انتخابی اصلاحات
اس بل کو وزیر قانون نے تاریخ بل قرار دیا ان کا فرمانا ہے کہ چالیس سال بعد جامع انتخابی اصلاحات کی جا رہی ہیں
گزشتہ تین ہفتوں سے ہم ملک کی تازہ صورتحال سے متعلق کسی نہ کسی پہلو اور زاویے پر لکھ رہے ہیں پھر ہم نے یکم یا سولہ اگست کے اخبارات پر نظر ڈالی خبریں تو لوگوں کو مختلف انداز فکر کے چینلز سے بھی مل ہی جاتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم کا عدالتی حکم پر نااہل ہونا درست ہے یا غلط یہ سب عوام کے طرز فکر پر منحصر ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں یا نہیں؟
مانا کہ ملک میں بہت ناانصافی ہے، غریب کی پہنچ حصول انصاف تک تقریباً ناممکن ہے۔ مگر کیا اس صورتحال کی ذمے داری صرف عدلیہ پر عائد کی جاسکتی ہے؟ کیا قانون بنانے والے قانون کے نفاذ کے ذمے داران کیا مجرموں کو عدالتی کٹہرے تک لانے والے اپنے اپنے فرائض مکمل طور پر انجام دے رہے ہیں۔
جن ممالک میں انصاف سب کے لیے برابر ہے وہاں کی پولیس اصل ملزم ہاتھ نہ آنے کی صورت میں کسی بھی بے گناہ کو گھر سے اٹھا کر معہ جعلی گواہان کے عدالت میں پیش نہیں کرتی۔ بہرحال ہم دوسروں سے اپنا مقابلہ کرنے کے بجائے اگر صرف اپنے گریبان میں جھانک لیں اور پھر کچھ ہوش کے ناخن لیں تو تو اپنا محاسبہ خود کرکے کچھ اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں تو ہر پاکستانی کئی عذابوں سے نجات حاصل کرلے گا، اگر تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں تو عوام میں ان کی کارکردگی کے باعث ان کا احترام ازخود پیدا ہوجائے گا.
اگر کسی ملک کی عدلیہ ہی کو متنازعہ بنادیا جائے اور وہ بھی صرف اس وقت جب معاملہ اپنا ہو۔ ورنہ تو اپنے مخالفین کے لیے یہی عدلیہ بے حد محترم مبنی برحق ہوتی ہے اپنے مخالفین کو عدلیہ کا ایک نوٹس بھی بغلیں بجانے کے لیے اہم ہوتا ہے جب کہ اپنی نااہلی پر پورے حکومتی بلکہ شاہانہ انداز میں اس محترم ادارے کے خلاف مارچ، تقاریر اور بیانات سب کچھ جائز ہے۔
اب جب ہمیں یہ احساس ہوچکا ہے کہ اب عوام مزید برداشت نہیں کریں گے تو کیوں نہ ان کے جذبات کو مثبت رخ کی طرف موڑا جائے۔ جو انقلاب آئے وہ موجودہ معنی کے بجائے پرامن، آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جس کی پوری گنجائش ہمارے آئین اور قانون دونوں میں ہے کیوں نہ آئے اور یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں عوام کو ان کے حقوق کے لیے درست رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہر ووٹر کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اس کا آئینی حق ہے یہ دوسروں کی رائے یا مرضی کے بجائے اپنی عقل و فہم کے مطابق استعمال کرنا ہے۔
ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ منشور پارٹی کی عوامی خدمات اور ان کے لیے کچھ کرنے سے متعلق ہوتا ہے، مگر جنھوں نے ایک نہیں دو تین بار برسر اقتدار رہ کر بھی کبھی اپنے منشور کی ایک شق پر بھی عمل نہ کیا ہو ان سے آیندہ توقع کرنا ایک سوراخ سے دو بار نہیں کئی بار ڈسے جانے کی اعلیٰ مثال ہی کہی جاسکتی ہے۔
چار سال بعد پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کے چیئرمین اسحق ڈار نے کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی ہے۔ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق نیا بل اسمبلی میں متعارف کرایا جائے گا یوں تو اس بل کے پندرہ ابواب ہیں مگر اس کے جو چند نکات ایوان میں بیان کیے گئے ہیں اس کے مطابق گزشتہ انتخابات سے متعلق تمام پرانے قوانین کو یکجا کرکے ایک بل بنایا گیا ہے۔ (اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان میں اصلاح کہاں تک ہوئی ہوگی؟)جو خاص خاص باتیں اس نئے بل کے بارے میں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے یہ ہیں۔
