فٹ پاتھ اور پلے گراؤنڈ

پاکستان میں سڑکیں پل انڈر پاس اور فلائی اوور بنانے والوں نے یہاں فٹ پاتھ ختم کر کے بڑا ظلم کیا ہے


Hameed Ahmed Sethi August 04, 2017
[email protected]

WASHINGTON: ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے تب بھی میں اپنے گھر سے دور گیا ہوا تھا اور شیخ لطیف الرحمٰن کے مکان پر چائے پیتے ہوئے ٹیلیوژن دیکھ رہا تھا کہ News Alert کی سرخی چلی کہ جنرل ضیاء الحق کے ہوائی جہاز میں دھماکا ہو گیا ہے اور ان کے ساتھ جہاز میں بیٹھے ہوئے امریکی سفیر بھی ہلاک ہو گئے ہیں اور اس بار یہ خبر میں نے لندن میں سعید سہگل صاحب کے مکان پر چائے نوشی کے دوران ٹیلیوژن کی بریکنگ نیوز کے طور پر سنی کہ وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلے کے ذریعے زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے کر انھیں اور ان کے تین بچوں کو کرپشن مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو کے سپرد کر دیا ہے۔

میں تو لاہور کے حبس زدہ موسم سے چند ہفتے فرار کی غرض سے لندن آیا تھا لیکن اب صبح دوپہر شام ٹیلیوژن اور ٹیلیفون کے ذریعے بصارت و سماعت کی مصروفیت شروع ہو گئی ہے اور میاں صاحب کے دوستوں اور مخالفوں کے درمیان ہونے والی لفظی جنگ سننی پڑھنی اور دیکھنی پڑ رہی ہے۔ جب میاں نواز شریف کو دوسری بار اقتدار سے نکالا گیا تب بھی میں امریکا کے شہر نیوجرسی میں شیخ محمد سلیمان کی موٹر میں بیٹھا ایک دعوت پر جا رہا تھا جب معلوم ہوا کہ میاں صاحب حسب مزاج اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری ہونے سے کچھ پہلے ہی روانگی کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

محترمہ بینظیر بھٹو کو دوبار وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا لیکن میاں صاحب نے تیسری باری لے کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے جو شاید پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں کسی سے نہ ٹوٹے اور گنیز بک میں درج ہو کر ورلڈ ریکارڈ ہو جائے۔ میاں صاحب کے نااہل ہو جانے کا تو مجھے دکھ ہوا لیکن خوشی اس بات پر محسوس کی کہ میں نے دو بار اپنے گزشتہ کالموں میں سپریم کورٹ کے 30 جولائی2017ء والے فیصلے کے قوی امکان کا ذکر کر کے کئی دوستوں سے لاکھوں روپے کی شرطیں جیت لی ہیں لیکن وصول نہ ہونے کا اس سے بھی قوی امکان ہونے کی وجہ سے زیادہ دکھ ہے میں نے شرط ہارنے والے دوستوں کو بذریعہ ٹیلیفون اطلاع کر دی ہے کہ وصولی کرنے جلد واپس آ رہا ہوں۔ آپس کی بات کہ شرطوں پر وصولی کی بات صرف لفظی ہے اور محض اپنے تجزیے میں وزن پیدا کرنے کی کوشش۔

ٹیلیوژن پر لندن کے دوستوں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے عبوری وزیراعظم کا الیکشن دیکھا' دوست جو برطانوی شہری ہیں پوچھتے ہیں یہ 45 دن کا عبوری وزیراعظم کیا ہوتا ہے۔ انھیں اس ڈرامے پر ہنسی آرہی تھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ لاٹری کا ٹکٹ تھا جو صرف 45 دن کے لیے Vaild ہے پھر یہ ٹکٹ اصل مالکوں کو واپس کرنا ہو گا۔ پھر ان کا سوال تھا اصل مالک کون ہیں میں نے بتایا کہ اصل مالک شریف برادران ہیں۔ اس 45 دن کی Ride کے بعد ٹکٹ وراثت میں چلا جائے گا۔ لیکن یہ معاملہ بھی Risky ہے۔ مستقل بھی ہو سکتا ہے۔

لندن کے دوستوں نے پوچھا کہ عمران خان کے خلاف نااہلی کے مقدمے کا کیا انجام ہو گا۔ میں نے جواب دیا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے میں نجومی نہیں لیکن جانتا ہوں کہ استغاثہ بے وزن ہے لیکن سابق وزیراعظم کے ماہر مشیروں نے عمران خان کے خلاف نئی ٹیم لا کر فساد کی صورت پیدا کردی ہے۔

دوستوں نے وضاحت چاہی تو میں نے کہا کہ دیکھ لو Character Assasination کی مہم شروع کر دی گئی ہے جو رکے گی نہیں لیکن آخر میں Back Fire کرے گی چند افراد کچھ چینل اور اخبار یقیناً عمران خان کے خلاف اپنی مہم کو عروج تک پہنچانے کی کوشش کریں گے اس کا نقصان دیگر کئی شخصیات کو تو ہو گا لیکن ملک کے ہر بچے بوڑھے اور جوان بشمول خواتین پر نہایت برے اثرات مرتب کرے گا۔ یہ مہم جس کے ذہن نے تخلیق کی اور ترتیب دی ہے اس نے ملک اور اس کے شہریوں پر ظلم کیا ہے کیونکہ بات نکلی ہے تو گند اچھالتی بہت دور تک جائے گی۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والا خود کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔

لندن کے اس بار وزٹ میں سرفہرست دو خواہشات کی تکمیل تھی۔ یہاں کے بازاروں میں پیدل گھومنا اور پلے گراؤنڈ جانا۔ پاکستان میں سڑکیں پل انڈر پاس اور فلائی اوور بنانے والوں نے یہاں فٹ پاتھ ختم کر کے بڑا ظلم کیا ہے کیونکہ لوگ پیدل بھی چلنا چاہتے ہیں اور ہر کوئی موٹر یا بائیک کا مالک نہیں ہے پھرپیدل چلنا اور سیر کرنا ایک صحت مند Activaty ہے لندن کی تمام سڑکوں کے ساتھ پیدل پٹڑی ہے جب کہ کئی جگہ بائیسکل ٹریک بھی ہیں بہت سے لوگ فٹ پاتھوں پر جوگنگ کرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں جب کہ اس خوشحال ملک میں سائیکل سواروں کی بھی کمی نہیں' ان دنوں مجھے مارکیٹ جانا ہو یا مسجد میں سعید سہگل کے اپارٹمنٹ سے نکل کر فٹ پاتھ پر سوار ہو جاتا ہوں' شہر کے مشہور مقامات تک بس یا ٹرین کے ذریعے پہنچ کر پیدل چلتا ہوں اس دوران نہ مجھے کوئی ٹھڈا لگتا ہے نہ کوئی دوسرا راہگیر مجھ سے ٹکراتا ہے نہ کوئی شخص مجھے فٹ پاتھ پر گلے سے بلغم گراتا یا تھوکتا دکھائی پڑتا ہے نہ کوئی مجھ براؤن رنگ کے شخص کو گھورتا گزرتا ہے ہر کوئی تیز رفتاری سے اپنی اپنی منزل کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔

میں نے پورے ایک ہفتے تک فٹ پاتھوں پر پیدل چلنے کی خواہش پوری کر لی ہے لیکن جاری بھی رہے گی' اب مجھے یہاں کھیل کے میدانوں کا رخ کرنا ہے کیونکہ واپسی پر مجھے اپنے ملک کی سرکار کو ان دو کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں