حمایت علی شاعر حصہ اوّل
جمہوریت کے نام پر حکمراں اقتدار حاصل کرکے آمریت کو فروغ دیتے تھے۔
گزشتہ ماہ 14 جولائی کو نامور شاعر، نغمہ نگار اور براڈ کاسٹر حمایت علی شاعر خیر سے بانوے برس کے ہوگئے۔ حمایت علی شاعر اردو ادب کا ایک گراں قدر سرمایہ ہیں۔ فیض احمد فیض، احمد فراز، قتیل شفائی کے ہم عصر رہے ہیں، مجھے ایک یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ میں طالب علمی کے زمانے میں حمایت علی شاعر کا ایک پرستار تھا، پھر فلمی دنیا میں بحیثیت جونیئر نغمہ نگار ان کا ہم عصر بھی رہا ہوں۔ جب میں کراچی یونیورسٹی سے فارغ ہوکر صحافت کے میدان میں آیا اور پھر جب ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیا تو حمایت علی شاعر کی مجھے رہنمائی بھی حاصل رہی، جب میرا پہلا شعری مجموعہ ''کسک'' کے نام سے منظر عام پر آیا تو میری کتاب کے لیے جن معروف ادبی شخصیات نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا ان میں حمایت علی شاعر کی رائے نے بھی میری بڑی حوصلہ افزائی کی تھی۔
میری پہلی ملاقات حمایت علی شاعر سے حیدرآباد کے سلطان ہوٹل میں ہوئی تھی، جہاں میں پہلی بار کراچی سے اپنے حیدرآباد کے ادیب و شاعر دوستوں سے ملنے گیا تھا۔ سلطان ہوٹل حیدرآباد میں ادیبوں اور شاعروں کی ایک بیٹھک کا درجہ رکھتا تھا، جس طرح لاہور میں پاک ٹی ہاؤس شاعروں اور ادیبوں کا مسکن تھا، اسی ہوٹل کے کسی کونے میں حیدرآباد کے مشہور شاعر قابل اجمیری، اختر انصاری اکبر آبادی اور حمایت علی ادبی گفتگو کیا کرتے تھے۔
میری ایک یادگار ملاقات نگار ویکلی کراچی کے نمایندے کی حیثیت سے کراچی کے ایک مقامی ہوٹل جبیس میں ہوئی تھی، جہاں ڈھاکا سے نامور شاعر اور نغمہ نگار سرور بارہ بنکوی نگار فلم ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کی غرض سے کراچی آئے تھے، فلم ''کاجل'' میں ان کے لکھے ہوئے گیت، جسے فردوسی بیگم نے گایا تھا اور جس کی موسیقی سجل داس نے دی تھی، اس گیت کو سال کے بہترین گیت کا نگار ایوارڈ دیا گیا تھا اور میں نگار ویکلی کی طرف سے سرور بارہ بنکوی کا انٹرویو کرنے ان سے مقامی ہوٹل میں ملنے گیا تھا اور وہیں حمایت علی شاعر سے بھی ایک خوبصورت ملاقات ہوئی تھی، جہاں شعر و شاعری کا ماحول بھی بن گیا تھا۔ حمایت علی شاعر اور سرور بارہ بنکوی نے بھی اپنے چند تازہ اشعار سے نوازا تھا۔ اس ملاقات میں سرور صاحب نے اپنی ایک غزل سنائی تھی، جس کا مطلع تھا:
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے، جب ہم نہیں ہوں گے
بھری دنیا میں تنہا پاؤ گے، جب ہم نہیں ہوں گے
پھر یہی غزل کراچی میں جب وہ آخری بار آئے تو نگار ویکلی کے ایڈیٹر فلمساز الیاس رشیدی کی فلم ''احساس'' کے لیے دی تھی اور جسے لاہور میں رونا لیلیٰ کی آواز میں موسیقار روبن گھوش نے ریکارڈ کیا تھا۔ اسی ملاقات میں حمایت علی شاعر نے میرے اصرار پر اپنی مشہور نظم ''ان کہی'' بھی سنائی تھی۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ جو نظم میں مشاعرے میں سنتا تھا وہ نظم پھر میں نے سرور بارہ بنکوی کی موجودگی میں حمایت علی شاعر سے روبرو سنی تھی۔ میں نے حمایت علی شاعر کو اپنے کالج کے زمانے میں سنا بھی تھا اور پڑھا بھی تھا اور ان کی ادبی شخصیت سے واقفیت بھی حاصل کی تھی، پھر لاہور کی فلمی دنیا میں بھی میری ان سے ملاقاتیں رہی تھیں۔ یہ کس طرح ادب کی دنیا سے فلمی دنیا میں آئے، اس کا تذکرہ تو میں آگے چل کر کروں گا، پہلے میں ان کی ابتدائی زندگی اور ان کی ادبی جدوجہد کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔
حمایت علی شاعر نے 14 جولائی 1926 میں ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ یہ اورنگ آباد (حیدرآباد دکن) میں پیدا ہوئے اور میٹرک تک کی تعلیم وہیں حاصل کی۔ ان کا گھریلو نام میر حمایت علی تھا۔ یہ طالب علمی ہی کے زمانے سے دکن ریڈیو اورنگ آباد سے وابستہ ہوگئے تھے۔ یہ ادب کی دنیا میں بحیثیت افسانہ نگار منظر عام پر آئے، اسی دوران انھوں نے ماہنامہ ''ساز نو'' کا ایک خاص نمبر بھی نکالا، یہ ایک اور ماہانہ ادبی رسالے ''آدمیت'' سے بھی وابستہ رہے۔ کچھ عرصہ حیدرآباد دکن ہی کے اخبار ''جناح'' میں بھی کام کیا تھا۔ اس زمانے میں بہت سے ادیب فرضی ناموں سے بھی لکھتے تھے۔
حمایت علی نے ابتدا میں مختلف اخبارات میں حمایت تراب، نردوش کے نام سے بھی لکھا اور کافی عرصہ ابلیس فردوسی کے نام سے طنزیہ کالم بھی لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں یہ افسانے اور کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ حیدرآباد دکن چونکہ شعر و ادب کا گہوارا تھا، پھر حمایت علی بھلا شعر و سخن سے کس طرح دور رہ سکتے تھے۔ جب انھوں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا تو پھر یہ شعری محفلوں میں حمایت علی شاعر کے نام سے منظر عام پر آئے، جب انھیں شہرت نہیں ملی تھی تو ایک وقت ان پر وہ بھی آیا تھا جب انھوں نے اپنی گزر اوقات کے لیے اخبار بھی زمین پر رکھ بیچے تھے اور یہ بڑے کٹھن مراحل سے گزرے تھے۔ اسی دور کی ان کی شاعری میں بڑی تلخ نوائی بھی تھی۔ اس زمانے میں ان کی ایک غزل بڑی مشہور ہوئی تھی جس کا ایک شعر جو ان کے حالات کا غماز تھا قارئین کی نذر ہے:
فکر معاش کھا گئی دل کی ہر اک امنگ کو
جائیں تو لے کے جائیں کیا حسن کی بارگاہ میں
اسی دور میں ہندوستان کا بٹوارا ہوگیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کے قیام کی صورت میں ایک بڑی قیمت ادا کرنی پڑی تھی، جہاں ہزاروں گھر برباد ہوئے، ہزاروں جانیں تلف ہوئیں، وہاں ہندوستان کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات بھی تنگ کردیا گیا تھا اور مسلمان بڑے پیمانے پر ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آرہے تھے۔ بے شمار ذہین افراد روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے، زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کو بڑی بیدردی کے ساتھ پیچھے دھکیلا جا رہا تھا۔ اسی کشمکش سے دوچار حمایت علی شاعر بھی ہندوستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور 1951 میں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آگئے۔ حیدرآباد سندھ میں سکونت اختیار کی اور ریڈیو کی سابقہ ملازمت کے تجربے کی وجہ سے یہ حیدرآباد ریڈیو سے منسلک ہوگئے۔
انھوں نے پھر سے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا، سندھ یونیورسٹی میں اردو ادب میں ایم اے کیا، پھر بطور لیکچرار سچل سرمست کالج حیدرآباد میں ملازمت بھی کی اور ساتھ ہی ساتھ ادبی سرگرمیوں کا بھی آغاز کیا۔ حیدرآباد دکن میں یہ جب تھے تو ادب کی ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے اور اس تحریک کے روح رواں مخدوم محی الدین تھے۔ حیدرآباد میں بھی ترقی پسندی کی طرف ہی مائل رہے۔ ارژنگ کے نام سے ایک ثقافتی ادارہ بھی قائم کیا۔ ریڈیو میں بطور براڈ کاسٹر بھی رہے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی لکھے اور خود بھی ڈراموں میں کام کیا۔
ریڈیو کے صداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی ان کے ادارے سے وابستہ ہوکر ان کے ساتھ اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیا کرتے تھے اور مشاعروں میں حصہ لینے کے لیے حیدرآباد سے کراچی بھی آیا کرتے تھے اور اپنے خوبصورت ترنم کی وجہ سے کراچی کے مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے دور میں بھی آج ہی کے دور کی طرح غربت اور افلاس کا دور دورہ تھا۔ جمہوریت کے نام پر حکمراں اقتدار حاصل کرکے آمریت کو فروغ دیتے تھے۔ اور جس طرح آج جمہوریت سیاستدانوں کی لونڈی ہے اسی طرح کل بھی جمہوریت سیاستدانوں اور حکمرانوں کی کنیز تھی۔ حمایت علی شاعر ایک بے باک شاعر شروع ہی سے رہے ہیں، اس دور میں بھی حمایت علی شاعر نے اپنے اردگرد کے حالات اور ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا:
کتنے نادان ہیں مرے جمہور
زہر کو انگبیں سمجھتے ہیں
جانتے بوجھتے رموزِ حیات
اپنی سرکار سے الجھتے ہیں
٭٭٭
وہ آدمی ہے تو کیوں مجھ سے دور اتنا ہے
وہ خاک ہے تو اسے کیوں غرور اتنا ہے
نظر میں کوئی بھی جچتا نہیں ہے اپنے سوا
کہ آگہی کے نشے میں سرور اتنا ہے
حمایت علی شاعر کی شہرت کا سفر اب اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ حیدرآباد سے زیادہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی ادبی محفلیں ان کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھا رہی تھیں۔ پاکستان کے ہر شہر کے مشاعروں میں ان کی شاعری اور ان کے ترنم کے چرچے تھے اور ان مشاعروں کی محفلوں میں ان کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا۔
(جاری ہے)