میاں صاحب کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا
میاں صاحب اگر خاموش بیٹھ کر سب کچھ مان لیتے تو وہ اُن کے اور اُن کی پارٹی کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتا۔
پاناما کیس کا فیصلہ جس میں آف شورکمپنیز یا لندن میں خریدے گئے چار فلیٹوں کی بجائے دبئی کی ایک فرم کے اقامے کو اپنے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے جر م کی پاداش میں جو سزاسنائی گئی، اُس کے بعد میاں صاحب نے عدالت عالیہ کے اُس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ جو ردعمل کااظہارکیا ہے اُن کی جگہ کوئی اور سیاسی لیڈر ہوتا تو وہ بھی شاید ایسا ہی کچھ کرتا۔
میاں صاحب سے عوام کی ایک کثیر تعداد دلی محبت رکھتی ہے ۔ اُنھوں نے اپنے دل کا غباردورکرنے کے لیے فیصلے پر جواعتراضات اُٹھائے ہیں وہ کچھ خلاف توقع بھی نہیں ہیں۔ اُنھیں اس ملک کے عوام نے تین بار وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ منفرد خصوصیت ہمارے کسی دوسرے رہنما کو حاصل نہیں ہے۔
میاں صاحب اگر خاموش بیٹھ کر سب کچھ مان لیتے تو وہ اُن کے اور اُن کی پارٹی کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتا۔ رہ گیا سوال اداروں کے تقدس کا تو ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ماضی میں بھی اداروں پر رکیک حملے کیے گئے۔ ماضی میںہماری معزز عدالتوں کو ''کینگرو عدالتیں'' اور اُن کے فیصلوں کو '' چمک والے فیصلے'' کہا جاتا رہا مگر کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا، جب کہ میاں صاحب نے تو اپنی عدالتوں کے خلاف ایسے سخت الفاظ ابھی تک استعمال بھی نہیں کیے ہیں۔ وہ بس عدالتوں کے حالیہ فیصلوں پر اپنی تشویش کا اظہارکررہے ہیں۔
عوام جو اپنے لیڈرکو پانچ سال کے لیے منتخب کرتے ہیں اُن کے ووٹ اور مینڈیٹ کوپامال نہ کیاجائے۔ آئین و دستور میں رہتے ہوئے ہم سب پرلازم ہے کہ ہم ایک دوسرے کا اُسی طرح احترام کریں جس طرح ہم خود اپنے لیے احترام اوروقار چاہتے ہیں۔
میاں صاحب نے جب اسلام آباد سے لاہورکا سفر براستہ جی ٹی روڈ شروع کیا تو ہمارے یہاں بہت سے لوگوں کو اُس پر اعتراض ہونے لگا۔ وہ کہنے لگے کہ میاں صاحب یہ سب کچھ کیوں کررہے ہیں، وہ کس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ اداروں کو لڑا رہے ہیں۔ وہ ہماری عدلیہ کی توہین کررہے ہیں۔ وہ ملک میں انتشار پیداکررہے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو جلسے کرنا اور جلوس نکالنا اُن کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا۔جب انتخابی دھاندلی کے بے بنیاد الزام پر ڈی چوک پر دھرنا دیاگیا اور سارے ملک کو 126دنوں تک یرغمال بناکر رکھ دیا گیا تو اُن کے لیے سب کچھ جائز اورقانونی تھا۔ لیکن اگر میاں صاحب اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ایک پر امن ریلی نکالیں تو یہ ملک اور قوم کے خلاف تصور کیاجائے۔
میاں صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام میں بلا تامل اور ایک لمحے کی تاخیرکیے بنا فوراً اپنا عہدہ چھوڑ دیا ۔وہ اسلام آباد سے لاہور اپنے گھر جاتے ہوئے اگر موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ کا انتخاب کریں تواِس میں حرج ہی کیا تھا۔ہماری قومی سیاست میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ کوئی ٹرین مارچ کرتا ہے تو کوئی سڑک کے راستے عوام میں جانا پسند کرتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایوب کابینہ چھوڑنے کے بعد فوراً دوسرے ہی روز عوام میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ خود خان صاحب گزشتہ چار سالوں سے یہی کچھ کرتے آئے ہیں۔ اُنھوں نے تو پارلیمنٹ سے زیادہ سڑکوں کی سیاست کو اپنا شوق بنایا ہوا ہے ۔ وہ اوراُن کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ اگر عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنا ہے تو سڑکوں پر ہی رہ کر سیاست کرنا ہوگی اور دیکھا جائے تو اُن کا یہ حربہ بہت کامیاب رہا ہے۔ سڑکوں کی سیاست کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح وہ ہمارے میڈیاکی کوریج کا بہت بڑا حصہ بن جاتے ہیں ۔ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی شاید اُسی لیڈرکو زیادہ اہمیت اور وقعت دیتا ہے جو احتجاج اوراشتعال انگیزی کی سیاست کا امین اور علمبردار ہو۔
