احسن اقبال نئے وزیر داخلہ کو درپیش نئے چیلنج
جناب احسن اقبال کو اب اِن اقدامات سے آگے بڑھ کر بہتر اور موئثر قدم اٹھانا ہوگا تاکہ اُن کا انفرادی نقش قائم ہو سکے
نئے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے اپنے رہبر اور قائد، جناب نواز شریف، کے حکم اور مشورے سے جن پرانے وزیروں کو نئے محکمے سونپے ہیں، احسن اقبال صاحب اُن میں سے ایک ہیں۔ کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے جناب احسن اقبال مسلم لیگ نون کی معروف شخصیت بھی ہیں اور نواز شریف کے غیر متزلزل وفادار بھی۔سابق وزیر اعظم کی کابینہ میں منصوبہ بندی ایسی اہم وزارت کا قلمدان اُن کے سپرد کیا گیا تھا۔ چار سال اُنہوں نے، اپنے قائد کی ہدایات اور وضع کردہ پالیسیوں کی روشنی میں، منصوبہ بندی کی وزارت کو خوش اسلوبی اور کامیابی سے چلایا۔
پاک چین اقتصادی راہداری المعروف''سی پیک'' کے اصل آرکیٹیکٹ تو نواز شریف اور شہباز شریف ہی ہیں لیکن چھپن ارب ڈالر کی اس بے مثل چینی سرمایہ کاری کو اپنی منزل کی جانب گامزن کرنے میں پروفیسر احسن اقبال صاحب کی شب و روز کی محنتوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بجا کہا جانے لگا تھا کہ جہاں سی پیک، وہاں احسن اقبال۔ اتنی بے پناہ قومی اور عالمی مصروفیات کے باوجود وہ اپنے حلقہ انتخاب (این اے 117) کو وقت دینا نہ بھولے۔ اپنے ووٹروں اور سپورٹروں سے مسلسل رابطے میں رہے۔
ایک سمجھدار سیاستدان کی طرح بخوبی جانتے تھے کہ حکومت کے خاتمے کے بعد لَوٹنا تو اِنہی ووٹروں کی جانب ہے کہ وہی تو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ بطورِ وزیرِ منصوبہ بندی اُنہوں نے اپنے مذکورحلقے میں خاص طور پر تعلیم، صحت اور اسپورٹس ایسے شعبوں میں یادگار منصوبوں کو پروان چڑھایا ہے۔ اب وزیر داخلہ بن کر کئی نئے چیلنج اُن کے سامنے آ کھڑے ہُوئے ہیں۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ابھی ادھورا پڑا ہے۔وزارت ِداخلہ کا چارج سنبھالتے ہی احسن اقبال نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو فون کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔
امید کی جا سکتی ہے کہ یہ فون کال نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔نئے وزیرِ داخلہ نے کل ہی اسلام آباد میں بینظیر ائر پورٹ کا جو اچانک دَورہ کیاہے، اِس کا پیغام بھی دوسرے پاکستانی ائر پورٹس تک پہنچ گیا ہوگا۔ امید ہے کہ اَب ہوائی اڈوں پر ہوائی مسافروں کی درگت بنانے کے بجائے،اُن کی عزت افزائی میں اضافہ ہوگا۔
افغانستان اور بھارت متحد ہو کر کر پاکستان کے خلاف جو سازشیں کر رہے ہیں، یہ بھی جناب احسن اقبال کے علم میں یقینا ہوں گی۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں جَلی اور خفی طور پاکستان میں جن جن شکلوں میں مداخلتیں اور شرارتیں کر رہی ہیں، ان سے فوری طور پر نمٹنا اور ان کا سدِ باب کرنا ہمارے نئے وزیرِ داخلہ کے لیے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ امید یہی کی جانی چاہیے کہ چوہدری احسن اقبال جس طرح ''سی پیک'' کے منصوبوں میں کامیابیاں حاصل کرنے میں اپنے قائد، جناب نواز شریف،کی توقعات پر پورے اُترے، اِسی اسلوب میں اب وہ وزارتِ داخلہ میں بھی کامیابیوں کے نئے جھنڈے گاڑیں گے۔
