تہواروں کا احترام
ہم خود سنت ابراہیمی کی اصل روح کو بھلا بیٹھے ہیں نوجوان نسل اس سے ناآشنا ہوچکی ہے
ISLAMABAD:
سپرہائی وے پر مویشی منڈی کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ شہری جوق در جوق مویشی دیکھنے وی آئی پی بلاکس میں موجود خوبصورت جانوروں کو دیکھنے اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنوانے کے لیے مویشی منڈی کا رخ کر رہے ہیں جن میں عورتیں، بچے، نوزائیدہ بچے، بزرگ اور نوجوان سب شامل ہیں۔ مویشی منڈی کی سیر تفریحی سہولیات سے محروم کراچی کے شہریوں خصوصاً نوجوانوں کی تفریح کا مرغوب مقام بن چکی ہے جس میں خریداروں سے زیادہ تعداد تفریح کے لیے آنے والوں کی ہوتی ہے۔
پہلے کراچی کے مختلف علاقوں میں قربانی کے جانوروں کی عارضی منڈیاں لگا کرتی تھیں شہری وہیں سے قربانی کے جانور باآسانی خرید لیا کرتے تھے۔ اس دینی فریضے میں نمود و نمائش اور لوٹ کھسوٹ کا اتنا عنصر موجود نہیں تھا پھر حکومت کی جانب سے رہائشی علاقوں میں موجود بھینسوں کے باڑے اور مویشی منڈیاں شہر سے باہر مرکزی جگہ پر منتقل کردی گئیں جس کی وجہ سے شہریوں کو کچھ پریشانیاں تو ہوئیں لیکن وہ بہت سے شہری مسائل سے محفوظ ہوگئے۔ کراچی کی انتظامیہ نے اپنے طور پر مرکزی مویشی منڈی کے لیے اچھے اقدامات کیے ہیں۔
منڈی کے لیے 1800 ایکڑ پر محیط علاقہ مختص کیا گیا ہے جس میں وی آئی پی سمیت 26 بلاکس قائم ہیں منڈی آنے والے بیوپاریوں اور خریداروں کے لیے کارپارکنگ، روشنی، پینے کے صاف پانی کی سہولیات کا اعلان کیا گیا ہے۔ مویشی منڈی کے اندر گھومنے کے لیے کاروں کے لیے 5 ہزار اور موٹرسائیکلوں کے لیے 3 ہزار روپے کے اسٹیکرز کا اجرا کیا گیا ہے جو پورے سیزن کے لیے کارآمد ہوگا۔
منڈی میں لائے جانے والے جانوروں کے طبی معائنے اور ہیلتھ سرٹیفکیٹ کے اجرا جانوروں کو اتارنے کے لیے ریمپس اور ان کے لیے پانی، روشنی، صفائی ستھرائی اور سیکیورٹی انتظامات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ مگر یہ شکایات عام ہیں کہ کراچی کی بلدیہ عظمیٰ، محکمہ صحت، لائیو اسٹاک اور فشری نے کانگو وائرس و دیگر وبائی امراض کی روک تھام کے لیے تاحال کوئی انتظامات نہیں کیے ہیں وبائی امراض اور بیماریوں کے شکار جانوروں کو چیک کرنے کے بجائے 400 روپے فی جانور وصول کرکے بغیر ویکسی نیشن اور اسپرے کے ہیلتھ سرٹیفکیٹ جاری کرکے منڈی میں داخل کیا جا رہا ہے۔
انٹری فیس کی اس وصولی کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فیس ہیلتھ سرٹیفکیٹ اور ویکسی نیشن کے نام پر لی جاتی ہے لیکن چیکنگ کا ویکسی نیشن کا کوئی انتظام نہیں ہے فیس کی وصولی کا ٹھیکہ بھی پرائیویٹ کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔ بیمار جانور منڈی میں جاکر دوسرے جانوروں اور انسانوں کو بھی متاثر کریں گے پچھلے سال کانگو وائرس سے کئی اموات واقع ہوئی تھیں۔ 5 سال قبل آسٹریلیا سے درآمد شدہ بھیڑوں کا اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں حکومت سندھ نے درآمد شدہ 21 ہزار بھیڑوں کو بیمار اور ان کے گوشت کو انسانی صحت کے لیے مضر قرار دے کر اپنی تحویل میں لے کر فوری طور پر ان کی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
