آصف زرداری کی باتیں
جب میاں صاحب کی حکومت تھی اور قانون پاس کر سکتے تھے تو اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے۔
www.facebook.com/shah Naqvi
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف سے ملاقات نہیں ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔ ڈائیلاگ کس سے کریں جو دھوکا دیتا ہے۔ کس طرح یقین دلاؤں کہ نواز شریف سے مفاہمت نہیں کر رہا۔ میاں صاحب سے میری کیا دوستی۔ میری دوستی تو جمہوریت سے ہے۔ میاں صاحب سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں لیا۔ جب بھی بات ہوئی جمہوریت کے لیے ہوئی ہے۔
انھوں نے بڑی اہم بات یہ کی کہ میں نواز شریف نہیں بلکہ پورے خاندان کو سیاست میں نہیں دیکھ رہا۔ عمران خان ابھی فل ٹاس کھیل رہے ہیں۔ جب نوبال پر آئیں گے پھر دیکھیں گے۔ جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے بھی کہا کہ شریف خاندان اگر پیپلز پارٹی سے ریلیف چاہتا ہے تو انھیں پیپلز پارٹی سے ریلیف نہیں ملے گا۔ جب کہ اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کسی نااہل شخص کی تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔
انھوں نے کہا کہ میاں صاحب کا حکومت میں رہ کر اپوزیشن کرنا عجیب لگتا ہے۔ میاں صاحب کے احتجاج سے ان کے اعمال ہر گز چھپنے والے نہیں۔ تین بار وزیراعظم بننے والا 63,62 میں تبدیلی نہیں لا سکا۔ اب نااہل ہونے کے بعد اس کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس وقت اس مسئلے کو اٹھانے کا اصل مقصد پانامہ سکینڈل اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جس کا ہم حصہ نہیں بنیں گے۔ پیپلز پارٹی نواز شریف کے ساتھ نہیں بلکہ جمہوریت کے ساتھ ہے۔ میاں صاحب جب حکومت میں تھے تو انھیں پارلیمنٹ کیوں یاد نہیں آئی۔ اب وہ آرٹیکل 62,63 ختم کرانا اور حکومت میں رہ کر اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں۔
جب میاں صاحب کی حکومت تھی اور قانون پاس کر سکتے تھے تو اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے۔ نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ کالعدم تنظیمیں سیاسی جماعتیں بنا رہی ہیں جو قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ نواز شریف اب دن میں اقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم کسی بھی صورت مسلم لیگ ن کے لیے لچک نہیں رکھتے اور نہ ہی اتحاد کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کا اس پریس کانفرنس کا اہم ترین فقرہ یہ تھا کہ ''کس طرح یقین دلاؤں کہ نواز شریف سے مفاہمت نہیں کر رہا''۔ اس سے پہلے یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ زرداری وطن واپسی پر نواز شریف سے مفاہمت کر لیں گے۔ یہ اہم پیغام پاکستان کی اصل قوتوں کو پہنچ گیا ہے۔ اب نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہونا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں۔ دوسرا اہم فقرہ یہ تھا کہ مستقبل میں نواز شریف خاندان کو سیاست میں نہیں دیکھ رہا، نواز شریف کی نااہلی سے سیاست کے اس طویل دور کا خاتمہ ہو گیا جس کا آغاز ضیاء الحق کی اس دعا سے ہوا تھا کہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے۔
آصف زرداری نے الزام لگایا کہ نواز شریف پھر وہ کرتے رہے جو نادیدہ قوتیں چاہتی تھیں، ایک دو نہیں بیس سال تک وہ نادیدہ قوتوں کے ساتھ چلتے رہے، یہاں تک جمہوریت اپنے ہی خون سے تربتر ہو گئی، آج نواز شریف کا جمہوریت کے لیے دہائیاں دینا کچھ اچھا نہیں لگتا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جمہوریت نہیں نواز شریف اور ان کے خاندان کی سیاسی بقا خطرے میں ہے۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس میں ان کے اور ان کے خاندان کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ اس ملک میں عوامی حمایت کسی کو نہیں ملی۔
بھٹو کی عوامی حمایت تو پورے ملک میں تھی۔ نواز شریف کی حمایت تو زیادہ تر سینٹرل پنجاب میں ہے۔ عوامی حمایت تو بھٹو کو نہیں بچا سکی تو نواز شریف کو کیسے بچا لے گی جس کو پنجاب کے سرکاری مسائل پر اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ جس طرح معاملات آگے چلتے نظر آ رہے ہیں اس عوامی حمایت سے بھی نواز شریف دور ہو سکتے ہیں۔ یہ ایڈونچر سیاسی خود کشی کے سوا کچھ نہیں۔
58-2 بی ہو یا آرٹیکل 62,63 یہ صرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ہی نہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے لیکن ہمارے زیادہ تر سادہ لوح دانشور تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان سے باہر قدم رکھتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ دنیا کب کی گلوبل ویلج بن چکی لیکن جب گلوبل ویلج نہیں تھی تب بھی پاکستان عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ناگزیر ضرورت تھا۔
آزادی کے ساتھ بھارت میں مسلسل جمہوریت اور پاکستان میں آمریت اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی۔ کیسا زبردست بندوبست ہے۔ ان خوفناک حقائق کو نظرانداز کرکے آپ احتجاج تو کر سکتے ہیں سویلین بالادستی کا نعرہ لگاتے ہوئے لیکن بلین ڈالر کا سوال یہاں پر یہ ہے کہ سویلین بالادستی عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھی ضرورت بنی ہے یا نہیں؟ اس کا تو ابھی مستقبل قریب میں بھی امکان نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ اور ابھی تو ایک بڑی جنگ ہونے کی تیاریاں ہیں شام لبنان اور ایران کی قوت کے خاتمے کے لیے۔ غیر سویلین بالادستی میں مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کی بقا پوشیدہ ہے۔ پاکستان میں سویلین بالادستی مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے پاکستان میں نہ جاگیرداری قبائلی نظام ختم ہو گا اور نہ نئے صوبے بن سکیں گے۔
پاکستان کو سویلین بالادستی کب نصیب ہو گی۔ اس حوالے سے پاکستان 018ء اور 019ء میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997