ذکر سے ہی رونا آجاتا ہے
لنکن کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی کو الزام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتا تھا۔
ہمیں 1947ء سے لے کر آج تک جو بھی لیڈر نصیب ہوئے چند کو چھوڑ کر ان کی اکثریت کرپٹ،جھوٹی،دھوکا دینے میں نمبر 1، جعلساز، فراڈ کرنے میں یکتا، لوٹ مار کی دلدادہ، عیش وعشرت اور شان و شوکت کی شوقین تھی جنہیں صرف اور صرف باتیں اور دعوے کرنے میں مہارت حاصل تھی اور وعدوں کا تو ذکر ہی نہ کریں تو بہتر ہے کیونکہ اس کے ذکر ہی سے رونا آجاتا ہے۔
ملک میں بیس کروڑ عوام ان ہی کے ہاتھوں زخم آلودہ ہیں، انھوں نے ایسے ایسے زخم لگائے ہیں کہ جن سے خون آنا ابھی تک بند نہیں ہورہا ہے ملک کے سارے اداروں میں جو خاک اڑتی پھر رہی ہے۔ اس کے پیچھے وہ ہی کھڑے مسکرا رہے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب تاحیات حکمرانی کے خواب دیکھتے رہے ہیں اور اپنے اس خواب کو سچا کرنے کے لیے انھوں نے اپنی طرف سے کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی یہ تو ہمارے ہی نصیب اچھے تھے کہ ان کے یہ خواب ان کے لیے ڈراؤنا خواب بن کے رہ گئے ورنہ انھوں نے تو اپنی طرف سے پوری کو ششیں کی تھیں کہ ہم پر تاحیات مسلط ہوجائیں۔
لیڈرشپ کے حوالے سے دنیا بھر میں بے شمار کتابیں شایع ہوچکی ہیں، یہ کتابیں مقبول اور معروف لیڈروں کی زندگیوں پر ہیں لیکن''لنکن بطور لیڈر'' اشاعت (1922) ایسی تمام کتابوں سے مختلف ہے اور اس کا انداز بھی دیگرکتابوں سے منفرد ہے۔ مصنف فلپس ایک سیمینار میں تھا تب اس نے حقیقی طور پر محسوس کیا کہ ابراہم لنکن وہ واحد لیڈر تھا جس نے اپنے آئیڈیاز کو اپنی حقیقی زندگی میں استعمال کیا، تب فلپس نے ابراہم لنکن پر سیکڑوں کتابیں اور آرٹیکلرز پڑھے تو اس نے دریافت کیا کہ ابراہم لنکن کے آئیڈیاز باکل نرالے اور انوکھے تھے۔
اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ ابراہم لنکن کی لیڈر شپ پر بہت کم لکھاگیا ہے۔ فلپس نے ابراہم لنکن کو ایک حقیقی لیڈر اورکامیاب ترین صدر تسلیم کیاہے، اس لیے ہر لیڈر کو چاہیے کہ وہ لنکن کی زندگی کا مطالعہ کرے تا کہ لیڈر شپ کی حقیقت کو سمجھ لے۔ فلپس نے لنکن کی صدارت کے اہم نکات یوں بیان کیے ہیں۔
(1) متحر ک لیڈر۔ امریکا کی تاریخ میں وہ بہترین صدر تسلیم کیا جاتا ہے۔ لنکن ہر اس شخص سے ذاتی طور پر ملتا جو اس سے ملنا چاہتا۔ وہ فوجی جرنیلوں سے مل کر فوج کے جوانوں کے متعلق گفتگو کرتا وہ ہر طرح کی معلومات خود حاصل کرتا۔ جب وہ ضروری سمجھتا تو خود محاذ پر جاکر فوجوں کی نگرانی کرتا وہ پڑھے لکھے لوگوں کا بہت مداح تھا۔ وہ عام کسانوں اور مزدوروں سے بھی فراخ دلی کے ساتھ ملتا۔ وہ ہر کسی کی بات بہت غور سے سنتا اس طرح عوام کا اعتماد اس پر بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔
2۔ انسانی فطرت کا عالم :۔ وہ ہر کسی کی غلطی آسانی سے معاف کردیتا تھا اس میں کسی قسم کا غرور اور تکبر نہ تھا۔ اس میں جذبہ رحم بہت زیادہ تھا۔اس کا کہنا تھا کہ شہد کی مکھیاں جتنا زیادہ پر سکون ہونگی اسی قدر شہد زیاد ہ اکٹھا کریں گی اوریہ ہی حال انسانوں کا ہے انسانوں کو جس قدر زیادہ محفوظ اور خو ش رکھا جائے اس کی کارکردگی اسی قدر زیادہ ہوگی۔ لنکن نے کبھی نہیں سو چا تھا کہ اس کی کمزوریوں کے متعلق لوگ کیا کہتے ہیں وہ بے خو ف ہوکرکام کرتا تھا۔ 3۔ دیانتدار لیڈر: لنکن کا عرف ''دیانت دار'' ایب (Abe) تھا لنکن کی دیانتداری اور شہرت کی وجہ سے اس کی قائدانہ صلاحیتیں زیادہ مضبوط تھیں کیونکہ عوام اپنے لیڈروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ دیانتدار ہوں اور جوکچھ کریں صحیح اور درست کریں۔
