انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ اور ادویات
سرکاری اسپتالوں کو سپلائی ہونے والی ادویات کی کوالٹی ان سے بھی زیادہ مشکوک ہے جو عام دکانوں پر دستیاب ہے۔
ادویات میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ کے باعث معصوم جانوں کا ضیاع ناقابل برداشت نقصان ہے، عام بیماریوں کی ادویات میں مضر اور زہریلے عناصر کی موجودگی اس حد تک کہ کسی انسان کی جان لے سکے ایک ایسا سوالیہ نشانہ ہے جو ملک بھر میں موجود دوا ساز کمپنیوں کے لارے میں عوام کے دل میں ابھرتا ہے، دو سو سے زائد جانیں غفلت کی نظر ہو گئیں، لائسنس منسوخ کر دینا، گرفتاریاں عمل میں لانا، بیان بازی کرنا یا کسی پر بھی انگلی اٹھانا اب ان جانوں کو واپس نہیں لا سکتا جو گزر چکے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک پرانی روایت ہے کہ پرانے تجربوں سے ہرگز بھی سبق نہیں سیکھا جاتا جو گزر چکا ہوتا ہے اس پر حفاظتی تدابیر نہیں لگائی جاتیں بلکہ ایک بار پھر برے تجربے سے گزارنے کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں، ملک میں ایک مشہور یونانی ادویات بنانے والی کمپنی میں سب سے زیادہ امپورٹ وہ اینٹی بائیوٹکس کی جاتی ہیں جو عام ایلوپیتھک دوائوں میں ہائی ڈوز کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں، اب کوئی یہ ان کمپنیوں سے پوچھے کہ یونانی ادویات میں انگریزی ادویات کا کیا کام؟ لیکن اس بات کو کون پوچھے گا، استعمال کرنے والے لوگ اس کے فوائد سے خوش ہوتے ہیں، ان کے خیال میں اس طرح یونانی ادویات استعمال کرنے سے وہ انگریزی ادویات کے استعمال سے بچ گئے کیونکہ ان کے خیال میں انگریزی ادویات کے سائیڈ ایفکٹس بڑے مضر ہوتے ہیں جب کہ ان ادویات کے استعمال سے انھیں جلد فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ ادویات کے سائیڈ ایفکٹس یا انرجی کی صورت میں کئی دواساز کمپنیوں پر ہرجانہ بھی عائد کیا جا چکا ہے، ہم اکثر اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں لیکن ان دوا ساز کمپنیوں کی بڑائی دیکھیے نقصان اٹھانے والے مریضوں کو پورا ہرجانہ ادا کیا جاتا ہے اور مستقبل کے لیے بھی مناسب کارروائیاں کی جاتی ہیں تا کہ آیندہ کسی انسانی جان کو یہ اذیت نہ اٹھانی پڑے، لیکن ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے، جو گیا وہ گیا، ادویات کی جانچ پڑتال کے لیے جو ادارے کام کر رہے ہیں ان کی کارکردگی اگر واقعی تسلی بخش ہوتی تو ادویات میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ کے باعث انسانی جانیں کیوں ضایع ہوتیں۔
1976کے ڈرگ ایکٹ کے تحت ڈرگ انسپکٹرز فیکٹریوں، ریٹیلر اور ہول سیلرز سے ادویات کے نمونے جمع کر کے انھیں سرکاری لیبارٹریوں میں ٹیسٹنگ کے لیے بھیجتے ہیں، یہ روزمرہ کی کارروائی کا حصہ ہے جس کے ذریعے ادویات کے تسلی بخش ہونے یا نہ ہونے کی رپورٹ ترتیب دی جاتی ہے، ملک بھر میں تقریباً پچاس کے قریب ڈرگ انسپکٹرز اور اسسٹنٹ ڈرگ کنٹرولر ہیں جو روزانہ تقریباً اگر دو نمونے ٹیسٹنگ لیبارٹری میں بھیجیں تو ہر برس تقریباً بیس سے چوبیس ہزار نمونے بھیج سکتے ہیں، لیکن ذرا ان حضرات کی کارکردگی ملاحظہ کریں۔ 2008سے 2011کے درمیان ان حضرات نے تین ہزار کے قریب نمونے جمع کیے جب کہ لیبارٹری میں 2011 میں صرف 1450 نمونے جمع کرائے گئے حالانکہ ملک بھر میں مختلف قسم کی ادویات کی تیاری ہزاروں کے قریب ہے۔
ان پچھتر سے اسی ہزار نمونوں کی جانچ پڑتال کے لیے آخر کون سا طریقہ اختیار کیا جائے جو حکومتی سطح پر سند یافتہ کہلائے گا کیونکہ اسی مرحلے پر پروڈکشن کمپنیز کی ذمے داری کسی حد تک ختم ہو جاتی ہے ظاہر ہے کہ کوئی بھی کمپنی اپنے نام اور ساکھ کو ہرگز خراب نہیں کرنا چاہے گی جس طرح افروز کیمیکلز کے ساتھ ہوا جن کو دوا کے ناقص ہونے کا علم تھا، بقول حکومت پنجاب کے اور ان ادویات میں ملیریا کی دوائی شامل ہونے کے باوجود وہ دوائی پی آئی سی کو سپلائی کر دی گئی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ پروڈکشن پر آنے والی لاگت کے ضیاع کو بچانے کی خاطر انسانی جانوں کی پرواہ نہیں کی گئی، غالباً ادویات کی انڈسٹری میں پوری دنیا بھر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جہاں پروڈکشن کی تیاری کے وقت اس غلطی کا پتہ چل چکا تھا لیکن واہ! رے پاکستانی۔۔۔۔!
