وقت کم ہے کام بہت

گزشتہ چند دنوں کی سیاسی گراوٹ نے ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے


نجمہ عالم August 11, 2017
[email protected]

گزشتہ سے پیوستہ کالم کے بارے میں ہم اپنے 4 اگست کے کالم میں بتاچکے ہیں کہ اس کالم ''قابل عمل مفروضہ'' کے بارے میں کئی قارئین نے بذریعہ ای میل ہمارے مجوزہ خیالات کو ناقابل عمل اورکچھ نے شیخ چلی کے خیالات سے تعبیر کیا ہے۔ یہ کالم دراصل گزشتہ ہفتے آنا تھا مگر ملک کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر دوسرا کالم پیش کیا گیا تھا موجودہ کالم متذکرہ بالا کالم کا تسلسل ہے.

ہمارے ایک معزز قاری کا خیال ہے کہ جس ملک میں گزشتہ 70 سال سے بہتری کے بجائے بدتری ناگفتہ بہ صورتحال تک پہنچ گئی ہو، وہاں آپ کے مفروضے کو ''خیالی پلاؤ'' ہی کہا جاسکتا ہے، مگر کچھ لوگوں نے اس تحریر کو سنجیدگی سے لیا اور کچھ سوالات بھی اٹھائے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے جیساکہ ہم نے اس کالم میں ہی بتادیا تھا کہ یہ سب تجاویز تو ہماری عقل واحد کا نتیجہ ہیں مگر جب 20 کروڑ عوام اپنے اپنے زاویۂ نگاہ سے اس مسئلے پر غور کریں گے تو نہ جانے کتنی ہی قابل عمل اور بے حد سہل تجاویز وطن عزیز کے مستقبل کو سنوارنے اور بہتر کرنے کے لیے سامنے آجائیں گی۔

ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ کچھ سوالات بھی اٹھائے گئے، مثلاً ایک محترمہ کا خیال ہے کہ جس قسم کے افراد کو آپ نے آیندہ منتخب کرنے کی تجویز دی ہے وہ آئیں گے کہاں سے؟ ویسے تو اس سوال کا جواب اسی کالم میں موجود تھا مگر ہم مزید وضاحت کیے دیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ جس قدر بدعنوانیوں کا شکار ہے جن کے باعث دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے اور معاشرے کے افراد الگ معاملات زندگی میں بے پناہ دشواریوں سے دوچار ہو رہے ہیں تو یہ صورتحال صرف اقتدار، دولت اور مراعات کے حصول کے ''مرض'' میں مبتلا چند بیمار ذہنیت کے افراد کی پیداکردہ ہے، دولت اور مراعات کے حصول میں تو معاشرے کے دیگر شعبوں کے بھی چند افراد ملوث ہیں مگر کرسی اقتدار کے حصول کے لیے معاشرتی بگاڑ کے ذمے دار عموماً ہمارے جدی پشتی سیاستداں ہیں جو ہر صورت اور ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔

گزشتہ چند دنوں کی سیاسی صورتحال پر خصوصاً اور گزشتہ کئی دہائیوں کی سیاست پر عمومی نظر ڈالیے تو آپ خود محسوس کرلیں گے کہ اقتدار کی خاطر ملک میں کیا کیا نہیں کیا گیا۔ دہشت گردی، اخلاقی اقدارکی پامالی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور خود غلیظ ترین بدبودار کیچڑ کے حوض میں کھڑے ہوتے ہوئے یہ عمل کرنا۔ غرض بہت کچھ ہے جس سے آپ سب (عوام) ازخود واقف ہیں مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔

اب ہم اپنے مقصد تحریر کی طرف آتے ہیں کہ آپ خود غور فرمائیے کہ اقتدار کی ہوس اور سیاست میں کل کتنے افراد ملوث ہوں گے؟ کیا ان سب کی کل تعداد 20 کروڑ ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں یہ ملکی آبادی کے بمشکل ڈھائی فیصد بھی نہیں ہوں گے، مگر سیاست سے باہر باقی افراد میں بھی اگرچہ سب صاحب ایمان، نیک، ملک و قوم سے مخلص نہ بھی ہوں تب بھی کثیر تعداد آج بھی حق حلال کی روزی، روٹی سے وابستہ افراد کی ہے جو خود اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر بھی دوسروں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں، خوف خدا اور جذبہ خدمت خلق خدا کا مکمل پاس کرتے ہیں۔ لہٰذا اس مختصر کرپٹ ٹولے کو قابو کرنا جو اب تک جعلی پروپیگنڈے کے ذریعے ناممکن بنایا جاتا رہا ہے اتنا مشکل نہیں ہے جتنا ہمارے ذہنوں میں بٹھادیا گیا ہے بحیثیت مسلمان یہ تو ہمارا مشترکہ عقیدہ ہے کہ فتح ہمیشہ حق کو اور شکست باطل کا مقدر ہے۔

اس تناظر میں اگر تمام نیک افراد جن کو جان بوجھ کر مختلف عقائد ، فقہی مسائل وغیرہ میں تقسیم درتقسیم کیا گیا ہے اپنے معاشرے کو سدھارنے کی خاطر تمام فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستانی ہونے کے ناتے یکجا ہوجائیں تو یہ چند بدعنوانوں کا ٹولہ کیا اس متحد اکثریت کے سامنے ٹھہر سکتا ہے؟

اگر معاشرتی سدھار کے حامی ازخود اپنی ذمے داری سمجھ کر یعنی امر بالمعروف کے طور پر اپنے معاشرے کو تمام، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی اور کسی حد تک (بے حد معذرت کے ساتھ) مذہبی تفرقے و تقسیم سے پاک کرنے کا عزم کرلیں تو کئی ماہ یا سال نہیں چند گھنٹوں میں یہ تمام برائیاں ختم ہوسکتی ہیں کیونکہ ان سب کا تعلق محض انداز فکر تبدیل کرنے سے ہے جو کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے ذرا خود سے بارگاہ الٰہی میں اپنی ذمے داریوں کا اعادہ کرنے کی دیر ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہم سب آپس میں روابط بڑھائیں، ایک دوسرے کے مددگار بنیں اور طے کرلیں کہ اپنی حق حلال کی کمائی ان بدعنوانوں کو ہڑپ کرنے کی کسی صورت اجازت نہ دیں گے۔ محلے، علاقے میں ایسے افراد تلاش کریں جن کا کردار بے داغ ہو اور کچھ کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آپ کی آواز پر لبیک کہنے والے آپ کی توقع سے بڑھ کر سامنے آئیں گے۔

آپ سب مل کر ایسے مخلص، باکردار، بے غرض اور خدمت خلق کے جذبے سے معمور افراد کو ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے پر راضی کریں، انھیں احساس دلائیں کہ اگر آپ جیسے افراد آگے نہ آئے تو ہم ان لٹیروں سے کبھی بھی نجات نہ پاسکیں گے۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھیے کہ آپ ہمیشہ کے لیے جاگیرداروں، وڈیروں، خودغرضوں اور مفاد پرستوں کی غلامی سے آزاد ہوگئے۔

گزشتہ چند دنوں کی سیاسی گراوٹ نے ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہمیں اپنی بے حسی سے باہر آنا ہوگا۔ بات ایوانوں میں ایک دوسرے کو گالی دینے سے بڑھ کر اب مخالفین کے کرداروں کے ساتھ خواتین کے کردار کو مسخ کرنے تک پہنچ گئی ہے۔ اگر اب بھی ہم اور آپ نے اپنی خاموشی اور بے عملی کے خول کو نہ توڑا تو کل یہ آگ، یہ غیر اخلاقی طرز فکر آپ کے گھر تک کو بھسم کرکے رکھ دے گا۔ 2018 کے انتخابات اب زیادہ دور نہیں ہیں جو کچھ کرنا ہے اس سے قبل کرنا ہے۔ وقت کم ہے اور کام زیادہ 20 کروڑ عوام تک اپنا نقطہ نظر پہنچانا ہے لہٰذا کل نہیں آج ہی سے کام شروع کردیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں کیا کیا کرنا چاہیے اس کا ذکر آیندہ کالم میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں