بنگلادیش غلاموں کا دیس
ایک زمانہ تھا، بنگلا دیش میں اتنی غربت تھی کہ غریب دو وقت کی روٹی پانے کی خاطر بھی ہر قسم کی ملازمت کرنے کو تیار تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش کی بیشتر گارمنٹس فیکٹریوں میں مالکان ملازم نہیں غلام بھرتی کرتے ہیں۔ فوٹو : فائل
لائی چی کوک ہانگ کانگ کا مشہور صنعتی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں معروف کمپنیوں کے دفاتر واقع ہیں۔ ملبوسات کی خرید و فروخت میں سرگرم عمل بین الاقوامی کمپنی' ٹاپ گریڈ انٹرنیشنل انٹرپرائیزز(top grade international enterprise ltd) کا صدردفتر بھی یہیں ہے۔ یہ کمپنی ایشیائی ممالک خصوصاً بنگلا دیش اور ویت نام سے سستے ملبوسات اور کپڑا خرید کر یورپی ممالک میں فروخت کرتی ہے۔
پچھلے دس برس میں ملبوسات کے شعبے میں انقلابی تبدیلی آ چکی۔ ٹاپ برانڈ انٹرنیشنل کا چینی مالک' لوئی ونگ بار اس انقلاب سے بخوبی واقف ہے ۔ وہ بتاتا ہے''دس سال پہلے یورپ کا باشندہ پانچ ڈالر میں صرف ٹی شرٹ ہی خرید پاتا تھا۔ لیکن آج وہ پانچ چھ ڈالر میں سویٹر جبکہ دس بارہ ڈالر میں جیکٹ تک خرید لیتا ہے۔''
ملبوسات سستے ہونے کا انقلاب اس لیے آیا کہ چین اور بنگلا دیش کے کارخانوں میں وسیع پیمانے پر کم داموں والے تیار شدہ (ریڈی میڈ) کپڑے بننے لگے۔ آج دنیا میں چین اور بنگلا دیش ہی میں سب سے زیادہ ملبوسات تیار ہوتے ہیں۔ لیکن خصوصاً بنگلا دیش میں اس تبدیلی کے مثبت مادی اثرات سے صرف مٹھی بھر بااثر اور دولت مند طبقہ ہی مستفید ہو رہا ہے۔ عوام پہ استحصال کی یہ داستان نہایت دردناک ہے۔ یہ اجاگر کرتی ہے کہ بنگلا دیش میں بھی ایسا طاقتور حکمران طبقہ جنم لے چکا جو 99 فیصد ملکی وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ 1 فیصد وسائل کے ثمرات ہی بقیہ آبادی تک پہنچ پاتے ہیں۔ اس بنگلہ دیشی طاقتور طبقے کا طریق واردات بڑا ظالمانہ اور نا منصفانہ ہے۔
''بنگلہ بندھو''شیخ مجیب الرحمن نے یہ دعویٰ کرکے مشرقی پاکستان کو کشت و خون کے ذریعے بنگلا دیش میں ڈھالا تھا کہ وہاں عوام عدل وانصاف حاصل کر پائیں گے۔ترقی کے ثمرات سبھی باشندوں میں برابر تقسیم ہوں گے۔مگر حقیقت برعکس سامنے آئی۔نئی مملکت میں بھی طاقتور طبقے نے سارے قومی وسائل پر قبضہ کر لیا اور عوام کو مونگ پھلی دے کر بہلایا جانے لگا۔حیرت انگیز امر یہ کہ آج بنگلا دیش میں بنگلہ بندھو کی بیٹی نے اقتدار سنبھال رکھا ہے مگر وہ بھی غریبوں کے استحصال میں پیش پیش ہے۔
٭٭
دس سال پہلے بنگلا دیش میں ملبوسات اور کپڑا بنانے والی فیکٹریاں آج کے مانند ہزاروں کی تعداد میں نہیں تھیں۔ دراصل 2008ء میں جب دنیا بھر معاشی بحران آیا' تو اس کے بعد چین میں فیکٹری کارکنان زیادہ تنخواہوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ چینی حکومت کے دباؤ پر فیکٹری مالکان کو کارکنوں کی مانگیں پوری کرنا پڑیں ۔تنخواہیں بڑھنے سے ملبوسات کی تیاری پر آنے والی لاگت بڑھ گئی۔