سرکاری اسپتالوں کو سپلائی کرنے والی ادویات کی کوالٹی ان ادویات کی کوالٹی سے بھی زیادہ مشکوک ہے جو عام دوا ساز دکانوں، ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے دستیاب ہے کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں یہ ادویات بہت بڑی تعداد میں سپلائی کی جاتی ہیں اور کمپنی کے نام کو ہی ضمانت سمجھ کر مریضوں تک پہنچا دیا جاتا ہے کیونکہ ان دوائیوں کی جانچ پڑتال میں خاصا وقت صرف ہوتا ہے یعنی سرکاری اسپتالوں میں ادویات اوپر والے مالک پر بھروسہ کر کے استعمال کرائی جاتی ہیں اور ویسے ہم تو ہیں ہی اتنے اچھے اور سچے مسلمان، غلط دوائی یا ایکسپائر دوائی بھی اسی کا نام لے کر استعمال کرتے ہیں۔
دوائوں کے لحاظ سے کراچی میں صورت حال پھر بھی ملک کے دوسرے شہروں سے ذرا بہتر ہے، مجھے یاد ہے کہ ایک بار میرے والد مرحوم لاہور گئے، گلے میں خراش ہوئی تو کراچی کی طرح انھوں نے وہاں بھی وہی چوسنے والی گولی خرید لی جسے وہ عام طور پر استعمال کرتے تھے لیکن اس گولی کا ذائقہ انتہائی برا تھا، جسے بمشکل انھوں نے برداشت کیا، لیکن گلے کی خراش بھی جوں کی توں رہی، صرف یہی نہیں دوسری ادویات کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا حال ہوا، اچھے بڑے شہر میں جب اس طرح کی ادویات دستیاب ہوں تو چھوٹے شہروں کا کیا کہنا۔
ادویات کی تیاری کے سلسلے میں جو مشینریاں اور آلات استعمال ہوتے ہیں کیا ان کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی بھی اسی انداز سے کی جاتی ہے؟ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے ISO اسٹینڈرڈ تو رائج کر دیے جسے مختلف کمپنیوں نے اپنی پروڈکٹ کی ترقی کے لیے حاصل تو کر لیا ہے لیکن کیا ان پر عمل بھی ہو رہا ہے یا وہ صرف کاغذی کارروائیوں کی حد تک محدود ہیں؟ ISO ایک انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ ہے جس پر عمل کر کے کمپنیاں بہتر انداز میں کام کر سکتی ہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس پر سختی سے عمل کروانے کی پابند ہے، لیکن ہمارے ملک میں اندھا گائے اور بہرہ بجائے والی پالیسی پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔
بڑی بڑی کمپنیاں ان اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہوتیں، ان نازک اور حساس ذمے دار کاموں کے لیے ایسے نا اہل اور کم تنخواہ کے چکر میں ان افراد کو اپائنٹ کر لیا جاتا ہے جو کمپنی کے بجٹ پر تو خاطر خواہ اثر کر سکتا ہے لیکن ان بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے میں قاصر رہتا ہے کیونکہ وہ اس کی سمجھ اور تجربے کی حد سے باہر ہوتے ہیں اور یہی معمولی معمولی سے نقص بڑی بربادی کا باعث بنتے ہیں جو کبھی بڑے بوڑھوں کی دل کی دوائی دیتے دیتے جاں لے لیتے ہیں اور کبھی معمولی کھانسی کے شربت زہر کی دوائی بن جاتے ہیں، تو کبھی سانحہ بلدیہ بن کر کئی سو خاندانوں کے دلوں میں خنجر پیوست کر دیتے ہیں۔