کون ہے کس کا وفادار
جو ریاست سے زیادہ افراد کا وفادار ہو اسے عوامی عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہیں۔
بدعنوان عناصرسے وفاداریاں نبھانانہ صرف معاشرے سے غداری ہے بلکہ یہ ان کے جرائم میں معاونت کے مترادف ہے۔ کوئی اسکینڈل سامنے آنے پر ہم یہی تماشا دیکھتے ہیں۔ گرد اڑانے کا سلسلہ جاری ہے اور ہٹ دھرمی بھی۔ نواز شریف ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں فرماتے ہیں ''مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کن بنیادوں پر مجھے برطرف کیا گیا لیکن میں مطمئن ہوں کہ مجھے کرپشن کے الزامات پر نااہل نہیں کیا گیا۔'' ان کی، اور گلا پھاڑ کر نعرے بازی کرنے والے ان کے حامیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ قصووار ثابت ہونے کے بعد نااہلی ہوئی۔
قانون کا مقصد معاشرے کو انصاف کی فراہمی ہے اور یہی ذمے داری لیڈروں پر بھی عاید ہوتی ہے۔ ایک انصاف پسند سماج ہی اجتماعی بہبود کے لیے پُر اعتماد انداز میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ سیکولرازم کے مباحث سے قطع نظر اسلام میں انصاف کی فراہمی ہی محض قانون کا مقصود نہیں بلکہ اس کی ایک اخلاقی جہت بھی ہے۔ وہی رہنما سماج کو درست سمت دے سکتے ہیں جو محض تکنیکی اعتبار سے قانون کی پابندی کرنے کے بجائے اسے اپنی اخلاقی ذمے داری تسلیم کرتے ہوں۔ اخلاق اور قانون کی عملداری تصور توحید کے تقاضے ہیں۔ یہ تصور کسی فرد کی زندگی کے عملی، نظریاتی اور روحانی پہلوؤں کو یکجان کرتا ہے۔ اس فکر و عمل کی وحدت کے اس اصول کی خلاف ورزی یا نفی کرنے والا ''اسلامی جمہوری'' ملک میں حکمرانی کا استحقاق نہیں رکھتا۔
شریف خاندان کے خلاف عدالتی کارروائی انصاف کا تقاضا ہے۔ جے آئی ٹی کی ساٹھ روزہ تحقیقات میں جو کچھ سامنے آ چکا، کیا اس کے بعد بھی اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز بنتا ہے۔
قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر اخلاق کی دھجیاں بکھیرنے کے راستے مغربی سیکولر سوسائٹی کی دریافت ہے، جہاں اخلاق کو قانون سے جدا کر دیا گیا۔ اسلام میں قانونی اور اخلاقی پابندیوں میں ایسی تفریق روا نہیں۔ اخلاق ہی قانون ہے اور عوامی عہدے پر فائز، منتخب ہونے والوں کی بنیادی اہلیت اسی اصول پر کاربند ہونے سے مشروط ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 میں قانون اور اخلاقیات کے مابین توحید کے اصولوں کے مطابق وحدت پیدا کی گئی۔ ان آئینی دفعات کی ترمیم یا تنسیخ کی کوشش کرنے والے دراصل اسلامی سماج کی اس بنیادی وحدت کو توڑنے کے لیے سرگرداں ہیں۔
بے قاعدگیوں کے بارے میں کئی واضح اشارے تو مل چکے تھے لیکن یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ تھا کہ قانون کے اطلاق کے لیے مزید ٹھوس شواہد جمع کرنے کی ضرورت تھی اور کئی شواہد جمع کر لیے گئے۔ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے کر اخلاقی تقاضے بھی پورے کر دیے اور قانون کو اس کی اصل روح کے مطابق لاگو کیا۔
قانون و اخلاق کی وحدت کے اسلامی تصور سے معزز جج صاحبان آگاہ ہیں اسی لیے ان کے سامنے نوازشریف کو نااہل قرار دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ خدا پر ایمان کے بعد اپنے منصبی تقاضوں کی بجاآوری اور اپنے ادارے سے وفاداری سب سے اہم ہے۔ چاہے سیاسی میدان ہو، عدالت، فوج یا سرکاری محکمے ہوں، میڈیا، کارپوریشنز اور مالیاتی ادارے ہوں۔