اس دوران چین میں ایک اور بڑی تبدیلی یہ آئی کہ سرمایہ دار الیکٹرونکس' کمپیوٹر اور دیگر''ہائی اینڈ'' اشیا بنانے والے کارخانے قائم کرنے لگے۔ چنانچہ ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریاں بند ہونے لگیں۔تیسرا اہم رجحان یہ سامنے آیا کہ بعض مالکان اپنی فیکٹریاں ویت نام یا بنگلا دیش لے گئے کیونکہ وہاں افرادی قوت کی تنخواہیں کم تھیں۔ مزید براں اصول و قوانین اور سرکاری پابندیوں کے کمزور یا بالکل ہی نہ ہونے کی بنا پر فیکٹری چلانا بھی آسان تھا۔
چین میں اگر فیکٹری چلانے پر دس لاکھ ڈالر ماہانہ لگتے تھے' تو بنگلا دیش میں یہی کام صرف پانچ لاکھ ڈالر میں ہونے لگا۔ گویا اخراجات میں پچاس فیصد تک کمی آ گئی ۔ یہ فائدہ دیکھ کر چینی ہی نہیں دیگرممالک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں نے بھی بنگلا دیش میں مبلوسات یا کپڑا بنانے والی فیکٹریاں یا اپنی کمپنیوں کے دفاتر کھول لیے۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ آج ان کی تعداد دس ہزار تک پہنچ چکی۔
بنگلا دیش ماضی میں غریب مملکت رہاہے ۔جب یہ پہلے بنگال اور پھر مشرقی پاکستان کی صورت نقشے پر موجود تھا' تو بیشتر بنگالیوں کا ذریعہ معاش کاشت کاری رہا۔ اس پیشے سے عوام کو بس اتنی ہی یافت ہوتی کہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھا جا سکے۔ بے محابا غربت کے باعث ہی مشرقی پاکستان کے باسی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں نے وہاں جا کر فیکٹریاں اور کارخانے کھولے' تو صنعت و تجارت کی داغ بیل پڑی۔ سستی افرادی قوت کی کشش ہی مغربی پاکستان کے صنعت کاروں کو بھی مشرقی پاکستان کھینچ لے گئی تھی۔
جب بنگلا دیش وجود میں آیا' تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی نوزائیدہ مملکت پہنچ کر نئے کارخانے کھولنے لگے۔ رفتہ رفتہ ملبوسات اور کپڑا تیار کرنے والی فیکٹریاں کھولنا رجحان بن گیا۔ یوں بنگلا دیش عالمی سطح پر گارمنٹس یا ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نمایاں نام بن کر نمودار ہونے لگا اور جب چینی سرمایہ داروں اور صنعت کاروں نے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے منہ موڑا' تو بنگلا دیش کو مزید اوپر آنے کا موقع مل گیا۔
آج بنگلا دیش کے شہروں مثلاً ڈھاکہ' چٹاگانگ اور کھلنا وغیرہ میں اندرونی و مضافاتی علاقوں میں مختلف اقسام کے ملبوسات اور کپڑے بنانے والی ہزار ہا فیکٹریاں کھل چکیں۔ ان میں تقریباً پچاس لاکھ بنگلہ دیشی کام کرتے ہیں۔ گویا کم از کم ڈھائی تین کروڑ بنگلہ دیشیوں کی گذران کا دار و مدار انہی فیکٹریوں پر ہے۔
ان فیکٹریوں کی بدولت ہی بنگلا دیش اس قابل ہو سکا کہ اس کی برآمدات کی مالیت آج تقریباً ''چالیس ارب ڈالر'' تک پہنچ چکی ہے۔ (اس کے برعکس پاکستان کی برآمدات مسلسل گھٹ رہی ہیں اور ان کا عدد سولہ تابیس ارب ڈالر کے مابین ہے۔) بنگلا دیش کی کل برآمدات میں ملبوسات وکپڑوں کی برآمد کا حصّہ ''90'' ہے۔ یعنی بنگلا دیش اپنی گارمنٹس انڈسٹری سے سالانہ 36 ارب ڈالر کا غیر ملکی زرمبادلہ کمانے لگا ہے جبکہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سالانہ 10 یا 11ارب ڈالر کے مابین کمائی کر رہی ہے۔ گویا بنگلا دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنے سابقہ ساتھی کے مقابلے میں کہیں آگے نکل چکی۔ یہ پاکستانی حکمران طبقے کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اسے ہی عام طور پر متحدہ پاکستان توڑنے کا قصور وار سمجھا جاتا ہے۔