لاریب اُنہوں نے ''سی پیک'' کی منصوبہ بندیوں میں جو نقوش ثبت کیے ہیں، وہ نقش بر آب نہیں بلکہ نقش بر حجر ثابت ہُوئے ہیں۔ چین کی اعلیٰ ترین قیادت نے بھی اُن کی صلاحیتوں اور پاکستان کے لیے اُن کی کمٹمنٹ کو تسلیم کیا ہے اور ان کی تحسین بھی کی ہے۔ شخصی سطح پر بھارتی وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ، اور جناب احسن اقبال مقابل کھڑے ہیں۔ دونوں میں چند'' چیزیں'' مشترک بھی ہیں۔ مثال کے طور پر: راجناتھ سنگھ سابقہ بھارتی حکومتوں میں دوتین بار وزیر رہے ہیں اور احسن اقبال بھی سابقہ ادوار میں جناب نواز شریف کی حکومتوں میں دوتین بار مرکزی وزیر بنے۔
دونوں کی عمریں بھی قریب قریب برابر ہی ہیں۔ دونوں ماضی قریب میں پروفیسر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جناب احسن اقبال معاشیات اور اقتصادیات سے متعلقہ مضامین پڑھاتے رہے ہیں جب کہ راجناتھ سنگھ طبیعات کے استاد تھے۔ راجناتھ سنگھ کے ساتھ ہمارے سابق وزیر داخلہ، چوہدری نثار علی خان، کی(اسلام آباد میں) مڈبھیڑ ہُوئی تو چکری کے چوہدری نے اپنی جرأت سے بھارتی ہندو وزیر داخلہ کو چکر میں ڈال کر اس کا سر چکرا کر رکھ دیا تھا۔ واپس بھارت جا کربھی وہ چوہدری صاحب سے گلے شکوے کرتا رہا۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ''سارک'' یا کسی دوسرے عالمی پلیٹ فارم پر جب بھی اور جہاں کہیں احسن اقبال صاحب کا ٹاکرا بھارتی راجناتھ سنگھ سے ہُوا، وہ پاکستانی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ اِنہی خطوط پر اُنہیں افغان وزیرِ داخلہ، تاج محمد جاہد، کے مقابل آنا پڑے گا۔ یہ جاہد ''صاحب'' افغان فوج کے سابق جنرل ہیں، اس لیے پاکستان کے خلاف زیادہ شاطر اور چالاک بننے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ہر بار ناکامی مگر اُن کا مقدر بنتی ہے۔ انھی کی سرپرستی میں افغان خفیہ ادارہ(این ڈی ایس) پاکستان میں خون کی ہولیاں کھیلنے کی مذموم جسارتیں کرتا ہے۔
جناب احسن اقبال کو احسن انداز میں ان چیلنجوں سے فوری نمٹنا ہے کہ داخلہ امور میں پاکستان کو افغانستان سے لاتعداد شکایات ہیں اور یہ شکائتیں قطعی بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔مثال کے طور پر پاک افغان سرحد پر پاکستان کی طرف سے باڑھ لگانے کے اقدامات کے خلاف افغان سرحدی فوجیوں کی فائرنگ۔ پاکستان میں تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پر کڑی نظر رکھنا بھی احسن اقبال کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک بڑا چیلنج ہے کہ اب یہ افغان مہاجرین پاکستان کی سلامتی اور سیکیورٹی کو چیلنج کرنے لگے ہیں۔
احسن اقبال صاحب کو ''داعش'' کے نئے عفریت سے بھی نمٹنا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بھارتی اور افغان داعشی عناصر، افغانستان کے راستے، پاکستان کے سرحدی (فاٹا) علاقوں میں اپنا اثر ونفوذ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ٹی ٹی پی کے بعد اب ان عناصر کو بھی بھارتی اور افغان سرپرستی میں پاکستان کے خلاف ششکارنے کی کوششیں بروئے کار ہیں۔ نئے وزیر داخلہ کو ان سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
''نادرا'' بھی چونکہ احسن اقبال صاحب کی زیرِ نگرانی آچکا ہے، اس لیے اِسے بھی نگاہ میں رکھنا ہوگا۔ چوہدری نثار نے بڑی ہوشیاری اور تندہی سے اس محکمے کی کئی کالی بھیڑوں پر مضبوط ہاتھ ڈال کر اُنہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا تھا۔ یہ کالی بھیڑیں جعلی دستاویزات(از قسم پاسپورٹ اور شناختی کارڈ) بنانے کے سیاہ مگر''نقد آور'' دھندے میں ملوث تھیں۔ٹھوس شواہد کی بنیاد پر انھیں ملازمتوں سے فارغ اور حوالہ زنداں بھی کیا گیا کہ کئی جعلی شناختی کارڈز پاکستان کے دشمنوں کو بھی بنا دینے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ نئے وزیر داخلہ، احسن اقبال، کے آنے سے پابندِ سلاسل کی گئی بد روحیں کہیں پھر سے آزاد ہو کر کالے دھندے کی آندھی نہ چلا دیں۔پاکستان بھر کے ائر پورٹوں پر اور امیگریشن کے میدان میں چوہدری نثار صاحب نے جو مستحسن اقدامات کیے تھے، لاریب اِن سے دنیا بھر میں پاکستان کی توقیر اور احترام میں اضافہ ہُوا۔ بغیر ویزہ آنے والے بہت سے مغربی ممالک کے لوگوں کو پاکستان پہنچتے ہی ڈی پورٹ کر کے سخت اور مستحکم پیغام دیا گیا۔
پاکستان کے جعلی پاسپورٹ اور جعلی شناختی کارڈ رکھنے والے وہ غیر ملکی جنہیں پاکستانی قرار دے کر غیر ممالک سے پاکستان بھجوا کر سازشیں کرنے کا سلسلہ بڑے عرصے سے جاری تھا، چوہدری نثار نے سختی اور جرأت سے یہ چور راستے بند کر دیے۔ایف آئی اے کی بھی تطہیر کی گئی تھی کہ کئی عناصر مبینہ طور پر لوگوں کو جعلی دستاویزات پر بیرونی ممالک بھجوانے کے دھندے میں ملوث تھے۔ پاکستان کی آئے روز بدنامی ہو رہی تھی۔ یہ راستہ بھی تقریبا ً بند کر دیا گیا۔
جناب احسن اقبال کو اب اِن اقدامات سے آگے بڑھ کر بہتر اور موئثر قدم اٹھانا ہوگا تاکہ اُن کا انفرادی نقش قائم ہو سکے کہ اب ایف آئی اے کا طاقتور ادارہ بھی اُنہی کے ماتحت ہے۔ احسن اقبال صاحب اگر''نیکٹا'' کے حوالے سے موجود جائز شکائتوں کا ازالہ کر سکیں تو یہ بڑی کامیابی قرار دی جائے گی کہ ''نیکٹا'' میں مطلوبہ بہتری (از قسم فنڈز اور افرادی قوت کی فراہمی) کا مطلب براہ راست یہ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی اور سلامتی میں بہتری۔ کراچی میں رینجرز کی موجودگی اور ان کے قیام میں اضافہ بھی پچھلے چار برسوں کے دوران بار بار سندھ اورمرکزی حکومت کے درمیان تنازع اور کشیدگی کا باعث بنتا رہا ہے۔
ہم سب کو یہ بھی امید رکھنی چاہیے کہ نئے وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کی آمد سے اب یہ کشیدگی پیدا نہیں ہوگی۔ 9اگست2017ء کو سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف لاہور پہنچ رہے ہیں۔ اُنہیں بحفاظت اورتوقعات کے مطابق بڑے جلوس کے ساتھ کامیابی سے لاہور پہنچانا بھی تو جناب احسن اقبال کے لیے پہلا بڑا چیلنج ہے!!