(1)۔ تمام جماعتیں عام نشستوں پر (قومی و صوبائی) پانچ فیصد نسوانی نششتوں کی پابند ہوں گی(واضح ہو کہ خواتین کی تعداد ملک میں مردوں سے زیادہ ہے)۔ (2)۔قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے اخراجات 40 لاکھ جب کہ صوبائی اسمبلی کے لیے 20 لاکھ تک ہوں گے۔ (3)۔ ووٹر لسٹ پر ووٹرز کی تصویر بھی ہوگی۔ (4)۔ قومی و صوبائی الیکشن کے لیے ایک ہی فارم ہوگا۔ (5)۔ جیتنے والے کے ووٹوں کا تناسب 5 فیصد سے کم ہوگا تو دوبارہ گنتی لازمی ہوگی۔ (6)۔ جس حلقے میں خواتین کے ووٹوں کی تعداد کل ووٹوں سے 10 فیصد کم ہوگی وہاں تحقیقات کے بعد اس پولنگ اسٹیشن یا پورے حلقے کے نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔
اس بل کو وزیر قانون نے تاریخ بل قرار دیا ان کا فرمانا ہے کہ چالیس سال بعد جامع انتخابی اصلاحات کی جا رہی ہیں یہ تھیں وہ چیدہ چیدہ اصلاحات جو اب تک منظر عام پر آسکیں۔ ہم پاکستان کے ہر شہری سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ان اصلاحات میں عوامی بالادستی کی کوئی شق ہے؟ چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ازخود یہ فرمایا ہے کہ انتخابات سے متعلق تمام پرانے قوانین کو یکجا کرکے ایک نیا بل بنایا گیا ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ اگر پرانے قوانین واقعی عوام دوست، ملکی یکجہتی اور صوبائی اختیار میں توازن پر مبنی ہوتے تو کیا ملک موجودہ صورتحال تک پہنچتا اگر پرانے ہی قوانین سے نیا بل بننا تھا تو اتنی تک و دو کی ضرورت ہی کیا تھی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ سو اندھوں کو بھی یکجا کردیا جائے تو وہ ایک بینا شخص کی طرح تو نہیں دیکھ سکتے۔ یعنی قومی امنگوں کے خلاف جو کچھ اب تک انتخابات کے نام پر ہوتا رہا آیندہ بھی وہی کچھ ہوگا۔
انتخابی اخراجات اگرچہ اربوں میں کھیلنے والوں کے لیے واقعی نہ ہونے کے برابر ہیں یعنی قومی اسمبلی کے لیے 40 لاکھ اور صوبائی کے لیے 20 لاکھ۔ مگر ان اخراجات کو بھی کیا ایک عام شہری برداشت کرسکتا ہے؟ اگر اس کے پاس 40 لاکھ ہوں تو وہ ایک کمرے کا گھر یا فلیٹ ہی خرید لے اور یہ مقررہ حد بھی صرف کاغذی ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں 40 لاکھ یا 20 لاکھ تو اپنی کارنر میٹنگ پر ہی خرچ کردیتی ہیں۔ بڑے بڑے جلسے اور افراد طاقت کے مظاہرے کے لیے جلوس الگ رہے۔ ان اصلاحات میں نمبر 5 اور 6 کسی حد تک اصلاحات کہی جاسکتی ہیں۔ دراصل جب تک عام شہری (جو کسی وڈیرے یا جاگیردار کی پشت پناہی کے بغیر) اپنی تعلیمی صلاحیت، خدمت خلق اور اعلیٰ کردار کی بنیاد پر اسمبلی میں نہیں پہنچیں گے سیاسی صورتحال تبدیل ہونے کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کے زیر اثر عام آدمی بھی ایوان میں کبھی عوامی مفاد کے فیصلے نہ کرے گا نہ کرنے دے گا کیونکہ اسے اپنے پشت پناہ کے حکم ہی کی پیروی ہی کرنا ہوگا۔ ہماری ساری موجودہ سیاسی جماعتیں ملک کے بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کے کاندھوں پر ہی سوار ہیں۔ جن جماعتوں میں پارٹی ٹکٹ ہی کئی کروڑ کا ملتا ہو وہاں عام آدمی کا کیا گزر۔
اگر موجودہ عوامی سوچ کے پیش نظر کچھ پارٹیوں نے یہ سیانا پن دکھایا کہ ایک عام شہری کو اپنا ٹکٹ دے دیا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ واقعی عوامی نمایندہ ہوگا۔ دراصل وہ ڈمی امیدوار ہوگا اس کی پشت پر کوئی نہ کوئی وڈیرا، جاگیردار ضرور ہوگا۔ لہٰذا اصلاحات میں پہلی شرط ٹکٹ قیمتاً دینے پر پابندی ہونی چاہیے۔
انتخابی اخراجات 40 یا 20 لاکھ بھی نہیں۔ ہر حلقے کے امیدواروں کو سرکاری و نجی چینلز پر بلاکر عوام سے متعارف کرایا جائے ان کے عزائم و ارادے عوام تک براہ راست پہنچنے چاہئیں۔ جلسے جلوس پر بھی پابندی ہو۔ امیدوار ڈور ٹو ڈور (دروازے پر) جاکر ووٹر سے ملاقات کرے اور ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دے۔
قبل از انتخابات دھاندلی روکنے کے لیے کسی بھی لالچ، ترغیب دینے والے کو نااہل قرار دیا جائے۔ اب یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقے کے امیدوار کے کردار، خدمات، کارکردگی اور صلاحیتوں کو اچھی طرح پرکھ کر منتخب کریں تاکہ خود ان کا مستقبل نیک، بے غرض، مخلص اور محب وطن افراد کے ہاتھ میں ہو اور اسمبلی میں ان کی آواز سنی جائے۔