چودہ اگست کی رات
وسعت النظری، کشادہ سوچ اور رویوں کی لچک سے، انفرادی آزادی کا تصور وابستہ ہے۔
یہ دن ہمیشہ سے بہت عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ تقریبات اور جشن منانے کے ہم ماہر ہیں، مگر موضوع اور مقصد کی روح سمجھنے سے قاصر۔ خوشی اس بات کی ہے کہ بڑوں سے زیادہ بچے خوش ہوتے ہیں۔ سبز رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں۔ چھوٹے پرچم ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور چہروں پر جھنڈا پینٹ کیا جاتا ہے۔ یہ دن بچوں کے لیے عید کی حیثیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کے بچے، بڑوں سے بہت بہتر ہیں۔ معصومیت، سادگی اور محبت ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ کیونکہ تجربے کی دنیا انھیں قریب سے چھوکر نہیں گزری۔
تجربے کی دنیا، انسان سے ذات کا خالص پن چھین لیتی ہے۔ اس کے وجود کی اصلیت پر، دوسروں کے نظریات مسلط ہونے لگتے ہیں، کیونکہ دوسروں کے ذہن سے سوچنا اور آنکھوں سے دیکھنا پرانی روایات ہیں۔ حتیٰ کہ زبان بھی انسان کی دسترس میں نہیں ہوتی۔
کسی اورکی نگاہ سے دنیا کو دیکھنے کا مطلب ہے کہ انسان سوچ یا نظریے کے پنجرے میں قید ہے، اگر قیدوبندکی تشریح کی جائے، توکوئی ایک بھی ذی روح آزاد اور خوش دکھائی نہیں دے گا۔ یہ پنجرے بھی مختلف نوعیت کے ہیں۔ اپنوں سے لے کر غیروں تک کئی رویوں کی حدبندیاں، فطری خوشیوں کا تعاقب کرتی دکھائی دیں گی، مگر منفی رویوں کا پنجرا ، سب سے زیادہ تکلیف دے ہے۔
ہم لوگ نہ تو آزادی لفظ کی اہمیت سے واقف ہیں اور نہ ہی مطلب کا پتا ہے۔ آزادی کا مطلب ہے کہ انسان کا وجود، اپنی ذات میں مکمل طور پر ہم آہنگ ہو۔
اس کا ذہن، سوچ، جسم و روح منتشر نہ ہوں۔ بلکہ سوچ اور عمل کی مرکزیت پر قائم رہیں۔ انتشار، قید وبند کا نام ہے۔ منتشر ذہن، دوسروں کی سوچ کا غلام بنتا ہے۔کبھی ایک روپ اوڑھ لیتا ہے توکبھی دوسرا پیرہن نظریے کا پہن لیتا ہے۔زبان، رویہ اور رہن سہن اپنے اختیار میں نہیں رہتا۔ ذات کا فطری پن، بناوٹ اور نقلی رویوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ زبان سے لے کر ہر اصلیت بوجھ بن جاتی ہے۔ غیر ملکی لہجے، رویے اور اقدار توقیر ذات کو بلندی عطا کرتے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ انسان اپنی زمین کے رنگ نہیں پہچانتا، اپنی تاریخ اور ماضی سے واقف نہیں ہوتا اور وہ دنیا فتح کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ غیر زمین کی محبت اور کشش میں بے قرار ہوا جاتا ہے۔ غیر ملکی اشیا خرید کر اس کا سر فخر سے تن جاتا ہے۔
محرک، ان باتوں کا تعلق جشن آزادی سے ہرگز نہیں ہے۔ جذب اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں فرق نہیں پڑتا۔ صاف پینے کا پانی میسر نہیں۔ امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہے، مہنگائی کا گراف مستقل اوپر جا رہا ہے، معیار زندگی سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کچھ خبر نہیں۔ عوامی زندگی سے ایوان بالا تک بے یقینی کا دیمک، خوشحالی کو چاٹ رہا ہے۔ بہرحال جشن آزادی کا ہر لمحہ خوشی و بے کراں مسرتوں سے ہمکنار ہے۔ آج جس کا حالات سے دورکا واسطہ نہیں۔ حالات کا کیا ہے یہ تو سدا سے ایک ہی نہج پر چل رہے ہیں۔ موسم بہار دیکھا ہی نہیں لہٰذا خزاں سے کیونکر اختلاف ہو ۔ بے رنگ موسموں سے سمجھوتے کر لینے کا اپنا الگ لطف ہے۔
چودہ اگست کا دن کراچی میں گزرا۔ رات دس بجے واپسی کے لیے نکلے۔ ہر طرف چراغاں تھا۔ وطن کی محبت کے گیت فضاؤں میں گونج رہے تھے۔ گاڑیوں پر چھوٹے پرچم لہراتے تھے۔ موٹرسائیکل پر نوجوانوں کے ہاتھوں میں بڑے پرچم رقصاں، آتش بازی کے حسین منظر ہر طرف دکھائی دیے۔ حالات میں زندگی نہیں مگر لوگوں کے اندر آج بھی زندگی کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔
جینا، خوش رہنا ان کا بنیادی حق ہے اور خواب دیکھنا آنکھوں کی ضرورت۔ خواب نہ ہوں تو سفرکے رتجگے بوجھ بن جاتے ہیں۔ لیکن ٹول پلازہ سے پہلے ٹریفک کا جم غفیر رکا رہ گیا۔ ٹرک، بسیں، گاڑیاں، ٹریلر اور موٹرسائیکل سب کے سب وہیں رکے رہے۔ کیونکہ ہائی وے پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ جو مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
یہ ہائی وے اس تعمیراتی کام کے دوران کئی انسانی جانیں نگل چکا ہے۔ کئی مریض راستے میں ہی حال سے بے حال ہوجاتے ہیں، کراچی کی طرف سفر کرتے ہوئے۔ گھنٹوں ٹریفک رکا رہتا ہے۔ کئی بلین کی لاگت سے بننے والا یہ M-9 موٹروے، جو 17 ستمبر 2017ء میں اختتام پذیر ہو گا۔ معلوم نہیں یہ پروجیکٹ وقت پر ختم ہوگا کہ نہیں مگر اسے جلدازجلد مکمل ہونا چاہیے۔ اس موٹروے کی وجہ سے EIA انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ کے مطابق یہ تعمیراتی کام 89 پٹرول پمپس، سی این جی اسٹیشنز، 70 ہوٹلز، 86 مساجد، پانچ رہائشی کالونیز و دیگر عمارتوں کو متاثر کرے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے پروجیکٹ کے لیے واضح حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ متاثرہ لوگوں کو متبادل حل فراہم کیا جائے چونکہ غیر ملکی کمپنیز کی سرمایہ کاری کا بھی حصہ ہوتا ہے لہٰذا وقت پر ان منصوبوں کی تکمیل اشد ضروری ہے۔ تاکہ ملک کی ساکھ متاثر نہ ہو۔
تعمیراتی کام کے دوران ایسی حکمت عملی اختیارکی جاتی ہے کہ ٹریفک کا نظام متاثر نہ ہو۔ ایک راستہ کراچی سے گھارو اور ٹھٹھہ سے گزرتا ہوا حیدرآباد سے جا ملتا ہے۔ ہیوی ٹریفک کے لیے متبادل راستہ اختیار کیا جاسکتا تھا۔ ضروری نہیں کہ تعمیراتی راستے سے تمام ٹریفک گزرنے دیا جائے اس مسئلے کے لیے کئی حل نکالے جاسکتے ہیں۔ مگر ہم لوگ مسائل کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، بجائے کہ حل تلاش کرکے پرسکون زندگی گزاریں۔
ہائی وے پر ٹریفک کو معطل ہوئے چار گھنٹے گزر گئے۔ دس بجے کراچی سے روانہ ہوئے تھے اور اب رات کا ایک بج رہا تھا۔ بچے گھر پر پریشان تھے اور مستقل ان کے فون آتے رہے۔ چار پانچ گھنٹوں کے بعد رینجرزکی گاڑیاں پہنچیں تو کچھ گاڑیوں کو نکلنے کا موقع ملا۔ لوگوں کو بھی بہت جلدی تھی۔ جس کی وجہ سے مزید گاڑیاں پھنس جاتیں۔ راستے تو اپنی جگہ خراب تھے، مگر لوگوں میں نظم و ضبط کا فقدان تھا۔ کوئی ترتیب و توازن نہیں دکھائی دیا۔ حالانکہ معلوم تھا کہ آگے راستہ بند ہے۔ اس کے باوجود بھی گاڑیاں آگے جانے کی کوشش میں مزید راستہ بلاک کر دیتیں۔ ہر ایک کو آگے نکلنے کی جلدی تھی۔سماجی زندگی نے اچھے اصول نہیں اپنائے۔ جو قوم کو نظم و ضبط کے ساتھ توازن میں رکھتے ہیں۔ مثبت رویوں کی کمی پائی جاتی ہے۔ جیسے صبر، برداشت، ایثار، عفو و درگزر اور نظم و ضبط جیسے آفاقی رویوں کی غیر موجودگی نے زندگی مشکل بنادی ہے۔
آزادی نعمت ہے
مگر بھوک، بیماری اور جہالت اس نعمت کو محسوس نہیں ہونے دیتے۔
ذہن آزاد نہ ہو تو کھلی فضائیں بھی بوجھل لگنے لگتی ہیں۔
وسعت النظری، کشادہ سوچ اور رویوں کی لچک سے، انفرادی آزادی کا تصور وابستہ ہے۔ یہ انفرادی آزادی، اجتماعی طاقت کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ جسمانی آزادی کا مطلب ہے کہ انسان فکری اور نظریاتی طور پر بھی آزاد ہو۔آج صورتحال یہ ہے کہ ملک حقیقی مسائل سے زیادہ خودساختہ پریشانی کے جال میں الجھا ہوا ہے۔
سوچ کے تانے بانے بنتے رات کے تین بج گئے۔ راستوں کی رکاوٹیں بحال ہونے کے بعد، گاڑیاں اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہوگئیں اور ہم بھی رات دس بجے کے گھر سے نکلے ہوئے صبح پانچ بجے گھر پہنچے۔