وفاقی وزیروں سے بھرا ضلع اور اُن کی کارکردگی
ایک وفاقی وزیر کے ٹوٹل ماہانہ اخراجات تین لاکھ روپے بنتے ہیں اور یہ اخراجات کچھ بھی زیادہ نہیں ہیں۔
جناب شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنے 18دن ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عباسی صاحب اب بھی اپنے رہبر جناب نواز شریف کو ''وزیر اعظم'' ہی کہہ کر پکارتے اور یاد کرتے ہیں۔کوئی وفا نبھائے تو یوں نبھائے۔ شاہد خاقان صاحب نے اپنی کابینہ میں کچھ نئے چہروں کا اضافہ بھی کیا ہے۔ یوں وفاقی وزیروں ، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تعداد 53ہوچکی ہے۔
وزیر اعظم عباسی کا اِس ضمن میں ارشاد ہے کہ ''مَیں ایک ناتجربہ کار وزیر اعظم ہُوں، اس لیے محکمے زیادہ ہونے کے کارن وزیروں کی تعداد بھی زیادہ کی ہے تاکہ کام کی تقسیم میں آسانی کے ساتھ ساتھ کام کی رفتار میں بھی اضافہ ہو۔''بظاہر یہ دلیل بے بنیاد اور بے وزن نہیں لگتی۔ وفاقی وزرا کی بھاری بھر کم تعداد کے مگر خرچے کون اٹھائے گا؟
وزیر اعظم عباسی صاحب نے ایک انٹرویو میں اِس سوال کا سادہ اسلوب میں یوں جواب دیا ہے:'' یہ خرچے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ تنخواہ اور دیگر سرکاری مراعات ،مل ملا کر ایک وفاقی وزیر کے ٹوٹل ماہانہ اخراجات تین لاکھ روپے بنتے ہیں اور یہ اخراجات کچھ بھی زیادہ نہیں ہیں۔'' اِس حساب سے جناب شاہد خاقان عباسی کے 53 وزرا صاحبان اگلے 9مہینوں کے دوران (اگر اللہ کے فضل سے یہ حکومت یونہی خوبصورتی سے چلتی رہی) چودہ کروڑ روپے کی تنخواہیں اور سرکاری مراعات پائیں گے۔
پاکستان ایسے ''امیر اور خالص جمہوری'' ملک میں اگر نو ماہ کے دوران وزرا پر14 کروڑ روپے کی ''حقیر'' سی رقم خرچ ہو بھی جائے تو بھلا کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا؟ بعض نئے وزرا کو اپنی پسند کی وزارت نہ ملی تو مبینہ طور پر وہ وزیر ساز قوتوں سے رُس گئے۔ ہمارے نئے وزیر اعظم کی مگر عظمت یہ ہے کہ انھوں نے ان ناراض دوستوں کو نہ صرف منایا بلکہ انھیں اچھی اور ''پوری '' وزارت سے نوازا بھی ہے۔
ملکہ کوہسار، مری ، کے رہائشی وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے یوں تو تقریباً سارے ملک ہی سے چنیدہ اور دیدہ وَر افراد کو اپنی کابینہ کا حصہ بنا کر ''شاندار یکجہتی'' کا مظاہرہ کیا ہے لیکن سیالکوٹ کا خطہ وہ خوش بخت سرزمین ہے جہاں سے نسبتاً زیادہ وزیروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔خواجہ آصف ، زاہد حامد، احسن اقبال اور دانیال عزیز مثال بن گئے ہیں۔ یوں ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت علامہ اقبال کی جنم بھومی، سیالکوٹ،واقعی ایک مردم خیز خطہ ہے۔
احسن اقبال صاحب اور دانیال عزیز صاحب اگرچہ ضلع نارووال سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ ضلع سیالکوٹ سے اس لیے بھی جدا نہیں ہے کہ نارووال نے ضلع سیالکوٹ ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔ خواجہ آصف صاحب کو وزیر خارجہ کا قلمدان سپرد کر کے وزیر اعظم عباسی صاحب نے حجت اور ایک بڑا مطالبہ پورا کرکے بہت سے بولتے لبوں کو خاموش کر دیا ہے جو گذشتہ چار برسوں سے (سابق) وزیر اعظم پر مسلسل برس رہے تھے کہ میاں صاحب نے وزارتِ خارجہ بھی اپنی گرفت میں کیوں لے رکھی ہے؟ اب اِس نئے تقرر سے شائد قومی سطح پر افاقہ ہے ۔
سیالکوٹ میں خواجہ صاحب کو پی ٹی آئی کے عثمان ڈار صاحب اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی گرجتی توپوں کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر فردوس تو خواجہ صاحب کے سامنے الزامات کی تیغِ برّاں لہراتی نظر آرہی ہیں۔اُن سے دو دو ہاتھ کر کے ہی وہ شائد اپنے نئے اور اصل میدان، خارجہ محاذ، میں درپیش مسائل سے نمٹ سکیں گے۔تب تک تو شائد بہت دیر ہو جائے کہ بیرونی دشمن ہم پر چڑھے آتے ہیں۔
