ستر برس کی داستان
پاکستان کو اگر ایک مستحکم ملک بنانے کی خواہش ہے، تو پارلیمان کی بالادست حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
آج قیام پاکستان کو 70 برس ہوگئے۔ یوں 69 ویں سالگرہ ہے۔ ان ستر برسوں کے دوران بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ ملک کئی بحرانوں اور سقوط ڈھاکا کے بڑے سانحے سے دوچار ہوچکا ہے۔چار آمریتیں مجموعی طور پر 32 برس اس ملک پر مسلط رہیں۔
لیاقت علی خان سے میاں نواز شریف تک سوائے ذوالفقار علی بھٹو کوئی بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔ بھٹو مرحوم کو بھی دوسری مدت مکمل کرنے اور اقتدار اگلے وزیراعظم کو سونپنے کی حسرت ہی رہی۔ بلکہ انھیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم کو جلسہ عام کے دوران جب کہ 11 ویں وزیراعظم کو جلسہ عام کے بعد راولپنڈی میں شہید کیا گیا۔ باقی وزرائے اعظم کو یا تو برطرف کیا گیا یا انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔
ستر برس گزر گئے، یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس ملک کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ اس کی سمت اور طرز حکمرانی کیا ہوگی؟ ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے ابہام آج بھی جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی انتشار پیچیدہ تر ہوچکا ہے۔ اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا روز اول ہی سے پیدا ہوگئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیاستدان ریاست کے منطقی جواز اور نظم حکمرانی کے بارے میں متضاد تصورات کے حامل تھے۔ جب کہ بیوروکریسی کے نئے ملک کے بارے ابتدا ہی سے مخصوص ڈیزائنز تھے۔
یوں ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان عدم اتفاق اور عدم اعتماد نے مستحکم حکمرانی کے تصور کو بری طرح متاثر کیا۔ نتیجتاً منتخب سویلین حکومتیں ہوں یا آمریتیں، کوئی بھی ملک میں اچھی حکمرانی کی مثال قائم نہیں کرسکیں۔ اداروں کے درمیان اقتدار واختیار کی کشمکش نے بدترین حکمرانی کو جنم دیا۔ جس کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی عام ہوئی اور قرضوں کے بوجھ میں بے بہا اضافہ ہوا۔
اگر دو قومی نظریے، قرارداد لاہور اور قیام پاکستان کے بعد نظم حکمرانی کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا جائے، تو تضادات واضح ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔ دو قومی نظریہ کے مطابق برٹش انڈیا میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد تھیں۔ اب اگر اس نظریے کے مطابق بھارت کو تقسیم کرنا مقصود تھا، تو 1941 کی مردم شماری کی بنیاد پر برٹش انڈیا کے کل رقبہ کو دونوں کمیونٹیز کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کیا جانا چاہیے تھا، یعنی تمام مسلمانوں کو شمال مغرب یا شمال مشرقی حصے میں منتقل کرکے ریاست قائم کی جاتی۔ لہٰذا قرارداد لاہور کا اگر علمی بنیادوں پر جائزہ لیں تو یہ دو قومی نظریہ سے متصادم تھی۔ کیونکہ اس قرارداد کے مطابق مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قرارداد لاہور کی بنیاد پر جو تقسیم ہوئی، اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل غارت گری اور نقل مکانی ہوئی۔ قتل و غارت گری کے باوجود مسلم اقلیتی صوبوں سے مسلمانوں کی مکمل نقل مکانی نہیں ہوئی، بلکہ ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں رہ گئی۔ اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ ستر برسوں سے تقسیم ہند کی سزا مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان بھگت رہے ہیں۔ جو وہاں رہ گئے، ان کی حب الوطنی پر وہاں انگشت نمائی ہوتی ہے اور انھیں پاکستان کا ایجنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ جو یہاں آگئے، ان کی تیسری نسل کو بھی قبولیت نہیں مل رہی۔ انھیں بھارت کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ جو لوگ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں، ان کے بزرگوں کا اس ملک کے قیام میں رتی برابر بھی کوئی کردار نہیں رہا ہے۔ جب کہ ان لوگوں کو غدار قرار دیا جارہا ہے، جن کے بزرگوں کی کاوشوں کے بغیر اس ملک کا قیام ممکن ہی نہیں تھا۔
صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم Indian Independence Act 1947 کے تحت عمل میں لائی گئی۔ اس قانون سے قبل 1946 کے انتخابات میں صوبوں سے رائے لی گئی کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس مملکت کا حصہ بننا پسند کریں گے۔ سندھ، بنگال اور پنجاب کی اسمبلیوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ خیبر پختونخوا (سابقہNWFP) اسمبلی نے پاکستان میں شمولیت کی مخالفت کی، اس لیے وہاں ریفرنڈم کرایا گیا۔ بلوچستان برٹش بلوچستان اور قلات ریاست میں منقسم اور ایک کمشنری تھا۔ بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت قائداعظم اور خان آف قلات کے درمیان فروری 1948 میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں ہوسکی۔
جس قانون کے ذریعے اور اسمبلیوں کے جس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا، اس کی رو سے پاکستان کو ایک وفاقی جمہوریہ بننا تھا۔ کیونکہ برٹش انڈیا کی وہ ریاستیں، جنھوں نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا، دراصل اپنی آزادی کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ریاستیں اپنی زبان اور تہذیبی ورثے کے ساتھ اپنے داخلی امور خود چلانے کی خواہش میں نئی مملکت کا حصہ بنی تھیں۔
سندھ اور بنگال نے مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والوں کو خوش آمدید ضرور کہا، مگر اس کا مقصد اپنی زبان اور ثقافت کی قربانی نہیں تھا۔ مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والوں کا سب سے زیادہ بوجھ سندھ کو برداشت کرنا پڑا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کے دیگر حصوں سے نقل مکانی کرنے والوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ جس سے اس کی Demography بری طرح متاثر ہوئی اور مسلسل ہورہی ہے۔ جب کہ پنجاب کا معاملہ مختلف ہے۔ وہاں نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کا ثقافتی اور لسانی پس منظر ایک ہی ہے۔
دراصل آل انڈیا مسلم لیگ، تہذیبی نرگسیت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قومی تشخص اور ثقافتی شناخت کی نزاکتوں کو یا تو سمجھ نہیں سکی یا دانستہ نظر انداز کیا۔ اسی طرح اس نے ہجرت کے پہلو کو بھی نظر انداز کیا۔ جس کی وجہ سے اس معاملہ کو طے کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ہوم ورک نہیں کیا جاسکا۔ شاید آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ یقین نہیں تھا کہ برٹش انڈیا تقسیم ہوگا اور اسے مملکت مل جائے گی۔ اگر اس کی پوری جدوجہد پر نظر دوڑائیں، تو اس کا مطمع نظر ہندوستانی کنفڈریشن کے اندر رہتے ہوئے مسلم اکثریتی صوبوں میں بااختیار حکومت کا قیام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نئی مملکت کے لیے نظم حکمرانی کا کوئی بلیو پرنٹ تیار نہیں ہوسکا۔
سیاستدانوں میں تہذیبی نرگسیت، بیوروکریسی کے مخصوص ڈیزائنز اور عوام کی فلاحی ریاست کی خواہشات روزاول ہی سے ایک دوسرے سے متصادم چلی آرہی ہیں۔ بیوروکریسی منصوبہ سازی کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی خاطر پارلیمان کو کمزور رکھنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ سیاسی جماعتوں میں فیوڈل اور برادری کلچر اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اسٹبلشمنٹ فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خواہش میں پارلیمان کو کمزور اور غیر فعال رکھنا چاہتی ہے۔
اس کے برعکس متوشش تعلیم یافتہ عوام ملک میں شراکتی جمہوریت چاہتے ہیں۔ یوں ستر برس سے سہ فریقی فکری تصادم جاری ہے۔ عوام کی اکثریت ناخواندہ ہونے کی وجہ سے قبائلیت، برادری اور جاگیردارانہ کلچر کے شکنجوں میں جکڑی ہونے کے باعث علاقے کے بااثر افراد کی سیاسی بالادستی قبول کرنے پر مجبور ہے۔ یہ وہ طرز عمل ہیں، جو جمہوریت اور جمہوری اقدار کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو اگر ایک مستحکم ملک بنانے کی خواہش ہے، تو پارلیمان کی بالادست حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ شراکتی جمہوریت کو فروغ دینا ہوگا۔ اقتدار و اختیار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں، ریاستی ادارے، اہل دانش اور متوشش شہری یہ طے کرلیں کہ کسی بھی قیمت ماورائے آئین اقدامات نہ کیے جائیں گے اور نہ ان کی حمایت کی جائے گی۔