گارمنٹس یا ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی و بڑھوتری سے بنگلا دیش میں خاصی خوشحالی آئی ہے۔ملک میں متوسط طبقے نے جنم لیا اور ہزار ہا غریب بھی غربت کے پنجوں سے آزاد ہوگئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گارمنٹس انڈسٹری سے وابستہ 99 فیصد کارکنوں کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ صرف 1 فیصد بڑی گارمنٹس فیکٹریاں اپنے ملازمین کو اچھی تنخواہ دیتی ہیں۔ بقیہ ننانوے فیصد فیکٹریوں میں ملازمین بس اتنی تنخواہ پر کام کرتے ہیں کہ ماہانہ اخراجات پورے ہوجائیں اور ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہوسکیں۔اس معاملے کا تاریک و منفی پہلو یہ ہے کہ ترقی کے ثمرات بنگلا دیش معاشرے میں یکساں طور پر تقسیم نہیں ہوئے... بلکہ صرف دولت مندوں اور بااثر شخصیات نے فائدہ اٹھایا۔
عجیب و غریب بات یہ کہ بنگلہ دیشی حکومت نے دانستہ اپنے ملک میں صنعتی کارکنوں اور مزدوروں کی تنخواہیں کم رکھی ہوئی ہیں۔یہ خطے کے ممالک ہی نہیں دنیا میں کم ترین تنخواہ شمار ہوتی ہے۔گویا گارمنٹس انڈسٹری کے ساتھ ساتھ حکومت بھی صنعتی کارکنوں اور ہنرمندوں پر ظلم و ستم کرنے میں برابر کی شریک ہے۔ یہ طاقتور طبقہ دراصل اپنے عوام کی غربت اور معصومیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔بنگلہ دیشی وزیراعظم بڑے فخر سے دعوی کرتی ہے کہ اس کے دور حکومت میں بے انتہا معاشی ترقی ہوئی ہے۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ ترقی غریب کارکنان کی بے بسی اور لاچاری سے فائدہ اٹھا کر بڑے ظالمانہ طور پر حاصل کی گئی۔
ایک زمانہ تھا، بنگلا دیش میں اتنی غربت تھی کہ غریب دو وقت کی روٹی پانے کی خاطر بھی ہر قسم کی ملازمت کرنے کو تیار تھے۔ یہی وجہ ہے، جب ملک میں پہلے پہل کارخانے اور کمپنیاں کھلیں، تو انہیں نہایت سستی افرادی قوت میسر آگئی۔ یہی امر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی بنگلا دیش لانے کا سبب بن گیا اور انہوں نے خصوصاً شعبہ گارمنٹس میں بھاری سرمایہ کاری کی اور نئے کارخانے و کمپنیاں کھول لیں۔
لیکن بھاری سرمایہ کاری کا عام بنگلہ دیشیوں کو بھی فائدہ پہنچنا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہوا کیونکہ بیشتر منافع کارخانے داروں اور کمپنی مالکان کی تجوریوں میں جانے لگا۔ حکومت کی آشیرباد سے انہوں نے نہ صرف اپنے کارکنوں کی تنخواہیں کم رکھیں بلکہ اصول و قوانین پر عمل نہ کرکے سالانہ کروڑوں ٹکے (بنگلہ دیشی کرنسی) بھی بچاتے رہے۔ یوں وہ تو اس دوران ارب پتی بن گئے مگر گارمنٹس انڈسٹری کو اپنا خون پسینہ بہا کر پروان چڑھانے والے لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے واجبی تنخواہ پر گزارہ کرتے رہے۔