ہم تو یہ توقع بجا طور پر لگائے ہُوئے ہیں کہ خوش لباس اور ''خوش اطوار'' خواجہ آصف صاحب جس طور اسمبلی میں اپنی حریف ڈاکٹر شیریں مزاری کے مقابل آتے ہیں، کم ازکم اِسی لہجے میں وہ اپنی بھارتی ہم منصب، سشما سوراج، کے مقابل بھی آسکیںگے۔ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور سے تعلق رکھنے اور منتخب ہونے والے زاہد حامد صاحب بھی عباسی صاحب کی کابینہ میں وزیر قانون ہیں۔
وہ سابق سینئر فوجی افسر اور سفارتکار( بریگیڈئر حامد نواز) کے صاحبزادے اور سابق گورنر پنجاب ( شاہدحامد) کے بھائی ہیں۔ کیمرج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ، صنعتکار اور قانون دان بھی۔ سیاست، قانون، سفارتکاری اور فوج سے واقفیت کا درس انھوں نے گھر سے لیا۔ فوج سے خاندانی تعلق ہی شائد انھیں جنرل مشرف کے اقتدار کے نزدیک لے گیا تھا لیکن جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو انھوں نے آمریت پسندی سے توبہ کرکے جمہوریت میں پناہ لے لی۔وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھی معتمد ساتھی اور وزیر تھے کہ میاں صاحب کو بوجوہ قانون دان ساتھیوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔
اب وہ شاہد خاقان عباسی صاحب کے بھی معتمد علیہ بن چکے ہیں۔یہ ساتھ بھی امید ہے خوب نبھے گا۔اُن کے والد، پھر بھائی اور اب وہ خود اقتدار میں رہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ پسرور کی بے روزگاری، بدامنی، سڑکوں کی بدحالی اورتعلیم کے روز بروز گرتے گراف کا کوئی بھی علاج نہیں کیا جا سکا۔خواجہ آصف کے حلقے کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔طاقتوروں کو مگر ووٹر پوچھیں تو کیسے اور کیونکر؟ راقم کو ان دونوں وزرا کے انتخابی حلقوں کا تفصیلی دورہ کرنے کے کئی مواقع میسر آئے ہیں۔ وہاں زندگی دشوار اور بے وسیلہ ہے۔ اُن کے ووٹروں کے صبر کی مگر داد دینی چاہیے۔
وفاقی وزرا دانیال عزیز صاحب اور جناب احسن اقبال بھی اُسی ایک ضلع اور سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں جس عظیم مٹّی نے علامہ اقبال اور فیض احمد فیض ایسے عبقری انسانوں کو پیدا کیا۔ احسن اقبال پہلے وزیر منصوبہ بندی تھے اور انھوں نے سی پیک کے میدان میں بڑی مستحسن ، اچھی شہرت پائی۔ اپنے قائد نواز شریف سے بھی شاباش لی اور چینی قیادت نے بھی اُن کی قابلیتوں کو جانا مانا۔اُن کے ووٹر اور پورا حلقہ بھی اُن کی کارکردگی اور عوامی خدمات سے اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اِسی وجہ سے اُن کا بیٹا، احمد اقبال، نارووال ضلع کونسل کا چیئرمین منتخب ہو چکا ہے۔ اب نئے وزیر اعظم صاحب نے انھیں وزارتِ داخلہ کا قلمدان سونپا ہے۔
یہ وزارت سنبھالتے ہی جناب احسن اقبال کی پھرتیوں اور کارکردگیوں میں خاصااضافہ ہو گیا ہے۔ وہ کسی پروٹوکول کے بغیر جس طرح ملک کے تمام ہوائی اڈوں کا دورہ کررہے ہیں، سادگی سے جہازوں میں آجا رہے ہیں، ایف آئی اے کو ائر پورٹس پر سرکاری پروٹوکول نہ دینے کا حکم صادر کرکے اور 12اگست2017ء کو کوئٹہ میں خودکش دھماکا ہوتے ہی وہ جس تیزی کے ساتھ لاہور سے کوئٹہ پہنچے، ان اقدامات سے لگتا یہی ہے کہ وہ وزارتِ داخلہ میں بھی اپنی محنتوں اور کمٹمنٹ کا بھرپور نقش جمانا چاہتے ہیں ۔اُن کے ووٹر، حلقہ این اے 117میں، سڑکوں کی بدحالی کا جورونا روتے رہتے ہیں، اگر احسن اقبال صاحب ان ادھڑی سڑکوں کی طرف توجہ مبذول کر سکیں تو اُن کی مہربانی ہوگی۔
نارووال سے متصل تحصیل شکر گڑھ کے معروف رکن اسمبلی جناب دانیال عزیز کو بھی اپنی محنتوں کا پھل مل گیا ہے۔ دانیال عزیز کو بجا طور پر وزیر ابنِ وزیر کہا جا سکتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تو ہیں ہی، دوتین (سابقہ) حکومتوں میں اُن کی اعلیٰ کارکردگی نے اُن کی صلاحیتوں کو نمایاں کیا ہے۔ انھوں نے پچھلے ڈیڑھ برس کے دوران نواز شریف، پر لگنے والے متعدد الزامات اور تہمتوں کا جس تندہی اور تُندی کے ساتھ استرداد کیا ہے، فطری طور پر نواز شریف کے دل میں اُن کے لیے اچھی اور نمایاں جگہ بنی ؛چنانچہ نئے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے انھیں وزارتِ نجکاری (پرائیویٹائزشن)کا جو قلمدان سونپا ہے، بجا طور پر دانیال عزیز اس کا استحقاق رکھتے ہیں۔