میاں صاحب کے پاس اب اس کے سوا دوسرا آپشن ہی نہیں تھا۔وہ اگر خاموشی کے ساتھ اپنے گھر جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور عدالتوں کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کرلیتے ہیں تو یہ اُن کی تیس سالہ سیاست کے خاتمے کا بموجب بنے گا اور اپوزیشن اسے اپنی فتح اور کامرانی تصور کرے گی۔ اُن کے چاہنے والوں میں مایوسی پھیلے گی اور اُن کی جماعت شیرازہ بندی کاشکار ہوجائے گی۔
اِسی لیے سیاست کے سنہری اصولوں اور جمہوری تقاضوں کے پیش نظر اُن کا یہ فیصلہ درست اور صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملنے والی عوامی ہمدردی اور پذیرائی کورائیگاں جانے نہ دیںاورجمہوریت دشمن قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر میدان میں اُتر آئیں۔وطن عزیز میں ستر سالو ں سے جمہوریت کے ساتھ جو مذاق اورکھلواڑ ہورہا ہے اُس کے سدباب کے لیے اب کسی کو تو ابتدا کرنا ہوگی۔ یہ فریضہ ادا کرنے میں اگر میاں صاحب کی جان بھی چلی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو آج بھی لوگ کیوں اچھے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔اُنھوں نے آمرانہ قوتوں سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے سولی پر چڑھ جانا پسند کیا اور امر ہوگئے۔ زندگی تو ویسے بھی ہمیشہ رہنے والی چیزنہیں ہے اور موت تو بہر حال بر حق اور ناگزیر ہے۔ پھر کیوں نہ اُسے کسی اچھے اور اعلیٰ مقاصد کے لیے قربان کردی جائے۔
رہ گیا سوال کرپشن کے سدباب کا تو کیا اکیلے میاں صاحب کو اقتدار سے بیدخل کردینے سے اِس ملک میں کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوپائے گا۔یہاں توابھی بہت سی بڑی بڑی مچھلیاں باقی ہیں اُن پر کب ہاتھ ڈالا جائے گا۔احتساب کے نام پر شروع کیا جانے والا یہ سلسلہ اگر میاں صاحب سے شروع ہوکر میاں صاحب پر ہی ختم ہوجائے گا توہمارے لوگوں کے اُن تحفظات اورخدشات کو ضرور تقویت ملے گی کہ اس سارے معاملے کے پس پردہ محرکا ت کچھ اور تھے۔ پاناما کیس تو ایک بہانہ تھا۔ویسے بھی پاناما سے شروع کی جانے والی ساری کہانی کا نتیجہ صرف ایک شخص کی نااہلی تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
تقریباً پانچ سو افراد میں سے صرف ایک ہی شخص ایسا ملا جس کے خلاف نہ صرف جے آئی ٹی بنائی گئی بلکہ کسی پوچھ گچھ اور جرح کے بغیرایک ایسے جرم کی پاداش میں سزا سنادی گئی جو پاناما کیس میں سرے سے شامل ہی نہ تھا۔ قانون کے ماہرین کی نظر میں ہمارے معزز ججوںنے عدلیہ کی تاریخ کا ایک ایسا کمزورفیصلہ سنایا ہے جسے اُن کے دعوؤں کے مطابق برسوں یاد تو ضرور رکھاجائے گا لیکن اُسے آیندہ کسی دوسرے مقدمے میں مثال بنانے میں ہمارے وکلا کونہ صرف مشکلیں درپیش ہونگی بلکہ شاید خفت اور پشیمانی کا بھی سامنا ہوگا۔
میاں صاحب نے ابھی تک کسی ادارے کے خلاف غیر شائستہ اور توہین آمیزبیان بازی کی ہی نہیں ہے۔وہ تو ابھی تک یہی گلا کررہے ہیں کہ اُنھیں کس جرم کی پاداش میں فارغ کردیا گیا ہے۔ایک ایسی جاب کا اقامہ رکھنے کی جس کی اُنھوں نے کوئی تنخواہ تک نہیں لی۔اُنھوں نے اسلام آباد سے لاہور تک ریلی میں نہ جلاؤ گھیراؤ کی بات کی ہے اور نہ مارنے مرجانے کی۔ اُن کی ریلی ہر شہر اور ہر قصبے میں پر امن تھی ۔وہاں نہ کوئی گملا ٹوٹا اور نہ کوئی ٹائر جلا۔کسی نے نہ کوئی گالی دی اورنہ کسی نے کوئی نازیبا حرکت کی۔
میاں صاحب کسی ممکنہ ٹکراؤ اور انتشار و خلفشار سے گریز کرتے ہوئے بس اپنے کارکنوں سے ساتھ نبھانے کا وعدہ لیتے رہے۔ ہم یہاں یہ بات دعویٰ کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ میاں صاحب کی جگہ اتنی مقبولیت رکھنے والا آج اگرکوئی اورسیاسی لیڈر ہوتا تو شاید وہ اتنے صبر وضبط کا مظاہرہ نہ کرپاتا بلکہ احتجاج اور انتشار کے ذریعے سارے ملک کا امن وسکون تہس نہس کر ڈالتا۔