سوال یہ ہے، بنگلہ دیشی حکومت نے صنعتی کارکنوں اور ہنرمندوں کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے گارمنٹس فیکٹریوں اور کمپنیوں کے مالکان پر دبائو کیوں نہیں ڈالا؟ وجہ یہ کہ پچھلے دو عشروں کے دوران یہ مالکان سیاست میں دخیل ہوچکے۔ ان کے ہر سیاست دان سے قریبی تعلقات ہیں۔ مالکان وقتاً فوقتاً ان سیاست دانوں کو قیمتی تحائف دے کر اپنا احسان مند بنائے رکھتے ہیں۔ بعض شہروں میں تو فیکٹری مالکان پیسے کے بل پر الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ گویا اب گارمنٹس فیکٹریوں کے مالکان اور سیاست دانوں کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔
جب گارمنٹس فیکٹریوں اور کمپنیوں کے مالکان سرکاری ایوانوں میں پہنچ گئے، تو وہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے لگے۔ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں کم رہیں۔ چناں چہ یہ مقصد پانے کی خاطر یہ بہانہ گھڑ لیا گیا کہ اگر ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دی گئیں، تو افرادی قوت مہنگی ہونے پر غیر ملکی سرمایہ کار بنگلا دیش سے بھاگ جائیں گے۔ اس بہانے کی آڑ لے کر بنگلہ دیشی حکمران طبقہ صنعتی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرتا۔ اگر طوعاً و کراہاً کئی برس بعد یہ قدم اٹھانا بھی پڑے، تو اونٹ میں زیرے کے مترادف ان کی اشک شوئی کی خاطر تھوڑی سی تنخواہ بڑھا دی جاتی ہے۔
2006ء میں گارمنٹس انڈسٹری میں کم از کم تنخواہ 1672 ٹکہ (2173 پاکستانی روپے) تھی۔ واضح رہے کہ بنگلا دیش کی گارمنٹس انڈسٹری میں مصروف کار 80 تا 90 فیصد افرادی قوت کو کم از کم تنخواہ ہی ملتی ہے۔ 2010ء میں یہ کم از کم تنخواہ بڑھ کر 3000 ٹکہ (3900 پاکستانی روپے) ہوگئی۔ بنگلا دیش کا ظالم اور لالچی حکمران طبقہ اس ہندسے کو نجانے کتنے برس برقرار رکھتا مگر اپریل 2013ء میں ایک خوفناک حادثے نے دنیا والوں پر بنگلہ دیشی گارمنٹس انڈسٹری کے کارکنوں کی حالت زار اور مصائب سبھی دنیا والوں پر آشکارا کردیئے۔
رانا پلازہ کا انہدام
ہوا یہ کہ برسراقتدار بنگلہ دیسی سیاسی جماعت، عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری، سہیل رانا نے ڈھاکہ کے مضافات میں زمین اونے پونے داموں خریدلی۔ اس زمین پر بہت بڑا تالاب واقع تھا۔ اس باعث وہ جگہ گہرائی تک نم ہوچکی تھی اور وہاں کوئی عمارت تعمیر کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر سہیل رانا نے متعلقہ محکموں کے سرکاری افسروں کو رشوت دے کر اور اپنے سیاسی تعلقات کام میں لاکر وہاں چار منزلہ عمارت تعمیر کرنے کا اجازت نامہ حاصل کرلیا۔
عمارت کی تعمیر کے بعد تقریباً ہر طاقتور انسان کی طرح سہیل رانا دن دیہاڑے قانون اور انسانیت کے اصولوں کی دھجیاں اڑاتا رہا۔ اس نے پلازہ پر مزید چار منزلیں غیر قانونی طور پر تعمیر کرلیں۔ اس پلازہ میں دکانیں اور دفاتر واقع تھے۔ مگر ہوس پرست سہیل رانا نے بالائی چھ منزلیں گارمنٹس فیکٹریوں کو کرائے پر دے دیں۔
