منشور صرف حقوق کا ہوتا ہے

اگر ہم حقوق کے ساتھ فرائض کی بھی بات کریں تو اس میں ہماری ہی آسانی ہوتی ہے


Dr Naveed Iqbal Ansari August 08, 2017
[email protected]

انتخابات خواہ ملکی ہوں یا کسی ادارے کے ہوں، ان میں حصہ لینے والی جماعتوں کے منشور میں عوام کو حقوق دلانے کے لیے بہت اچھے اچھے مطالبات ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر این جی اوز کے نعرے اور مطالبات دیکھے جائیں تو وہ بھی نہایت اچھے مطالبات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان سب میں ایک مشترکہ بات یہ ہوتی ہے کہ ان تمام میں فرائض کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، بس حقوق کی ڈیمانڈ ہوتی ہے، حالانکہ اگر فرائض کی بھی بات ہو تو بہت سے مسائل خود حل ہوجائیں کہ اپنا فرض نبھانا در اصل کسی دوسرے کا حق ادا کرنا ہوتا ہے۔

یہ بڑی اہم بات ہے جو ہم مسلسل نظر انداز کرتے ہیں، اگر ہم حقوق کے ساتھ فرائض کی بھی بات کریں تو اس میں ہماری ہی آسانی ہوتی ہے، مثلاً کسی بھی سرکاری ادارے میں انتخابات کے موقع پر مختلف جماعتوں کے منشور دیکھ لیں، ہر کوئی ملازمین کے حق کے لیے اس طرح کی بات کرتا نظر آتا ہے کہ ہمیں فلاں سہولت دو، فلاں چیز ہمارا حق ہے، ہمیں ہمارا حق دو، وغیرہ وغیرہ، جب کہ دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں گنتی کے ملازمین صبح وقت پر آتے ہیں اور پورا پورا وقت اپنے ادارے کو دیتے ہیں اور کام بھی ایمانداری سے کرتے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد سرکاری اداروں میں نہ وقت پر آتی ہے، نہ اپنی سیٹ پر ملتی ہے اور نہ ہی ایمانداری سے کام کرتی ہے، جس کے باعث جو لوگ ان اداروں میں اپنے مسائل کے حل یا کام کے لیے آتے ہیں وہ پریشان رہتے ہیں، نہ ان کو کوئی معلومات دینے، جواب دینے والا ملتا ہے، نہ ہی جس ملازم سے کام ہوتا ہے وہ ہی سیٹ پر ملتا ہے، ہاں ملتے ہیں تو صرف ایجنٹ جو رشوت کے عوض کام کرانے کے لیے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔

کیا یہ عوام کا حق نہیں ہے کہ انھیں سرکاری ملازم اپنے ڈیوٹی کے اوقات میں اپنی سیٹ پر ملیں؟ اور ان کا کام میرٹ پر کریں؟ اگر یہ ملازمین اپنے فرائض تندہی سے پورے کریں تو عوام کو اپنے کام کرانے سے متعلق یہ حقوق مل جائیں، مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ سرکاری اداروں میں موجود یونینز اپنے منشور میں حقوق کے ساتھ فرائض کی بھی بات کریں؟ رشوت کانظام ختم کرنے کا نعرہ بلند کریں کہ اس عمل سے ایک جانب ادارہ ترقی کرے گا تو دوسری جانب خود عوام کو سہولیات باآسانی دستیاب ہوں گی۔ ایک سرکاری ادارے کا ملازم جب دوسرے ادارے میں کام سے جائے گا تو اس کا کام بغیر رشوت کے باآسانی ہوجائے گا اور جب دوسرے ادارے کا ملازم کسی اور ادارے میں جائے گا تو اس کا کام بھی بغیر رشوت باآسانی ہوجائے گا۔

اس طرح جب تمام اداروں کے ملازمیں ایمانداری سے کام کریں گے تو کم از کم اداروں کی حد تک کسی کو حقوق کا نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اسی بات یا عمل کو اگر ہم بڑی جماعتوں تک وسیع کرلیں تو صورتحال اور بہتر ہوسکتی ہے۔ ہماری ملکی سطح کی سیاسی جماعتیں بھی اس طرف توجہ نہیں دیتیں، بلکہ عوام کے حقوق کے لیے وہ وہ نعرے اور مطالبات کرتی ہیں کہ جو حقیقت میں بھی ممکن نہیں، لیکن یہ عمل صرف عوام کی توجہ حاصل کر نے اور عوام کو یہ باور کرانے کے لیے ہوتا ہے کہ ہماری جماعت ہی اصل میں عوام کی سچی ہمدرد ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ مثلاً بجلی کی لوڈشیڈنگ کا چند روز میں خاتمہ، مزدور کی کم سے کم تنخواہ کا معیار یا پھر تعلیمی بجٹ میں یک دم کئی سو گنا اضافے کی ڈیمانڈ۔ عملاً ایسا ممکن نہیں ہوتا، مگر یہ مطالبات اور دعوے جماعتوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔

ان غیر حقیقی مطالبات کے بجائے عوام کی حقیقی صورتحال سے آگاہی دی جائے اور عوام کو ان کے فرائض بھی یاد دلائے جائیں تو حالات میں بہتری ممکن ہے۔ مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہماری جماعتیں خواہ وہ ملکی سطح کی ہوں یا کسی چھوٹے سے ادارے کی، سب کی سب عوام کو سبز باغ دکھاکر انھیں اپنا ہمنوا بنانا چاہتی ہیں اور عوام کو ان کے فرائض یاد دلانے کا رسک نہیں لیتیں کہ کہیں ان کے ووٹرز کی تعداد کم نہ ہوجائے۔

کراچی شہر کی ایک بڑی جامعہ میں اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کی ایسوسی ایشن کے انتخابات کے موقع پر راقم کو ان کے منشور دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہاںبھی کچھ یہی صورتحال تھی، صرف حقوق اور حقوق کی بات کی گئی تھی حالانکہ اس ادارے میں بھی یہ شکایات عام تھی کہ ملازمین وقت پر دفتر نہیں آتے، اساتذہ وقت پر کلاسیں نہیں لیتے۔ یوں ان کے فرائض سے غفلت برتنے پر طلبا کے حقوق بھی متاثر ہو رہے تھے۔

بات یہ ہے کہ حقوق و فرائض لازم و ملزوم ہیں، فرائض ادا کیے بغیر حقوق نہیں مل سکتے۔ یہ احساس ہماری جماعتوں کو ہونا چاہیے اور انھیں عوام کو بھی یہ بات سمجھانا چاہیے کہ فرائض بھی اہم ہیں۔ عوام کو باکردار بنانا انھیں ان کے فرائض یاد دلانا ایک مشکل کام ہے، اس کام میں عوام کی خوشنودی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، لہٰذا کوئی جماعت عام طور پر فرائض کی یاد دہانی نہیں کراتی بلکہ حقوق کے نام پر ایک سے بڑھ کر ایک حق عوام کو متعارف کراتی ہے، خوب سے خوب سبز باغ عوام کو دکھاتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ مذہبی سیاسی جماعتیں عوام کے کر دار کی طرف خاص توجہ رکھتیں تھیں مگر جمہوریت کے رنگ نے وہ رنگ دکھائے کہ اب عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کی اس فضا میں سب ہی ایک صف میں آکھڑے ہوئے ہیں اور بس ایک ہی دوڑ ہے کہ عوام کو حقوق دلانے کی بات کون زیادہ اچھے اور موثر طریقے سے کرتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اخلاقی، سماجی اور مذہبی اقدار کو خاصی اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اب یہ سب کی سب عنقا ہو چکی ہیں، خاص کر سیاست اور سیاسی جماعتوں کے منشور سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔

حالانکہ اگر کسی معاشرے کو حقیقی ترقی اور امن کی جانب لے جانا ہو تو یہ اقدار اہم کر دار ادا کرتی ہیں مگر اب ان اقدار کی طرف کسی کی توجہ نہیں، اب اگر کوئی اپنا فرض ادا نہ کرے تو کوئی برائی بھی نہیں سمجھا جاتا۔ رشوت کے بغیر کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام نہیں ہوتا، مگر یہ برائی ہم سب نے قبول کرلی ہے اور اب اس کو برائی تصور نہیں کرتے، تمام سیاسی جماعتوں کے ونگ سرکاری ادروں کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ملازمین کے حقوق کے نعرے بلند کرتے ہیں مگر وہ اپنے ملازمین کو فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتے نظر نہیں آتے۔

یہ مغرب کے عطا کردہ جمہوری نظام کی یقیناً ایک بہت بڑی خامی ہے کہ جس میں صرف اور صرف حقوق کی بات کرنا ہی جماعتوں کو فائدہ پہنچاتی ہے، فرائض کی طرف توجہ دلانا رسکی معاملہ ہوتا ہے۔ یہی بات ہمیں مختلف این جی اوز کے نعروں میں، مطالبات میں بھی نظر آتی ہے، مثلاً خواتین کے حقوق کا نعرہ ، یا کورٹ میرج کی حمایت۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ان کے کوئی فرائض بھی ہوں گے، ماں باپ، گھر بار کو بھی ان کی ضرورت ہوگی، جہاں ان کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔

بات یہ ہے کہ سب کو حقوق ہی چاہیے ہیں تو فرائض کون ادا کرے گا؟ کیا ہم میں سے کوئی فرائض کی بھی بات کرے گا؟ یہ بات تو طے ہے کہ فرائض کے بغیر حقوق کی فراہمی ناممکن ہے کیونکہ کسی کا فرض ہی کسی دوسرے کا حق ہوتا ہے۔ کسی کو حق ملنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ بات تو چھوٹی سی ہے، کاش سمجھ میں بھی آجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