محبت ایک لافانی جذبہ
محبت کا چراغ انسان کے اندر جل رہا ہے اس کا عکس روشنی کی صورت زندگی میں ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔
موسم بہار تبدیلی کی علامت ہے، بہار کی تازگی ذہن و روح کے بند دریچے سرسبز موسموں کی طرف کھول دیتی ہے، بہار کے ان مہکتے دنوں میں دنیا میں ہر طرف ویلنٹائن ڈے کا دن منایا جاتا ہے، رومن بہار کو زرخیزی اور پاکیزگی کی علامت سمجھتے ہیں، جو سردیوں کی بوجھل اداسی کو سورج کی کرنوں سے متحرک کر دیتی ہے، شاعر کو بھی جذبے بہار کے رنگوں کے سے دکھائی دیتے ہیں، جس طرح بہار کا موسم خزاں رسیدہ ٹہنیوں کو چھو کر انھیں ہرا بھرا کر دیتا ہے اسی طرح محبت زندگی کے بے جان منظر میں احساس کے رنگ بھر دیتی ہے، سندھ میں یہ روایت تھی کہ بہار کی پہلی دستک پر میراثی دروازوں پر جا کر ساز بجاتے اور پھول بانٹ کر خیرات مانگتے اور لوگ انھیں دل کھول کر عطا کرتے۔ سندھ کے معروف شاعر شیخ ایاز نے بھی عشق کو ایک مالی کے روپ سے تشبیہ دی ہے جو اپنی جھولی پھولوں سے بھر کر آیا ہے۔
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ میٹیریلسٹک کنزیومرسٹک کلچر کے زیر اہتمام بدل چکی ہے، جہاں چیزیں خریدی اور استعمال کی جاتی ہیں، وہاں محبت بھی غرض اور خواہش پرستی کا شکار ہوتی جا رہی ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ دور بدل جاتے ہیں، مگر محبت کی روح وہی رہتی ہے، فقط طبعی دنیا تبدیلی کے زیر اثر رہتی ہے۔ جھوٹی، خود غرض اور سطحی محبت کر کے انسان کے اندر کا خلا اور بھی گہرا ہونے لگتا ہے۔ گہری، سچی اور سمندروں جیسی محبت ذات کا عرفان عطا کرتی ہے۔ صوفی جب وجود کے ورق کو دھوکر صاف کرتا ہے تو وہ من کے شفاف آئینے میں محبوب کا عکس صاف دیکھ سکتا ہے۔ اس خیال کے خالق حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی درحقیقت محبت کے شاعر ہیں۔ جن کی شاعری محبت کے لافانی جذبے کے اردگرد گھومتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں محبت کا ہنر درخت سے سیکھو، جو دھوپ کی سختیاں جھیل کر چھاؤں دیتا ہے، موسم کی ہر سختی کے جواب میں پھل، پھول اور چھایا بانٹتا ہے۔ محبت نبھانا درحقیقت آزمائش طلب مرحلہ ہے، انسان اپنی ذات کی محبت میں گم رہتا ہے، فقط اپنی انا کے گن گاتا ہے، انا محبت کی نفی ہے۔ شاہ لطیف کے پاس محبت پانے سے زیادہ کھونے کا نام ہے۔ پا کے کھو دینے سے بہتر ہے کہ انسان لاحاصل محبت کو فقط کھوجتا ہی رہے۔ اس تلاش میں وہ وجود کو دریافت کرنے کے ساتھ کائنات کے رموز و اسرار سے بھی بہرہ ور ہوتا رہے گا۔
جستجو، اضطراب، سوز دروںجز محبت یہ زندگی کیا ہے
بحر ہستی سے سیر نہ ہو سکیکون جانے یہ تشنگی کیا ہے
انگریزی کے شاعروں میں ولیم ورڈز ورتھ، ولیم بلیک اور جان ڈن صوفیانہ شاعر ہیں جو روحانیت کی مختلف منزلوں کو طے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان شاعروں میں جان ڈن منفرد لہجے کے حامل نظر آتے ہیں، جو مابعد الطبیعاتی مکتبہ فکر کے حامل شعراء میں محبت کے جذبے کے منفرد اظہار کے حوالے سے بہت مقبول ہیں۔ ان کی شاعری مجاز سے عشق حقیقی کی طرف مختلف مراحل طے کرتی ملے گی، اپنی شعرہ آفاق نظم "The Ecstasy" میں جان ڈن کہتے ہیں۔
پیار کے اسرار روح میں پھلتے پھولتے ہیں
پھر بھی جسم ہی ان کا محور ہے
