بزرگ شہریوں کا احترام
چند برس پہلے میاں نواز شریف کی حکمرانی کے دوسرے دور میں بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی مراعات کا بڑا چرچا ہوا تھا۔
دنیا کی تمام مہذب قومیں اپنے بزرگ شہریوں کا بہت احترام کرتی ہیں جس میں امریکی، یورپین، چینی، جاپانی اور ترک سمیت سبھی شامل ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے ہی جیسے لوگوں پر مشتمل پڑوسی ملک بھارت میں بھی ان بزرگ شہریوں کو مختلف قسم کی مراعات حاصل ہیں۔ امریکا کے شاپنگ مالز میں شاپنگ کے لیے آنے والے بزرگ شہریوں کے لیے بیٹری سے چلنے والی چھوٹی چھوٹی گاڑیوں کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ انھیں چلنے پھرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ یہ گاڑیاں ان شاپنگ مالز کے دروازوں کے باہر پارک کی ہوئی ہوتی ہیں۔
بزرگ شہری ان گاڑیوں میں نہایت آرام کے ساتھ بیٹھے بیٹھے شاپنگ کرتے ہیں اور فارغ ہونے کے بعد انھیں پارک کرکے خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان شاپنگ مالز میں رکھی ہوئی بعض اشیاء پر بزرگ شہریوں کو خصوصی رعایت بھی دی جاتی ہے، بزرگ شہریوں کے لیے علیحدہ خصوصی کھڑکیوں اور کاؤنٹرز کا انتظام اس کے علاوہ ہے۔ہمارے برادر ملک ترکی میں بھی بزرگوں کا بڑا احترام کیا جاتا ہے جس کا مشاہدہ ہمارے ایک دوست ابھی حال ہی میں استنبول میں کرکے آئے ہیں، وطن عزیز کی طرح ترکی کی پبلک بسوں میں بھی بڑا رش ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بزرگوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، ستّر سالہ ہمارے یہ دوست استنبول کی ایک بس میں سوار ہوئے تو اس بس میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی۔
لیکن ان کے داخل ہوتے ہی ایک ترک خاتون اپنے شیرخوار بچے کو اپنے شوہر کی گود میں ڈال کر اپنی سیٹ ان صاحب کے لیے خالی کرکے کھڑی ہوگئیں۔ ہمارے دوست نے ان سے اپنی نشست پر واپس بیٹھنے کا بڑا اصرار کیا لیکن بزرگی کے احترام کی خاطر انھوں نے یہ گوارا نہیں کیا۔ ہمارے یہ دوست جب وطن واپس پہنچے تو انھیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ کراچی ایئرپورٹ پر امیگریشن کی جانب سے بزرگ شہریوں کے لیے ایک خصوصی کاؤنٹر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تاہم ان کی اس خوشی پر چند لمحوں میں ہی اس وقت پانی پھر گیا جب چند نوجوان لپک کر اس کاؤنٹر پر براجمان ہوگئے۔
چند برس پہلے میاں نواز شریف کی حکمرانی کے دوسرے دور میں بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی مراعات کا بڑا چرچا ہوا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ حکومت کی جانب سے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں بزرگ شہریوں کے ایک خصوصی اجلاس کے اختتام پر ہم نے بے شمار بزرگوں کو دھکے کھاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ہوئے دیکھا تھا، ان بے چاروں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اور انھیں واپسی کے لیے سواری بھی میسر نہیں تھی۔ اس کے بعد ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا نعرہ لگانے والی پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو اقتدار کی بھاگم دوڑ نے اسے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ وہ بزرگ شہریوں کی بھلائی کے بارے میں کچھ کرکے دکھا سکتی۔
یوں کہنے کو یہ ملک اسلامی بھی ہے اور جمہوریہ بھی، مگر عملاً یہ نہ اسلامی ہے اور نہ جمہوریہ۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو اس ملک کے بزرگ شہریوں کا یہ حال ہرگز نہ ہوتا۔ سب سے بڑا افسوس تو یہ ہے کہ خود کو اسلامی کہلوانے پر مصر سیاسی اورغیر سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ بزرگ شہریوں کے حق میں کبھی اپنی آواز بلند کرتیں کیونکہ ہمارا دین اسلام بزرگوں کے احترام کرنے اور ان کا پورا پورا خیال رکھنے کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں ہی صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے جس کی رو سے بزرگوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
ہماری صوبائی اور قومی اسمبلیاں وہ تمام قوانین پاس کر رہی ہیں جن سے سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ آئین میں اپنے مطلب کی ترامیم بھی دھڑلے سے کی جا رہی ہیں لیکن بزرگ شہریوں سے متعلق قانون سازی کی اہمیت کے احساس سے سب کے سب عاری ہیں۔ بزرگ شہریوں کا بل 2007 سے پارلیمان میں زیر التواء پڑا ہوا ہے اور حزب اقتدار تو کجا حزب اختلاف میں سے بھی کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس کی جانب توجہ مبذول کرائے۔ افسوس کہ اس سلسلے میں UNFPA اور ہیلپ ایج انٹرنیشنل کی کاوشیں بھی تاحال بارآور ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔
یاد دہانی کے طور پر عرض ہے کہ مدت دراز قبل متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے سینئر سٹیزن بل 2012 سندھ اسمبلی میں جمع کرایا گیا تھا۔ سینئر سٹیزن ویلفیئر کونسل کا قیام اس بل کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔ قارئین کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ نادرا کے توسط سے 65 سال سے زائد عمر کے شہریوں کو ''آزادی کارڈ'' جاری کیے جائیں گے جس کے ذریعے انھیں سستے نرخوں پر سفری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ بزرگ شہریوں کے لیے سیاحتی دوروں کا اہتمام بھی کیا جائے گا اور انھیں ملازمتیں بھی مہیا کی جائیں گی۔ نیز یہ کہ حکومتی سطح پر اسپتالوں اور کلینکس میں بزرگ شہریوں کے علاج معالجے کا خصوصی انتظام بھی کیا جائے گا اور ''آزادی کارڈ'' کے حامل سینئر سٹیزنز کو میڈیکل اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر دوائیں بھی مہیا کی جائیں گی۔
مزیدبرآں سینئر سٹیزن ویلفیئر کونسل وزارت زکوٰۃ و عشر اور بیت المال کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت بزرگ شہریوں کی مالی اعانت بھی کرے گی، علاوہ ازیں بینکوں اور نیشنل سیونگز سینٹرز میں بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی سہولیات مہیا کی جائیں گی اور ٹرانسپورٹ، ریلوے اور پی آئی اے کے کرایوں میں انھیں خصوصی رعایات دی جائیں گی۔ افسوس کہ اب تک سندھ اسمبلی اس بل پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جب کہ اس کی آئینی مدت اختتام کو پہنچنے والی ہے۔ ہمارا اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے یہ سوال ہے کہ جب انھوں نے بزرگ شہریوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا تو پھر آیندہ عام انتخابات میں وہ کس منہ سے بزرگ شہریوں سے اپنے حق میں ووٹ مانگنے جائیں گی۔
پاکستان میں بزرگ شہریوں کی آبادی ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے مگر یہ دنیا کا وہ ملک ہے جہاں بزرگ شہری خصوصی مراعات سے مسلسل محروم ہیں۔ یہاں عام آدمی کے لیے بڑھاپے کی پینشن کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے ۔
ہمیں ابھی حال ہی میں اپنے قومی شناختی کارڈ کی تجدید کے لییایک دفتر جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی بزرگ شہری دھکے کھا رہے تھے۔ کوئی ان کا پرسان حال تو کیا ہوتا ان کے ساتھ تمیز کے ساتھ گفتگو تک کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کے علاوہ یہ عقدہ بھی کھلا کہ 65 سال سے زائد عمر کے بزرگ شہریوں کو بھی تاحیات کے بجائے محض آیندہ سات سال کے عرصے کے لیے شناختی کارڈ جاری کیے جارہے ہیں جن کی تجدید کی زحمت انھیں زندہ رہنے کی سزا کے طور پر پھر اٹھانی پڑے گی۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ وہ جو پہلے نادرا کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ 65 سالہ یا اس سے زیادہ عمر کے بزرگ شہریوں کو تاحیات شناختی کارڈ جاری کیے جائیں گے وہ محض جھوٹا وعدہ تھا جس پر گلے شکوے کے طور پر صرف صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی ہے۔
ہم بزرگ شہریوں کی جانب سے اس کالم کے ذریعے حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی رخصتی سے پہلے وہ کم ازکم سینئر سٹیزن بل کو تو قانون کی شکل دے دے۔ اس کے علاوہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے بھی پرزور اور دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ 75 سال کی عمر کو پہنچنے والے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین سے متعلق حالیہ فیصلے پر عمل درآمد کا اہتمام فرمائیں۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں سے بھی یہ اپیل ہے کہ وہ اپنے منشور میں بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کو اولیت دیں تاکہ بزرگ شہریوں سے ووٹ حاصل کرنے کا کوئی اخلاقی جواز پیدا ہو۔ اپنے قومی میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ وہ بزرگ شہریوں کے مسائل کو بار بار اور نہایت پرزور انداز میں نمایاں کرے تاکہ ہمارے سیاسی قائدین اور حکومتی ادارے اس جانب بھرپور توجہ دینے پر مجبور ہوجائیں۔ آخر میں اپنی نوجوان نسل کے لیے یہ ہدایت یا نصیحت ہے کہ وہ بزرگوں کے احترام کو اپنا شعار بنائیں اور یہ یاد رکھیں کہ ایک نہ ایک دن انھیں بھی بوڑھا ہونا ہے۔