جیسا کہ بتایا گیا، یہ عمارت نم مٹی پر تعمیر ہوئی۔ مزید براں اس کی تعمیر میں ناقص میٹریل استعمال کیا گیا تاکہ رقم بچائی جاسکے۔ گارمنٹس فیکٹریوں میں جب بھاری مشینری لگی تو اس کے چلنے سے عمارت کی بنیادیں اور ستون رفتہ رفتہ کمزور ہونے لگے۔ آخر کار اوائل اپریل 2013ء میں عمارت کی دیواروں پر دراڑیں پڑگئیں۔ یہ دیکھ کر نچلی منزل والوں نے اپنی دکانیں بند کردیں۔
سہیل رانا کی ہوس اور ظالمانہ فطرت دیکھیے کہ اس نے ایک سرکاری انجینئر کو بھاری رشوت دی اور میڈیا پر اس سے یہ بیان دلوا دیا کہ پلازہ محفوظ ہے اور گرنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ تاہم گارمنٹس فیکٹریوں کے ملازمین نے کام پر آنے سے انکار کردیا۔ عمارت گرنے سے انہیں اپنی جان کا خطرہ تھا۔
گارمنٹس فیکٹریوں کے مالکان کو بھی سہیل رانا کی طرح دولت کی چمک نے اندھا کررکھا تھا۔ وہ لالچ و ہوس میں آکر تمام انسانی اقدار و اخلاقیات فراموش کر بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے ملازمین کو دھمکی دی کہ اگر وہ نہ آئے تو ان کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔ غریب ملازم تو اپنی تنخواہ ہی سے ساری ضروریات پوری کرتے ہیں۔ وہ نہ ملتی، تو ان کی زندگی کا نظام تلپٹ ہوجاتا۔ اسی مجبوری کے باعث 24 اپریل کی بدقسمت صبح بہت سے کارکن کام پر آگئے۔ بیچارے مزدوروں کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ موت دبے پائوں ان کی جانب بڑھ رہی ہے۔
تقریباً پونے نو بجے بجلی چلی گئی۔ جیسے ہی جنریٹر چالو ہوئے ان کی گڑگڑاہٹ کمزور دیواریں برداشت نہ کرسکیں اور ڈھتی چلی گئیں۔ آناً فاناً ساری عمارت زمین بوس ہوگئی۔ اس وقت فیکٹریوں میں تین ہزار سے زائد کارکن کام کررہے تھے۔ ان میں سے 1043 بدقسمت ملبے تلے دب کر اللہ کو پیارے ہوگئے جبکہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
قانون کا سرعام مذاق اڑانے والی اس قسم کی فیکٹریاں بنگلہ دیشی شہروں کے چپے چپے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے طاقتور اور بااثر مالکان غیر قانونی اور غیر انسانی سرگرمیوں میں ملوث ہیں مگر تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح بنگلا دیش میں بھی قانون کی حکمرانی کمزور ہے۔ لہٰذا قانون طاقتور کا بال بیکا نہیں کرپاتا۔ یہی دیکھیے کہ رانا پلازہ کا اندوہناک حادثہ ہوئے ساڑھے چار سال گزرچکے مگر سہیل رانا کو سزا نہیں ملی۔ اس کے وکیل قانونی سقم سے فائدہ اٹھا کر کیس طویل سے طویل تر کیے جارہے ہیں۔ آخر ایک وقت ایسا آئے گا کہ گواہ بھی بیزار ہوجائیں گے، عوام بھی کیس میں دلچسپی نہیں لیں گے۔ یوں بھیانک جرم کا مرتکب، سہیل رانا رہا ہوجائے گا۔ انصاف کا دن دیہاڑے یہ قتل ترقی پذیر ممالک میں عموماً دیکھنے کوملتا ہے۔
سانحہ رانا پلازہ کی بدولت البتہ یہ ضرور ہوا کہ عوامی اور بین الاقوامی دبائو کے بعد حکومت بنگلا دیش نے گارمنٹس انڈسٹری کے ملازمین کی کم از کم تنخواہ 5300 ٹکہ (6890 پاکستانی روپے) کردی۔ مزید براں غیر قانونی فیکٹریوں اور کمپنیوں کے مالکان کی پکڑ دھکڑ ہونے لگی۔ مگر یہ صرف عوام کو تسلی دینے کا بہانہ اور دکھاوا تھا۔ جیسے ہی رانا پلازہ حادثہ قصہِ ماضی بنا، گارمنٹس انڈسٹری کے مالکان بھر مادر پدر آزاد ہوگئے۔