جان ڈن جسم کو ایک دروازے کی مانند سمجھتے ہیں، جس کے ذریعے انسان روح کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ جان ڈن پلیٹونک آئیڈیلزم کی نفی کرتا ہے، جس میں فقط روحانی محبت کا تذکرہ ملتا ہے، شاہ لطیف کی شاعری میں جسم کی اہمیت سراب کی سی ہے۔ وہ محبوب کو روح کی پیاس میں پرکھتے ہیں۔ ہجر ان کے ذہن میں حائل ہر دور کی دیوار گرا دیتا ہے۔ جدائی نظر کا دھوکا لگتی ہے۔ شاہ لطیف کی شاعری میں عورت ایک مقدس ہستی ہے، جس کی قوت برداشت، احساس کی نزاکت، دکھ بانٹنے کی صلاحیت اور محبت کی شدت قابل ستائش ہیں۔ عورت کے تصور کی بلندی، ادراک اور احساس کی قوت کو شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں جابجا سراہا ہے۔ شاہ صاحب کی شاعری کا محور یہ عورت جان ڈن کی عورت کی طرح کمزور اور خواہش پرستی کا شکار ہے، ایک عام کردار نہیں بلکہ جو دکھ کے ورثے کو اعزاز بنا کر جیتی ہے۔ بقول شاہ بھٹائی کہ ایک ٹوٹا ہوا دل ہی جستجو کے سفر کو نکلتا ہے۔ لہٰذا عورت کے پاس دکھ جھیلنے اور برتنے کا جو سلیقہ موجود ہے، اسے دنیا کا کوئی اور شاعر بیان نہیں کر پایا۔
شاہ صاحب انسان کی فطرت کے تغیر سے بخوبی واقف ہیں کہ حاصل چیزوں کو غیر اہم جان کر وہ لاحاصل دنیا کے پیچھے شدت سے بھاگتا رہتا ہے اور ایک مغالطے کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ صدا اور بازگشت صدا
اصل دونوں کی ایک ہی ہے
اپنی آواز کی دوئی پہ نہ جا
کہ سماعت فریب دیتی ہے
شاہ صاحب انسان کو خود فریبی سے نکلنے کا درس دیتے ہیں۔ اپنے ایک اور شعر میں محبت کی اس دریا کی مانند مثال دیتے ہیں، جو اپنا پانی ہر طرف بانٹتا رہتا ہے، اوروں کی زمین کو سیراب کرتا رہتا ہے، جب کہ اس کے کناروں پر کھلنے والے پودے مرجھا جاتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ شعر دور جدید کے اس انسان کی منافقت کی عکاسی کرتا ہے جس نے اپنے گھر اور قریبی رشتوں کو نظر انداز کر دیا ہے، جو دل کے قریب ہیں وہ محروم تمنا کہلائے اور جو منظور نظر ہیں درحقیقت وہی نوازے جاتے ہیں۔ شاہ لطیف محبت کو جسم، دل و روح کی اکائی سمجھتے ہیں۔
جس کے جلوئوں کے ہم شیدائی ہیں
خود ہمی میں وہ جلوہ آرا ہے
جان ڈن کو بھی یہی خود شناسی خدا شناسی کی طرف لے جاتی ہے، جہاں اسے کوئی دوسرا نہیں بلکہ فقط خدا کی ذات بے کراں دکھائی دیتی ہے اور محبت کی دائمی جڑ سے شاعر کی روح کے تار جڑے ہیں۔
شاہ صاحب جذبوں کو تتلیوں، استعارات اور تشبیہات کے ذریعے خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ مظاہر فطرت سے لی گئیں مثالیں جذبوں کو امر کر دیتی ہیں۔ جیسے کنول کی جڑیں پاتال میں ہیں اور آکاس میں بھنورے منڈلا رہے ہیں۔ محبت کی شدت سے جسم میں پھیلی ہوئی نسیں رباب کی طرح بجنے لگتی ہیں۔ جان ڈن میں بھی یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے، جو انگریزی کے کسی اور شاعر میں نہیں۔ جان ڈن محبوب کے آنسوؤں کو چاند سے تشبیہ دیتا ہے جو سمندر (طالب) کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور محبوب کو یکسوئی کے ساتھ دیکھتے پلکوں کی جنبش اسے سورج گرہن دکھائی دیتی ہے۔ ڈن کے لیے محبت دوا کی طرح کیمیائی مرکب ہے جو لفاظی یا دعووں کے بجائے برداشت، سچائی و قربانی کے مرکبات سے ترتیب پا کر شفا کا ہنر رکھتی ہے۔ دوسری جانب شاہ صاحب سمندر کو وحدت اور لہروں کو کثرت کے روپ میں دیکھتے ہیں کہ جس محبت کا چراغ انسان کے اندر جل رہا ہے اس کا عکس روشنی کی صورت زندگی میں ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