یوم آزادی کا استقبال
اخلاقی گراوٹ ان رویوں کی معرفت سکہ رائج الوقت بنتی جا رہی ہے
''پاکستان چودہ اگست 1947 کو صرف بنا تھا آزاد نہیں ہوا تھا''
فیس بک پر یہ جملہ پڑھ کر ''تکلیف'' ''غصہ'' اور ''تفکر'' تینوں تاثرات میں رسہ کشی شروع ہو گئی اور کچھ کچھ ''ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر'' کی سی صورت حال بن گئی کہ یہ طنزیہ بیان سو فی صد سچ نہ سہی مگر اس کو غلط یا من گھڑت بہرحال نہیں کہا جا سکتا۔ ارادہ تو یہی تھا کہ حسب سابق اس یوم آزادی پر بھی ایک پرامید اور حوصلہ افزا کالم لکھوں گا جس کی بنیاد اس پیارے وطن کی ترقی' تعمیر وسیع امکانات' استحکام اور غیب سے ظہور پذیر ہونے والی رحمت آمیز نشانیوں پر ہو کہ ہماری نئی نسل اس کی برکات اور اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر فخر بھی کر سکے لیکن جس انداز میں اس سترویں یوم آزادی کا استقبال کیا جا رہا ہے وہ کسی طرح بھی اس کے شایان شان نہیں ہے، سو اس کالم سے پہلے کچھ باتیں اس فضا پر کرنے کو جی چاہ رہا ہے جو ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اور جس کا ہر منظر ایک سراپا سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
میں میڈیا پر اچھالے جانے والے ان واقعات' کرداروں اور ان کے محرکات کی تفصیل میں اس لیے نہیں جانا چاہتا کہ ان کی حیثیت ان پھوڑوں کی سی ہے جو خون میں موجود کسی انفیکشن کی وجہ سے جلد پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ کسی پھوڑے کی سرجری اس وقت تک کامیاب نہیں کہلا سکتی جب تک اس کو پیداکرنے والے انفیکشن کو بھی ختم نہ کر دیا جائے۔ البتہ جو اخلاقی گراوٹ ان رویوں کی معرفت سکہ رائج الوقت بنتی جا رہی ہے اسے روکنے اور اس پر غور کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے معاشرے کے دیگر شعبوں اور طبقوں کی طرح اہل سیاست میں بھی اچھی اور بری دونوں طرح کی باتیں آپس میں برسرپیکار رہتی ہیں کہ زندگی کا اصل اصول ہی بغیر کہیں رکے آگے بڑھتے رہنا ہے، سو اس فطری آویزش کی وجہ سے ہمہ وقت کچھ چیزیں سطح کے اعتبار سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ بھی اسی نوع کے مدو جزر سے بھری پڑی ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ہم نہ صرف مسلسل پستی کی طرف سفر کریں بلکہ کبھی کبھار اس دائرے سے بھی باہر نکل جائیں جو انسان کو باقی جاندار اشیا اور مخلوقات سے ممیز اور ممتاز کرتا ہے۔
برادر محترم عنایت اللہ خان صاحب کا ایک شعر میں اکثر مختلف حوالوں سے استعمال کرتا رہتا ہوں کہ یہ ہے تو علامہ صاحب کے اس مشہور شعر ہی کا ایک روپ کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
مگر اس میں موجود فکری تجزیے کی جو شکل اور مثال عنایت اللہ خان کے شعر میں سامنے آتی ہے وہ ایک بارہا دیکھا ہوا منظر اور روز مرہ کی بات ہے جس کو وضاحت کے لیے کسی خارجی مدد یا فلسفے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ یہ خود غرضی' بے حسی اور مجرمانہ لاتعلقی کی وہ تصویر ہے جس کے ہم سب ہی نقش و نگار ہیں۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اب اگر آپ اسی اجتماعی اور عمومی رویے کو اہم قومی مسائل پر منطبق کر کے دیکھیں تو ایک عجیب خوفناک بلکہ شرمناک حد تک افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے، مزید وضاحت کے لیے آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے وہ اصل قومی مسائل کیا ہیں جن کا گوشوارہ ہمیں ہر یوم آزادی پر اس حوالے سے مرتب اور پیش کرنا چاہیے کہ اس ایک برس میں ہماری پیش رفت کیا رہی اور ہم نفع نقصان کے توازن اور تناسب کے تعین میں کیا کچھ کر پائے! اور دوسری طرف وہ ''نام نہاد قومی مسائل'' ہیں جن کے اڑائے ہوئے گردوغبار میں ہر منظر دھندلاتا چلا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں ساٹھ ستر برس کا عرصہ بہت معمولی اہمیت کاحامل ہوتا ہے۔
ماضی کی سست رفتار اور تہذیبی اور جغرافیائی سطح پر ایک دوسرے سے تقریباً بے خبر دنیا کی حد تک یہ بات کسی حد تک صحیح ہو سکتی ہے مگر آج کے دور میں جب کرہ ارض سمٹ کر ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور کسی ایک خطے میں نمو پذیر ہونے والے کسی اچھے یا برے واقعے کی بازگشت ساری دنیا کی منڈیوں اور ایوانوں میں فوراً ہی گونج اٹھتی ہے اور ہر نئے دن کا سورج اپنے ساتھ کچھ انکشافات لے کر طلوع ہوتا ہے' اس طرح کی سوچ سراسر منفی اور غیر حقیقی ہے، مثال کے لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے یا آزاد ہونے والے ممالک پر ایک نظر ڈال لیجیے کتنی قومیں اور ملک ہیں جو اس عرصے میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے قومی مسائل' عوام کی ترقی' تعلیم' صحت' سوشل سیکیورٹی' ہر طرح کی سرحدوں کی حفاظت اور اقداری سطح پر بین الاقوامی برادری میں شمولیت کے بجائے کچھ لوگوں کے ذاتی مسائل باہمی تعلقات' اداروں کے تصادم' ریلیوں اور دھرنوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ علامہ صاحب نے کہا تھا
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
ہم نے ان کے اس شعر سے ''شمشیر'' کا لفظ تو یقیناً چنا ہے لیکن ہمہ وقت اس سے اپنے عمل کے بجائے دوسروں کے عمل کا حساب کرتے رہتے ہیں۔ یوم آزادی کے استقبال کا حق اس وقت ادا نہیں ہو سکتا جب تک ہم ذاتی مفادات کی اس شمشیر کو نیام میں واپس رکھ کر اس افراتفری اور قتل عام کی فضا کو تبدیل نہیں کرتے جس نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ اس ''ہم'' کا مخاطب ہم سب ہیں کہ ظلم اور بے انصافی کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود جو شخص کسی بھی مصلحت یا کمزوری کے باعث خاموش رہتا ہے وہ مانے یا نہ مانے اس کا شمار ظالم اور انصاف دشمن لوگوں کی صف میں ہی ہو گا۔