یہ سب کیا ہورہا ہے
ملک میں اقتدار و اختیار کی رسہ کشی اب کثیر الجہتی ہو چکی ہے
ملک میں اقتدار و اختیار کی رسہ کشی اب کثیر الجہتی ہو چکی ہے ۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا غیرسیاسی ریاستی قوتیں، کوئی بھی آئین کے دائرے کے اندر رہ کر کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے، بلکہ ہر ادارہ دوسرے ادارے پر حاوی آنے اور اس کے اختیارات سلب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حکمران اشرافیہ کی چومکھی لڑائی کے نتیجے میں ملک کی معیشت زبوں حالی اور سماجی ڈھانچہ افتراق و انتشار میں مبتلا ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ نتیجتاً نظام حکمرانی بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور نظم و نسق مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
سیاسی نظریات تو عرصہ ہوا قصہ پارینہ ہوئے۔ جس کی وجہ سے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی خواہش محض خواب و خیال ہوکر رہ گئی ہے۔ اب ایک نئی برائی معاشرے میں در آئی ہے، یعنی اپنے مفادات کی کشمکش میں خواتین کو ملوث کرکے ان کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ ان کے بارے میں جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اور جس انداز میں ان کی کردارکشی کی جا رہی ہے، وہ اخلاقی گراوٹ کی بدترین مثال ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں تعلیم نسواں کو معیوب سمجھا جاتا ہو۔جہاں ان کے تعلیمی ادارے تباہ کیے جارہے ہوں۔ وہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے غیر سنجیدہ روش خواتین کو ملنے والی تھوڑی سی سیاسی بااختیاریت کے ختم ہو جانے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ریاستی اداروں اور سیاست دانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا روز اول ہی سے پیدا ہو گئی تھی ۔ بیوروکریسی نوزائیدہ ملک کو وحدانی ریاست بناکر اقتدار واختیار پر اپنی گرفت قائم کرنے کی خواہش مند تھی،جب کہ سیاستدان ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں متضاد تصورات کے حامل ہونے کی وجہ سے نظم حکمرانی اور ریاست کے خدوخال کے حوالے سے ابہام کا شکار تھے۔ کچھ سیاسی قیادتیں بیوروکریسی کی آلہ کار بنی ہوئی تھیں، جب کہ بنگال اور مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی قیادتیں تقسیم ہند کے فارمولے اور قانون کے مطابق نئے ملک کو وفاقی جمہوریہ بنانا چاہتی تھیں، مگر چھوٹے صوبوں کی سیاسی قیادتیں اول تو قبائلی اور جاگیردار رہی ہیں دوسرے باہمی نفاق کے باعث بیوروکریسی کے کھیل کی کھل کر مخالفت نہیں کرسکیں۔
ریاستی اسٹبلشمنٹ، فیوڈل اور سرمایہ دار سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کو فلاحی جمہوری ریاست کے بجائے قومی سلامتی کی ریاست میں تبدیل کردیا۔ پیرٹی کا اصول، ون یونٹ کا قیام اور مضبوط مرکز کا تصور قومی سلامتی کے اسی نظریے کی پیداوار ہے اور آج بھی جاری ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے حامی حلقوں نے ایک بار پھر صوبائی خود مختاری اور پارلیمانی نظام کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے صدارتی نظام کے حق میں پر زور دلائل دینا شروع کردیے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ ستر برسوں سے جاری نظم حکمرانی کا بحران مزید گہرا ہو رہا ہے۔ ریاستی امور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی اس فضا میں تعاون اور ورکنگ ریلیشن شپ مشکل تر ہوگیا ہے۔
سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ انھیں اقتدار میں شریک توکرلیا جاتا ہے مگر اختیارات نہیں دیے جاتے۔ ریاستی ادارے پارلیمان کو چلنے نہیں دیتے۔ اسے کمزور اور غیر فعال رکھنا چاہتے ہیں۔ سب سے زیادہ کرپشن اور بدعنوانیاں ریاستی اداروں میں ہے، مگر ان کا احتساب نہیں ہوتا۔ صرف انھیں رگیدا اور میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اسٹبلشمنٹ نواز حلقے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ سیاستدان عزم و حوصلے سے عاری، نااہل اور بدعنوان ہیں۔ وہ خود ہی پارلیمان کومضبوط بنانے سے گریز کرتے ہیں۔اپنی کرپشن اور بدعنوانیوں کو چھپانے کی خاطر پارلیمان سے بالا ہی بالافیصلے کرتے ہیں، جب کہ پارلیمان کو کمزور کرنے کا الزام اداروں پر دھرتے ہیں۔ اب کون غلط اور کون صحیح ، اس کا فیصلہ ایک غیر جانبدار کمیشن ہی کرسکتا ہے۔
لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 1958کے بعد سے اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں کی بڑی کھیپ اسٹبلشمنٹ کے مکتب سے تیار ہو آرہی ہے۔اب اگر یہ کھیپ کمتر استعداد صلاحیت کی حامل، کوتاہ بین اور بدعنوان ہے، تواس سے مکتب کے تربیتی ماڈیولز(Modules)میں نقائص کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ متوازی سیاسی کیڈر جو طلبہ سیاست کے راستے عملی سیاست میں آیا، جس سے اسٹبلشمنٹ ہمیشہ خائف رہی، اس کی اکثریت کے دامن پر کوئی داغ نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے، خواہ اس کا تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازو سے۔
یہاں ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ پاکستان کی سیاست پر فیوڈل اور مراعات یافتہ طبقات کو مسلط کرنے میں بھی اسٹبلشمنٹ کا کلیدی کردار رہا ہے۔آج سیاستدانوں اور اداروں کے درمیان جو چومکھی لڑائی جاری ہے، وہ بھی مراعات یافتہ طبقے کے باہمی مفادات کے ٹکراؤ کا شاخسانہ ہے۔ یہ لڑائی نہ تو عام آدمی کے مفاد میں لڑی جارہی ہے اور نہ ہی اس کے منطقی انجام کی صورت میں اسے کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔
اس نئی صورتحال میں متوشش شہری، قلمکار، تجزیہ نگار اور صحافی واضح طور پر دو انتہاؤں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ درمیان کاGrey ایریا بہت مختصرہو کر رہ گیا ہے۔اس میں وہ لوگ کھڑے ہیں، جو معاملات ومسائل کا ایشوز کی بنیاد پر جائزہ لیتے ہیں ۔ ایک انتہا پر موجود حلقے کی رائے میں کرپشن کے مقدمات کے پس پشت جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کی خواہش کارفرما ہے، جب کہ دوسری انتہا پرکھڑا حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ کرپٹ اور بدعنوان حکمران اور سیاستدان اپنی کرپشن اور بدعنوانی کو چھپانے کے لیے جمہوریت کی آڑ لے رہے ہیں۔ Greyایریا میں کھڑے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ملک میں کرپشن اور بد عنوانیاں بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ ان حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اداروں کی کمتر استعداد ، غیر ذمے دارانہ طرز عمل اور کرپشن کی ذمے داری سیاستدانوں کے علاوہ اسٹبلشمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے۔
یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ ملک میں میرٹ، شفافیت، جواب دہی اور احتساب کے کلچر کے فروغ کا راستہ روکنے کی ذمے داری سیاسی جماعتوں اور اسٹبلشمنٹ دونوں پر ہی عائد ہوتی ہے، اگر ملک میں کم از کم عدلیہ اور الیکشن کمیشن میں تقرریاں میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پرکی جاتیں اور انھیں آزادانہ اور غیر جانبدار طورپر کام کرنے دیا جاتا، تو بہت سے مسائل کا بحران بننے سے قبل ہی حل نکل آتا۔ بھارت کوئی آئیڈیل ملک نہیں ہے۔ کئی ایسے معاملات ہیں، جن پر شدید تنقید بنتی ہے۔ مگر اس ملک کی ابتدائی دور کی قیادت نے آزادی کے فوراً بعد جو فیصلے اور اقدامات کیے، ان کی وجہ سے نظم حکمرانی کو واضح سمت مل گئی۔
سیکیولر آئین کی تیاری اور ریاست، رجواڑوں اور جاگیرداری کا خاتمہ اپنی جگہ ۔ بھارت کی سیاسی قیادتوں نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار رکھنے پر خصوصی توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں اہم ادارے روز اول ہی سے غیر متنازع چلے آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف قومی امور پر اختلافات کے باوجود حزب اختلافات نے کبھی ان اداروں پر انگشت نمائی کرکے انھیں متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس ہمارے یہ دونوں ادارے روز اول ہی سے متنازع چلے آرہے ہیں۔ کبھی ان کی تطہیر اور تشکیل نو پر توجہ نہیں دی گئی۔ کیونکہ پارلیمان کو اداروں کی اصلاح کا اختیار نہ سیاستدانوں نے دیا اور نہ اسٹبلشمنٹ اس پر آمادہ ہوئی۔
اب اگر اس وقت بھی سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی اور ایک دوسرے کی اہمیت وافادیت کو تسلیم کرنے سے گریز کا راستہ نہیں چھوڑا ، تو ملک کو ناقابل یقین نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہمیں یہ پہلو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کی موجودہ حکومت کے تیور خاصے بدلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت سمیت دیگر پڑوسی ممالک بھی ہمارے اندرونی انتشار کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس لیے عقل وخرد کا تقاضا یہ ہے کہ کسی قسم کے ایڈونچر کے بجائے ہوش مندی کی راہ اپنائی جائے۔اس کے سوا ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