استعماریت اور پاکستان تیسرا حصہ
عالم انسانیت سے متعلق اقوام عالم کی تاریخ کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر حتمی نتائج کا وزن کیا جاسکتا ہے۔
استعماریت کا استحکام: یورپ کی معلوم تاریخ میں عالم انسانیت کی اجتماعی فلاح وبہبود کا درس دیتی اعلیٰ مذہبی اقدار کے بجائے دیوتائی تسلط اور جمہوری اقدار کا تسلسل دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس میں ہم آگسٹس، سیزر، جولیس، ہرکولیس اور الیگزینڈر کو گنوا سکتے ہیں۔
بالکل اسی طرح مشرق کے ہندوستان، مصر اور قدیم تہذیب فارس میں بھی دیوتائی تسلط کا عروج دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس میں مصر کے خود فراعین اور ان کے رفیق و مددگار عجیب الخلقت دیوتا، ہندوستان کے موت کے رقص (تانڈؤ) کرنے اور تیسری آنکھ رکھنے والے شری شو شنکر، شری ہنومان و نرسمہا دیوتا جب کہ فارس میں Xerxes دیوتا کی مثالیں، ان کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ جن کی روشنی میں یورپ، مصر اور ہندوستان سیکولر بن جاتے ہیں تو تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں رہ جاتی۔
اور نہ ہی قدیم تہذیب فارس کے لوگوں کی جانب سے مسلکی و فرقہ وارانہ جوش و جذبے کے تحت جدید ایران کے معمار (جو فارسی نہیں بلکہ عرب ہیں) کو مافوق الفطرت قوتوں کے حامل مسیحا (قائم مقام امام) کا نظریاتی مقام دینے کا عمل انھیں کچھ پریشان کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان مادی نظریات کی برکات سے عالم انسانیت کی اجتماعیت و عالمگیریت کے تمام امکانات ولوازمات کا خاتمہ کرکے حتمی نتائج کی صورت انتشار در انتشار اور تقسیم در تقسیم کے سوا کچھ اور برآمد نہیں ہوتے۔
شاید اسی لیے دیگر انسانوں کے استحصال سے اپنی حیثیت کی مضبوطی حاصل کرنے کا چلن اپنی مقبولیت کی انتہاؤں کو چھونے لگا ہے۔ جب کہ ان کا قومی سطح پر عملی اظہار قدیم تہذیب فارس، مصر، ہندوستان اور یورپی ممالک کی شکل میں رونما ہوچکا ہے۔ جو صرف اپنے گروہ سے متعلق حسین و پرتعیش مستقبل کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ جن کے مطابق ان کے مسیحا اپنی خونریزی سے تمام تر اقوام کو ان کا مطیع و فرمانبردار بنا کر تمام مادی وسائل پر ان کا تسلط قائم کرے گا۔
اس قسم کے نظریاتی طرز عمل سے عالم انسانیت کے مختلف گروہوں (قوموں) کو باہم منضبط ومنظم کرنے کے تمام امکانات کا یقینی خاتمہ دکھائی دیتا ہے۔ جو کہ استعماریت کو کھلی دعوت مبارزت دینے کے بجائے اس کی اطاعت اور اسے استحکام فراہم کرتے رہنے کے سوا دیگر نتائج فراہم نہیں کرسکتے۔ کیونکہ عالمی استعماری سوچ نے اقوام عالم کی تاریخ میں جو تحریف کی ہوئی ہے اس کو چھاننا اور پھر عالم انسانیت کو ٹھوس مادی بنیادوں پر باہم یکساں اور برابری پر مشتمل حکمت عملی کو اپنانے کی دعوت دینا لگ بھگ ناممکن بنا دیا جاچکا ہے۔ جس میں یہ مادی نظریات اور ان کی ایجادات قابل ذکر نکات ہیں۔ جب کہ معروضی طور پر ان ہی جدید مادی نظریات اور ایجادات کے دم پر استعماری قوم نے پہلے سے ہی لگ بھگ تمام مادی وسائل اپنے زیر تسلط کیے ہوئے ہیں۔
اجتماعی مقصود: آج جو انسان انفرادی یا قومی سطح پر اپنے سرمایے سے اپنے ذاتی مادی مفادات کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے تحفظ فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ استعماری قوت کی اصطلاح کے زمرے میں آتا ہے۔ اس ضمن میں ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر بننے والے ملک اسرائیل اور یہودی قومیت کو سرفہرست رکھا جائے تو شاید کسی کی وسیع النظری کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔
اس لحاظ سے امریکا، یورپ اور ان کے مادی نظریات کی عملی تصویر بنی ریاستوں اور قومیتوں کے بعد انفرادی طور پر ان انسانوں کو بھی شمار کرسکتے ہیں جو اپنے مادی مفاد اور برتری کی خاطر دیگر انسانوں کو کچلنے کی کوششوں میں ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
مزیدار پہلو کہ ایسے افراد میں ہم ان کو شامل نہیں کرسکتے جو ان مادی نظریات کی روشنی میں ترتیب دیے گئے درسی نصاب کے ماہر نہ ہوں۔ اور نہ ایسی کسی ریاست کا حوالہ درج کرسکتے ہیں کہ جب تک ان کے اداروں کا تمام تر انحصار غیر ملکی قرضوں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ٹیکسز پر نہ ہو۔ کیونکہ یورپ کے کسی دیوتا کے بجائے نوخیز قومی تشخص اور جدید مادی ذرائع (اسلحہ) کے دم پر حاصل ہونے والی فتوحات کی صدیوں کے دوران کرۂ ارض کے مختلف حصوں میں نئی قومیتوں اور ریاستوں کو معرض وجود میں بھی اسی لیے لایا گیا تاکہ استعماری قومیت کے لیے مفتوحہ خطوں میں ان معاشی فوائد کو تنہا حاصل کیا جانا ممکن بن سکے، جن میں یورپی ممالک اور قومیتیں ان کی حصہ دار تھیں۔
اس ضمن میں ہم جدید امریکی قومی تشخص کے قیام کو گنوا سکتے ہیں کہ جو آج اپنی ترقی پسندی اور وسیع النظری کے عملی اظہار کے لیے گدھے پر سوار امریکی جمہوریت پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بوجھ لاد چکے ہیں۔ جس کی روشنی میں ممالک عالم کے مقدس منصوبوں پر وہ لیکس زدہ حضرات براجمان دیکھے جانے ممکن ہوئے ہیں کہ جنھوں نے سرمایہ کاری اور پرائیویٹائزیشن کے نام کی آڑ میں ریاستی وسائل اور قومی تشخص کو استعماریت کے آگے سر بسجود کرنے میں اپنے مفادات حاصل کیے ہوئے ہیں۔
حیرت انگیز پہلو تو ملاحظہ فرمائیے کہ ان ''حضرات'' کی لوٹ کی رقم کو گردشی حرکت دیے رکھنے کی ذمے داریاں بھی اسی استعماری قوتوں سے متعلق انسانوں کے کاندھوں پر دکھائی دی جانے لگی ہیں کہ جن قوتوں کو انھوں نے ریاستی وسائل بیچ کر ریاستوں کو ان قوتوں کے سامنے اور زیادہ خم زدہ کرنے کا نیک کام جمہوریت پسندی کے جذبے سے سرانجام دیا ہوا ہے۔
اس قسم کے سیاق وسباق میں ان مادی استعماری نظریات کی جدید تشریحات و ثانوی حیثیت سے ایجادات پر توجہ دینے کے ساتھ اقوام عالم کے اہل نظر حضرات پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ کو عالم انسانیت کے یکساں طور رائج ترجیحات وترغیبات کو تحریف سے پاک کرکے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
تاریخ کے طالب علم کے لیے تو اس میں عالم انسانیت کے مربوط و منقسم مشترکہ ارتقائی مرحلوں کے آئینے میں حالات کا جائزہ لینے کی سہولت موجود ہے، یعنی موجودہ استعماری قوم کی تاریخی فکری ترجیحات اور ترغیبات کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور عالم انسانیت سے متعلق اقوام عالم کی تاریخ کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر حتمی نتائج کا وزن کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس قوم کے اسلاف کے نظریات کی مدد سے عالمی نظام تمدن، انتظام معاشرت اور حیات کائنات کی بابت ٹھوس عقلی ومادی بنیادیں رکھنے والے ناقابل تردید تاریخی ثبوت پیں جن کے دم پر غیر متبدل مقصود حیات حاصل کیا جانا بہت ہی آسان ہے۔