استعماریت اور پاکستان دوسرا حصہ
تمدنی نظام میں بغیر کسی معاشی ومادی مقاصد ومفادات کے کسی سے بات کرنا بھی بدتہذیبی شمار کیا جانے لگا ہے۔
استعماری پیش قدمی: مغرب یعنی یورپ اور امریکا میں مذاہب مکمل طور ریاستی معاملات سے علیحدہ ہیں۔ جو کہ انسانوں کو باہم ایک نکتے پر مرتکز کرنے کی اساسی تعلیمات اور کشش رکھتے ہیں۔ لیکن یورپی نشاۃ ثانیہ میں مرتب کیے گئے مادی نظریات انتشار وتقسیم کے تناور درختوں کے طاقتور بیج فراہم کرنے میں جتے ہیں۔ جس کے عملی مظاہروں میں یہ دیکھا جانا ممکن ہوا ہے کہ مغرب میں جو معاشرتی و تمدنی نظام رائج ہے اس میں مذاہب کو صرف پرائیویسی کی حد تک لوگوں کے ذاتی معاملے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
جب کہ وہاں رائج نظام تمدن میں کسی کی پرائیویسی میں مخل ہونا یاکسی کی پرائیویسی کو افشا کرنا قانونی طور جرم شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے وہاں اپنے لباس یا کسی اور حوالے سے اپنے مذہب کو ظاہر کرنے کی پابندیاں عائد کی جانے لگی ہیں۔ اس تمدنی نظام میں بغیر کسی معاشی ومادی مقاصد ومفادات کے کسی سے بات کرنا بھی بدتہذیبی شمار کیا جانے لگا ہے۔ یعنی وہاں مذاہب سے اس قسم کی بیگانگی اور لاتعلقی کی انتہا نے تہذیبی قدر کی شکل بھی اختیار کرلی ہوئی ہے۔ یعنی مغرب میں انسانوں کو باہم یکجاں کرنے والے لطیف احساس سے محروم کرکے انھیں خاموشی پر مشتمل وحشت ناک انفرادی زندگی کی جانب مکمل طور دھکیلا جاچکا ہے۔
اس لیے وہاں انتظام ریاست کے لیے اپنی رائے، یعنی ووٹ بھی اسی کو دیے جانے کی روایت ہے کہ جو ان کے انفرادی مفادات کی حاصلات کا پروگرام وضع کرتا ہے۔ وہاں استعماری نظام تمدن کے مادی نظریات کا اتنا گہرا اثر ہے کہ زندہ رہنے کے لیے شادی اور اولاد جیسے ناگزیر و دلگداز رشتوں کو بھی مادی مفادات کی نظر چڑھا دیا جانا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔ ہاں البتہ مادی مفاد کی حاصلات کو نظر انداز کرنے والوں کو وہاں مطعون سمجھا جاتا ہے۔ اور اسی نظام تمدن اور انتظام معاشرت کا اطلاق اب مشرق کی جانب موڑا جانے لگا ہے۔ جسے ہم استعماری پیش قدمی کہہ سکتے ہیں اور جسے صرف ظاہر ہونے والے دوررس اور یکساں نتائج کے لحاظ سے جانچا جاسکتا ہے۔
استعمار اور مشرق: مشرق کی اصطلاح میں قدیم تہذیب فراعین مصر سے لے کر ایک طرف قدیم تہذیب چائنا، دوسری طرف قدیم تہذیب فارس تک ہندوستان کو بھی اپنے گھیرے میں لیے تکون خطہ زمین پر واقع ممالک شمار کیے جاتے ہیں۔ جہاں مذاہب اب بھی اپنی اخلاقی قدروں کے دم پر ریاست اور معاشرت پر حاوی ہونے کی حد تک زندہ وتابندہ دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر استعماری مفادات کی تکمیل کی غرض سے یورپی ممالک ہی کی طرح نشاۃ ثانیہ کی تاریخ کو اس خطہ زمین کے ممالک میں دہرایا جانے لگا ہے۔ جس کے عملی اظہار میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ اس تکون خطہ زمین کے مصر اور ہندوستان نے تو بحیثیت ریاست اپنے سیکولر ہونے کا اعلان کیا ہوا ہے، جب کہ دوسری ریاستیں انتظامی طور اپنے قدیم مذاہب سے کسی نہ کسی طرح سے جڑی ہوئی معلوم دکھائی دی جاتی ہیں۔