گارمنٹس انڈسٹری کے بڑے کارخانے داروں نے اپنی اپنی چھوٹی سی سلطنتیں قائم کررکھی ہیں جہاں وہ راجا اندر بنے بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے بیشتر ملازموں کو 5300 ٹکہ تنخواہ دے کر سمجھتے ہیں کہ ان پر بہت بڑا احسان کردیا۔ حالانکہ بیشتر فیکٹریوں میں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایک ایک کمرے میں کئی کارکن ٹھوس دیئے جاتے ہیں۔صحت وصفائی کی سہولیات عنقا ہیں۔ اکثر ملازم نو سے بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ انہیںواجبی سا اوور ٹائم تھما دیا جاتا ہے۔جب کوئی بیمار ہو کر ملازمت چھوڑے تو اسے اپنی خدمات کے صلے میں ایک ٹکا نہیں ملتا۔
ان فیکٹریوں میں بنگلہ دیشی خواتین بھی بڑی تعداد میں کام کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے کسی فیکٹری کا مالک یا سینئر عہدے دار بدقماش ہوں، تو وہ مجبور و بے کس غریب خواتین کو جنسی طور پر ہراساں بھی کرتے ہیں۔ بیشتر فیکٹریوں میں مالکان اور انتظامیہ ملازمین کی تذلیل کرتے ہیں۔ انہیں انسان نہیں حیوان سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی کارکن کم تنخواہ یا ذلت بھرے سلوک پر احتجاج کرے، تو اسے کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔
بنگلا دیش میں گارمنٹس انڈسٹری اور دیگر صنعتوں سے وابستہ ملازمین اکثر تنخواہیں بڑھانے اور سہولیات مہیا کرنے کے لیے ہڑتالیں کرتے ہیں۔ مگر ایسے موقع پر حکومت عموماً مالکان کا ساتھ دیتی ہے۔ جنوری 2017ء میں ڈھاکہ کے علاقے، اشولیا میں سیکڑوں گارمنٹس فیکٹریوں کے کارکنوں نے ہڑتال کردی۔ وہ تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ مالکان نے ان کی مانگ پوری نہ کی بلکہ پانچ ہزار کارکنوں کو برخاست کردیا۔ عوام کو حقوق دینے کا دعویٰ کرنے والی وزیراعظم بیگم حسینہ واجد فیکٹری مالکان کی طاقت کے سامنے کھڑی نہ ہوسکی۔
گارمنٹس انڈسٹری کے کارکن چاہتے ہیں کہ اب ان کی کم از کم تنخواہ 16 ہزار ٹکہ (20800 پاکستانی روپے) ہوجائے۔ مگر حسینہ واجد حکومت یہ مطالبہ ماننے کو تیار نہیں۔ وجہ یہی کہ افرادی قوت مہنگی ہونے سے غیر ملکی سرمایہ کار بنگلا دیش کا رخ نہیں کریں گے۔ گویا بنگلہ دیشی حکمران طبقہ عوام پر ظلم و ستم ڈھانے کا سلسلہ جاری رکھ کر خود کو امیر سے امیر تر کرنا چاہتا ہے۔گارمنٹس انڈسٹری کی ساری ترقی کارکنوں کی محنت مشقت کے دم قدم سے ہے مگر بنگلہ دیشی استحصالی طبقے نے اس کو ظلم کا نشانہ بنا رکھا ہے۔
بنگلا دیش میں بنا ایک لباس عالمی تجارتی کمپنیاں 5 ڈالر میں خریدتی ہیں۔ یہی لباس امریکا یا یورپ میں 60 ڈالر میں فروخت کرتی ہیں۔ گویا اس سارے کاروبار میں فیکٹری مالکان سے لے کر ملبوسات کی خریدو فروخت کرنے والی کمپنیوں کی تو چاندی ہے، مگر کپڑے تیار کرنے والے محنتی مردوزن اپنے حق سے محروم رہتے ہیں۔ یہ دور جدید میں رائج کاروبار سے وابستہ ایک بڑا المیہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش کی بیشتر گارمنٹس فیکٹریوں میں مالکان ملازم نہیں غلام بھرتی کرتے ہیں۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ ان سے جیسا مرضی کام لے لیا جائے... جیسا مرضی سلوک کیا جائے اور وہ اف تک نہ کرسکیں۔ غربت سے جنم لینے والی بے چارگی اور بے بسی بنگلہ دیشی عوام کو غلام بننے پر مجبور کردیتی ہے تاکہ وہ چار پیسے کماسکیں۔صد افسوس کہ بیگم حسینہ واجد کی پارٹی، عوامی لیگ گارمنٹس مافیا کی سرپرست بن چکی ہے۔ حسینہ واجد حکومت وقتاً فوقتاً ڈرامے رچاتی رہتی ہے تاکہ عوام اور دنیا والوں کی توجہ گارمنٹس انڈسٹری کے لاکھوں کارکن مرد و خواتین کی حالت زار پر مرکوز نہ ہوسکے۔
مثال کے طور پر جعلی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام جس کے ذریعے حکومت دشمن قوتوں کو راہ سے ہٹا دیا گیا۔لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ بنگلا دیش کی ترقی کے خوشنما مناظر کے پس پردہ لاکھوں مجبور ومقہور بنگلہ دیشیوں کی سسکیاں،چیخیں،آنسو اور زخم پوشیدہ ہیں۔جبکہ بااثر و طاقتور طبقہ غریبوں کو پیروں تلے روندتے امیر سے امیرتر ہو رہا ہے۔ بنگلا دیش میں بنے سستے ملبوسات خریدنے والے خوشحال امریکی یا یورپی کوشاید ہی احساس ہوتا ہو کہ ان کی بنت میں بڑا مہنگا انسانی خون ، آنسو اور آہیں بھی شامل ہیں۔
نشے کے ہاتھوں تباہ ہوتی نئی نسل
''میں ابھی ماموں کو جاکر بتاتی ہوں کہ تم نشہ کرنے لگے ہو۔'' لیلا نے غصے سے کہا اور عامر کے کمرے سے باہر نکل گئی۔
عامر اور لیلا کزن تھے۔ تین ماہ بعد ان کی شادی تھی۔ آج لیلا اپنے منگیتر کے کمرے میں قینچی تلاش کرنے آئی تھی۔ منیر کی دراز کنگھلاتے ہوئے ایک پیکٹ نظر آیا جس میں دس پندرہ گولیاں پڑی تھیں۔ لیلا نے اخباری تصاویر میں یہ گولیاں دیکھ رکھی تھیں۔ یہ نشہ آور گولیاں تھیں۔
لیلا کو پہلے دھچکا لگا اور پھر وہ غصّے میں آگئی۔ وہ ایک نشئی سے شادی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اسے تو پہلے ہی شک تھا کہ عامر نشہ کرنے لگا ہے۔ اس نے پہلے عامر کو گالیاں دیں اور پھر اپنے ماموں کو سارا قصّہ سنانے چل دی۔ عامر اسے روکتا رہ گیا۔ نشے کے باعث اس میں ہمت ہی نہیں رہی تھی کہ کوئی ٹھوس قدم اٹھا پاتا۔ نشے کے ہاتھوں اب نہ صرف اس کی شادی ہونا محال نظر آتا تھا بلکہ خاندان میں بے عزتی ہونے کا خوف بھی دکھی کرنے لگا۔
آج بنگلا دیش کے خاص کر شہروں میں ایک مخصوص نشہ ہر اس گھر کو نشانہ بناچکا جہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں بستے ہیں۔ یہ نشہ گارمنٹس انڈسٹری کی ترقی سے جنم لینے والا منفی پہلو ہے۔ جب اس ترقی کی بدولت شہری بنگلہ دیشیوں کے ہاتھوں میں رقم آئی، تو بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس نشے کی لت میں گرفتار ہوگئے۔ آج یہ حالت ہوچکی کہ یہ نشہ مملکت کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے... ایسا مستقبل جب بنگلا دیش میں نشئیوں کی کثرت ہوگی اور کارخانوں و صنعتوں کو کام کرنے والے ہاتھ نہیں ملیں گے۔