لنکن کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی کو الزام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتا تھا۔ اس نے اپنی تقریر میں یادگار الفاظ میں کہا تھا ''کسی کے ساتھ بغض نہ رکھو بلکہ ہر کسی کی مدد کی جائے۔ جان دانا میکر آنجہانی نے ایک دفعہ اعتراف کیاکہ ''مجھے تیس برس پہلے یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ کسی کو سرزش کرنا بے وقوفی ہے مجھے اپنی کمزوریوں پر غالب آنے میں کافی زحمت اٹھانی پڑی ہے، میں اس امر پر کبھی چین بجیں نہیں ہوا کہ خدا نے ذہانت کو مساوی طور پر تقسیم کرنا مناسب نہیں سمجھا۔''
یاد رہے عیب جوئی خطر ناک ہے۔انسانی فطرت عملاً کچھ اسی قسم کی واقع ہوئی ہے کہ غلط کار سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ہم سب اس معاملے میں یکساں ہیں۔ روزویلٹ کہتا تھا کہ جب وہ صدر تھا اور اسے کوئی مشکل مرحلہ پیش آجاتا تو وہ اپنی آرام کر سی پر تکیہ لگا کر بیٹھ جاتا اور لنکن کی قد آور تصویر کی طرف دیکھا کرتا تھا، جواس کی میز کے اوپر وائٹ ہاؤس میں آویزاں تھی اور اپنے دل سے یہ سوال کیا کرتا تھا اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہوتا تو اس موقع پرکیا کرتا؟ وہ کس طرح اس مسئلے کو حل کرتا؟
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہمارے لیڈروں کو جب کبھی کوئی مشکل مرحلہ در پیش آتا ہے تو وہ کس کی تصویر کی طرف دیکھتے ہیں کیا قائداعظم کی تصویر کی طرف یا پھر غلام محمد کی طرف۔ آپ نے بالکل صحیح سوچا ہے وہ سب غلام محمد کی تصویر کی طرف دیکھ کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ یہ ہی ملک اور قوم کے حالات پیدا ہونگے جو ہوئے ہیں آئیں ہم مرحلہ وار اپنے لیڈروں کی اکثریت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(1) متحرک لیڈر: ہمارے لیڈروں کی اکثریت منتخب ہونے کے بعد یا پہلے اپنے چند ساتھیوں کے علاوہ دوسروں سے ملنے کو اپنی توہین سمجھتی ہے اس لیے وہ کسی سے نہیں ملتے انھیں پڑھے لکھے لوگوں سے سخت چڑ ہے اس لیے وہ انھیں اپنے پاس پھٹکنے ہی نہیں دیتے ہیں وہ صرف جاہل اور عقل کے دشمنوں کو اپنے گرد جمع رکھنا پسند کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کو بھی جو ان کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کرنے کی مہارت رکھتے ہیں اور جو ان کی ہر وقت خو شامد اور چمچہ گیری میں مصروف رہتے ہیں۔
(2) انسانی فطرت کاعالم: وہ کسی کی غلطیوں کو کبھی معاف نہیں کرتے ہیں ا ن میں غرور اور تکبر کتنا ہے نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے وہ ہر کسی سے محاذ آرائی کے شوقین نمبر ون ہیں۔ الزام تراشی، دھوکہ، فریب، جعلسازی، جھوٹ،کرپشن، لوٹ مار جیسی خوبیاں خون کے ساتھ ان کی رگوں میں گھومتی پھرتی ہیں وہ اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں سازشیں ان کی فطرت بن چکی ہیں عام لوگوں کو وہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔
(3) دیانتدار لیڈر: دیانتداری اور ایماندار ی سے انھیں گھن آتی ہے، ان سب کا عرف معلوم کرنا ہوتو ملک کے بیس کروڑ عوام میں سے کسی سے بھی پوچھ لیں ۔ اپنے علاوہ ملک کے ہر ادارے کوکمزور کرنا ان کا پسندیدہ عمل ہے، انھیں صرف اور صرف دولت کے انبار، محلات، ہیرے جواہرات کے ڈھیروں سے محبت ہے، اگر ان کا بس چلے تو وہ تاریخ میں سے لنکن اور ان جیسے لیڈروں کا ذکر اور فکر اورعمل کو نیست و نابود کردیں لیکن ہائے ان کی بدقسمتی کہ وہ یہ کرنے پرکوئی قدرت نہیں رکھتے ہیں۔