خواہ ان میں سے بعض ریاستیں فرقہ وارانہ وقبائلی عصبیت کی بنیادوں کی مضبوطی کا بھی سامان فراہم کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ جو کہ اہل نظر کے حضور مذہب اور قومیت کے فلسفے کی انتہائی ناپسندیدہ نشانیوں کے طور شمار کی جاتی رہی ہیں۔ کیونکہ یہ نشانیاں ایک بھیانک خونریز تصادم کو جنم دینے پر مختتم ہوتی آئی ہیں۔ یورپ میں صلیبی یلغار، کیتھولک و پروٹسٹنٹ زورآزمائی، مقامی قومی جنگوں کے تسلسل میں دو عالمگیر خونریز جنگیں اس بات کا کھلا ثبوت ہیں۔ شاید اسی لیے ترقی پسند میڈیا اس تکون حصے کے ممالک میں جاری خونریزی اور تصادم کی بنیادی وجہ مذہب ہی کو بیان کیا جانے لگا ہے لیکن اس صورتحال سے استعماری مفادات کی جو تکمیل جاری ہے اس پر کوئی دعوت فکر نہیں دی جارہی ہے۔
طریقہ واردات: تدریسی اصطلاحوں اور عالمی مارکیٹ حوالوں سے نابلد انسان بھی یہ جانتے ہیں کہ ان ممالک میں جاری خونریز تنازعات میں استعمال ہونے والا اسلحہ استعماری قوتوں کے کارخانوں کا بنا ہوا ہوتا ہے۔ تو پھر کیا شک رہ جاتا ہے کہ ان ممالک میں اختلافی فکر کی ترویج کے ساتھ باہمی ٹکراؤ کا تمام تر ایندھن استعماری قوتوں کا فراہم کردہ ہے۔ اور وہ اس ''ایندھن'' کے بدلے نہ صرف ان ممالک کے مادی وسائل کو اپنے زیر تصرف لیتے آئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے متعارف کردہ انتظام ریاست (خاص طور جمہوریت) کی توسط سے ان کی مذہبی واخلاقی قدروں سمیت تاریخی خصوصیات کو بھی ختم کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اسی طریقہ واردات کے حتمی نتائج میں سے یورپی ممالک کو پہلے سے ہی کمزور و لاغر کیا جاچکا ہے۔
حتمی نتائج: چونکہ استعماری مفادات کی تکمیل یورپی نشاۃ ثانیہ میں مرتب مادی نظریات کے عین مطابق تمدنی نظام کے اطلاق میں پوشیدہ ہے۔ چونکہ ان نظریات کے عملی و کلی اطلاق کی تمام تر ذمے داریاں ان نظریات کی بہترین عملی صورت لینے والے عالمی اداروں اور امریکا بہادر پر عائد ہوتی ہیں، اس لیے مشرقی ممالک کے متعلق ان کے تمام تر فیصلے اور اقدامات بھی استعماریت کے حق میں ہوتے رہے ہیں، جن کی تفصیل اہل فکر حضرات جانتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس تکون حصے کے ممالک مزید عرصہ تک باہم دست وگریبان رہنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ معروضی حالات میں شاید اس تکون حصے کے ممالک کی باہمی مقامی اختلافی جنگیں بھی یورپی تاریخ کی طرح بہت بڑی یعنی تیسری عالمی جنگ کے اسباب پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ یا پھر ان جنگوں کے حتمی نتائج کے طور پر عام فہم انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ ان ممالک پر طاری جنگی حالات بالآخر ان کی آنے والی نسلوں کو یورپی نظام تمدن اپنانے میں ہی اپنی بقا کا سبق پڑھانے پر مختتم ہوں گے۔ دونوں صورتوں میں استعماریت ہی کو استحکام میسر ہونے کے امکانات رد نہیں کیے جاسکتے ہیں۔