارب روپے لے کر نہ بھاگتے۔ ان کا مقدمہ بھی سست رفتاری کا شکار ہے۔ ویسے تو آف شورکمپنی میں رقوم کی موجودگی کا جہانگیر ترین نے برملا اعتراف بھی کیا ہے، عمران خان اپنے اثاثوں کا ریکارڈ نہ دے پائے، پروفیسرخورشید احمد باہاماس میں آف شورکمپنی کے ڈائریکٹر ہیں جس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
اصغرخان کے مقدمے میں یہ ثابت ہو چکا کہ ہماری نوکر شاہی نے بینک سے پیسے لے کر آئی جے آئی بنوائی، جس کا ٹی وی چینل پر آکرریٹائرڈ جنرل حمید گل، جنرل پاشااور سابق چف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ نے اعتراف بھی کیا اس کے با وجود عدالت نے اس غیر قانونی اقدام پر از خود نوٹس لیا اور نہ کوئی سزا دی۔ پاکستان میںچالیس سال تک فوجی حکومتیں قائم رہیں اور عدالتوں کے جج حضرات سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، دانشوروں، عوام اور سب سے بڑھ کے ہمارے آئین نے ان غیر جمہوری اقدامات کو رد کیا۔ اس کے باوجود ہماری عدالتوں نے جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق اورجنرل پرویز مشرف نے مسلسل آئین توڑنے اور عوامی اقدار پر قبضہ کرنے کا عمل جاری رکھا، اس کے باوجود ہماری عدلیہ نے کسی ایک قابض فوجی حکومت کے خلاف از خود نوٹس لیا، مقدمہ چلایا اور نہ غیر آئینی اقدام کرنے پر ان کوکوئی سزا دی۔
اس وقت بھی یہی صورتحال ہے کرپشن، بھتہ خوری ، رشوت اور لوٹ مار کے خلاف احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن جس ملک میں کروڑوں کسان بے زمین ہوں اور چند جاگیر داروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہو، کیا ہماری پارلیمنٹ اور عدلیہ کا یہ فریضہ نہیں بنتا کہ زمین کسانوں میں بانٹ دیں اور غیر پیداواری اخراجات کم کر کے کارخانوںکا جال بچھایا جائے۔ پانچویں تک مفت اور جبری تعلیم دی جائے۔ عوام کو پینے کا شفاف پانی مہیا نہ کرنا، طلبہ کو مفت اور معقول تعلیم نہ دینا، بیروزگاروں کو روزگار نہ فراہم کرنا، مریضوں کو بروقت معقول علاج نہ مہیا کرنا صرف کرپشن نہیں بلکہ جرم ہے۔ہم اربوں روپے کا اسلحہ بنائے جا رہے ہیں لیکن بھوک اور بیماری سے مرتے ہوئے لوگوں کو بچا نہیں پا رہے ہیں۔
یہ بھی حکمرانوں اور وردی بے وردی والی نوکر شاہی کی عوام کے خلاف سازش اور مجرمانہ حرکات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام کے وسائل عوام کو منتقل ہونے چاہئیں جس میں وہ اپنی پیداوار کو جینے کے لیے کام میں لا سکیں۔ حکومت سول ہو یا فوجی، درحقیقت نظام سرمایہ دارانہ ہے اس لیے اس نظام میں چند لوگ دوسروں کو لوٹے بغیر ارب پتی بن نہیں سکتے۔
جب یہ بات درست ہے تو پھر رونا دھونا کس بات کا؟ اگر بعض لوگوں کے ان سوالوں کو لے لیں کہ ترقی یافتہ ملکوں جرمنی، جاپا ن اور امریکا میں ایسا نہیں ہوتا تو پھر جرمنی میں ساٹھ لاکھ، امریکا میں تین کروڑ، چین میں ستائیس کروڑ اور ہندوستان میں چونتیس کروڑ لوگ بیروزگار نہ ہوتے، اس لیے سرمایہ دارانہ نظام میں ان نان ایشوز کے ٹاک شوز اور بھول بھلیاں عوام کو حقیقی مسائل سے دور رکھنے کا ایک سازشی طریقہ کار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس نظام کو ہی یکسر بدل دیا جائے۔ وہ اس طرح سے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قرضہ بحق سرکار ضبط کر لیا جائے، دفاعی اخراجات کوکم کیا جائے ،آسائشوں میں کمی لائی جائے، غیر پیداواری اخراجات میں کمی لائے جائے، ملک کی ساری دولت کو سارے لوگوں کے حوالے کیا جائے۔ جب سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے تو کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی گداگر۔