بنگلا دیش میں مشہور ہونے والا نشہ ''بابا'' کہلاتا ہے۔ اس کے مختلف نام ہیں مثلاً یاما، بابا، پاکیہان، کیتھی، ایتھی اور پالارکر۔ بھارت میں اسے ''بھول بھلیاں'' کا انوکھا نام دیا گیا ہے۔ بنگلا دیش میں ''یابا'' بھی کہلاتا ہے۔ یہ نشہ ایک گولی سے جنم لیتا ہے۔ یہ گولی ایک کیمیکل، میتھا مفٹمائن(methamphetamine) اور کیفین کے امتزاج سے بنائی جاتی ہے۔ میتھا مفٹمائن سفید رنگ کا ہیجان انگیز مادہ ہے۔
یابا یا بابا نشہ آور گولیاں برما کے ''موجدوں'' کی ایجاد ہیں۔ یہ ملک پچھلے پچاس سال کے دوران تھائی لینڈ اور لائوس کے ساتھ ہیروئن کی عالمی تجارت کا حصہ رہا ہے۔ تب یہ خطہ ''گولڈن ٹرائی اینگل'' کہلاتا تھا۔جب حکومتوں نے ہیروئن کے تاجروں پر کریک ڈائون کیا، تو وہ تتر بتر ہوگئے۔ تبھی بیسویں صدی کے اواخر میں یابا گولیاں مارکیٹ میں نمودار ہوئیں۔ ان کا بنانا آسان تھا چناں چہ یہ نشہ تیزی سے پھیلنے لگا۔ پہلے پہل تھائی لینڈ میں مقبول ہوا۔ پھر برما کے اسمگلر اسے بنگلا دیش میں اسمگل کرنے لگے۔
آج بنگلا دیش میں روزانہ دو سے سوا دو کروڑ بابا گولیاں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ گولی سستی نہیں، ایک 900 ٹکہ میں دستیاب ہے۔ تاہم اس کی سستی قسم تین سو روپے میں بھی مل جاتی ہے جو ''گلابی چمپا'' کہلاتی ہے۔
بابا گولی کھانے سے انسان چست و چالاک ہوجاتا ہے۔ تھکن جاتی رہتی ہے اور انسان فرحت و انبساط محسوس کرتا ہے۔ مگر دس گھنٹے بعد جب گولی کے اثرات ختم ہوں، تو انسان پھر پژمردہ اور تھکا تھکا سا لگتا ہے۔ چناں چہ اسے پھر گولی کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ یوں وہ رفتہ رفتہ بابا گولی کی لت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
گولی کی لت یا نشے کا شکار ہونے کے بعد اس کے مضر اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ انسان کو بھوک نہیں لگتی، پیشاب زیادہ آتا ہے۔ منہ خشک رہنے لگتا ہے۔ معمولی بات پر غصہ آنے لگتا ہے۔ حواس قابو میں نہیں رہتے اور خصوصاً گولی نہ ملنے پر بے چینی انتہا درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ گویا بنگلا دیش میں ایک ناکارہ نئی نسل جنم لے رہی ہے کیونکہ دو کروڑ بابا گولیوں کی بیشتر مقدار نوجوان لڑکے لڑکیاں ہی استعمال کرتے ہیں۔افغان ۔روس جنگ کے دوران پاکستانی نئی نسل بھی نشے کے چنگل میں جکڑی گئی تھی۔شکر ہے کہ اب پاکستان میں اس جیسی دگرگوں صورت حال ختم ہو چکی ہے۔
اس گھنائونے عمل کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بنگلا دیش میں فوج کے جرنیل اور حکمران جماعت، عوامی لیگ کے سیاست دان برما سے بابا گولیوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ان نشہ آور گولیوں کے بنگلہ دیشی اسمگلر ہر ماہ اپنی فوج کے جرنیلوں، بارڈر فورس کے کمانڈروں اور سیاست دانوں کو کروڑوں ٹکہ دیتے ہیں تاکہ بابا گولیاں برما سے بنگلا دیش بلا روک ٹوک آسکیں۔ گویا بنگلہ دیشی حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر لالچی اور ہوس پرست لوگ اپنے ملک کی قسمت سے کھیل رہے ہیں۔ دولت کی چمک دمک نجانے کیوں اچھے بھلے انسان کو بھی اندھا کرکے اسے حیوان سے بدتربنا دیتی ہے۔