جے پی مورگن کے چیئرمین اور سی ای او جیمی ڈیمن نے کہا تھا ''وفاداری ان اصولوں کے ساتھ نبھائی جاتی ہے جن کی بنا پر کوئی اداروں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ کسی فرد سے وفاداری دوست پروری ہی کی ایک قسم ہے۔ لیڈر اپنے پیچھے چلنے والوں سے وفاداری کے خواہاں رہتے ہیں لیکن وفا شعاری اور باہمی احترام کا معاملہ دوطرفہ ہے۔ ٹیم ورک کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ساتھ چلنے کے لیے وضع کیے گئے ضابطوں میں اس کی اہمیت بھی مساوی ہے کہ کوئی فرد اہلیت کے ساتھ ساتھ حق کو حق کہنے اور اس کے لیے واضح موقف پر قائم رہنے کی جرات بھی رکھتا ہو۔'' اخلاقی اصولوں پر پختہ یقین کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے؟
کسی کی بددیانتیوں کا دفاع محض اس لیے کرنا کہ اس کے ماتحت کام کر چکے ہوں، اسے خالص اقربا پروری کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے لیکن ایسے کسی بدعنوان کی مدح سرائی مجرمانہ رویہ ہے۔ یہ ایسے لوگوں کے کرتوت ہیں جن کی حیثیت کارندوں سے زیادہ نہیں ہوتی اور اکثر جن کے دفاع کے لیے وہ سینہ سپر ہوتے ہیں، ان کے جرائم میں یہ معاون رہے ہوتے ہیں۔ سابق دور کے بدعنوان افراد کئی اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر اور آج نہ صرف اپنے سابق آقا کا دفاع کرتے ہیں بلکہ ان کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ ان کے معلوم ''اثاثے'' ملازمت سے ہونے والی آمدنی کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ایسے لوگوں کا قطعاً کوئی لحاظ نہیں ہونا چاہیے۔
ڈونا ولسن نے 2004ء میں "Misplaced Loyalties: The Role of Military Culture in the Breakdown of Discipline" کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھا تھا ''سماجی میل جول کو مربوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے لیکن یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ذاتی وفاداریوں کے سبب جرائم کی تحقیق میں کن رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ جتھا بندی کسی فرد کو نامناسب رویوں پر بھی خاموشی اختیار کیے رکھنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے۔ اس لیے اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ان مؤثر باہمی روابط کی وجہ سے، جن کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے، ''چین آف کمانڈ'' کی کڑیاں بکھرنے لگتی ہیں۔ محاذ جنگ کی روایت کے مطابق مؤثر تعلقات ترتیب پاتے ہیں جن کے نتیجے میں کسی یونٹ کی ہم آہنگی عروج پر پہنچ جاتی ہے لیکن درحقیقت اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر ادارے کی مؤثر فعالیت متاثر بھی ہوتی ہے۔''
جو ریاست سے زیادہ افراد کا وفادار ہو اسے عوامی عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ''کامریڈ شپ'' سے پیدا ہونے والی فالٹ لائنز اسی طرح واضح ہوتی ہیں، جب وفاداریوں کا قبلہ ملک کے بجائے افراد ہو جائیں اور منتخب نمایندے ریاست کی جانب سے عاید ہونے والی حدود و قوانین اور فرائض سے بے نیاز ہو جائیں۔ عسکری قیادت تو ان مسائل سے آگاہ ہو گی ہی؟ اپنے اپنے آقاؤں کے وفاداروں کو کس اخلاقی اصول کی بنیاد پر اختیارات اور قومی سلامتی جیسے حساس امور کی ذمے داریاں سونپی جا سکتی ہیں؟
چیئرمین سینیٹ رضا ربّانی کے خیالات بھی ملاحظہ ہوں وہ فرماتے ہیں کہ اراکین پارلیمان کو ''حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ'' نہیں چاہیے۔ بوسویل نے سیموئیل جانسن کا قول نقل کیا تھا کہ حب الوطنی بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔ جمہوریت کی جس جاگیردارانہ اور مسخ صورت کی نمایندگی ہمارے پارلیمنٹیرین کرتے ہیں، پاکستان پر سیموئیل کا قول صادق آتا ہے۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)