ان بھیڑوں کی ہلاکتوں کے لیے ہنگامی طور پر شہر بھر سے قصابوں کو ٹرکوں میں بھر بھر کر لایا گیا۔ بلڈوزر اور ہیوی مشینری منگوا کر بڑے بڑے گڑھے کھودے گئے، ہزاروں بھیڑوں کی زندگیاں تلف کردی گئیں۔ ہزاروں بھیڑیں حکومتی تحویل سے غائب کردی گئیں۔ درآمدی کمپنی کا ایم ڈی ان بھیڑوں کے صحت مندی کا سرٹیفکیٹ لے کر پاکستان پہنچا اور تمام الزامات کو مسترد کردیا۔ ہائیکورٹ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا لیکن اس دوران ہزاروں بھیڑیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ کسی معاملے پر حکومتی محکموں کی غیر معمولی پھرتیاں اور دلچسپیاں اور کچھ معاملات پر نشاندہی کے باوجود ان سے آنکھیں موند لینا بڑا معنی خیز اور سمجھ سے بالاتر عمل ہے۔
مویشی منڈی میں بڑی تعداد میں چینی باشندے موبائل فونز، بسکٹ ودیگر اشیا فروخت کر رہے ہیں جن کی موجودگی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی رسک قرار دیا ہے جب کہ منڈی میں افغان باشندے تو کئی سالوں سے کھلے عام کاروبار کر رہے ہیں۔ پارکنگ کی گاڑیوں سے چوری اور اندھیرے اور اطراف کے راستوں پر ڈکیتی کی وارداتوں کی شکایات مل رہی ہیں، منڈی میں دہشت گردی کی وارداتوں کا بھی خطرہ ہے۔ گو کہ وزیر داخلہ نے سپرہائی وے منڈی کے راستوں پر اسنیپ چیکنگ اور پکٹنگ کا عمل تیزکرنے اور شہر بھر میں سیکیورٹی اقدامات کو ہائی الرٹ رکھنے اور غیر قانونی مویشی منڈیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ رہائشی علاقوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر قائم منڈیاں ختم اور ان کے سرپرستوں کو گرفتار کیا جائے۔
عوامی راستوں اور مرکزی شاہراہوں پر جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور ٹریفک میں خلل نہ پڑنے دیا جائے، لیکن اس کے باوجود منڈی کے اطراف میں ڈاکو اور جرائم پیشہ عناصر آنے جانے والے لوگوں سے لوٹ مار کر رہے ہیں ،گزشتہ دو ہفتوں سے شہر میں اسٹریٹ کرائمز اور بینک ڈکیتیوں کی وارداتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔
قربانی کے دینی فریضے کی روح اور فلسفہ اللہ کی اطاعت وبندگی اور اپنی تمام خواہشات کو قربان کرکے اللہ کی خوشنودی و قرب حاصل کرنا ہے جس طرح حضرت ابراہیمؑ آتش نمرود میں کودے سو سال کی عمر میں اپنے مرادوں سے مانگے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کیا، لیکن آج کل قربانی کا فریضہ نمود و نمائش، بڑائی و خودنمائی، جشن اور دھینگا مشتی کے تہوار کی صورت اختیارکرتا جا رہا ہے جس میں تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور طبقات شامل ہیں جانور بیچنے والے، جانور خریدنے والے متعلقہ کنٹرولنگ ادارے اور اہلکار، کھالیں چھیننے اور جمع کرنے والے، قصاب، بھتہ گیر اور چور ڈاکو سب شریک ہیں۔
ہم خود سنت ابراہیمی کی اصل روح کو بھلا بیٹھے ہیں نوجوان نسل اس سے ناآشنا ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں میں یہ مذہبی فریضہ ایک جشن کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ شہر کی گلیوں میں جابجا قربانی کے جانوروں کے لیے قناتیں لگا کر راستے بند کردیے جاتے ہیں جہاں نوجوانوں کی ٹولیاں تاش، لیڈو و دیگر مشاغل اور شور شرابہ میں مصروف نظر آتی ہیں جس سے راہگیر اور مکین اذیت کا شکار ہوتے ہیں کہیں قربانی کے جانوروں کو بالائی چھتوں سے کرین کے ذریعے اتارنے کے کرتب ہوتے ہیں تو کہیں کسی جانور کے لیے Jabro Comming Soon اور Jabre Comming On کے بورڈ آویزاں کیے جاتے ہیں۔
ہمارے مذہبی اور قومی تہوار جشن، ہلڑ بازی اور دھینگا مشتی کا روپ دھارتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں یوم آزادی کے موقع پر منچلے جس طرح مادر پدر آزادی کے ساتھ طوفان بدتمیزی برپا کرتے رہے اس کی کسی مہذب معاشرے میں مثال نہیں ملتی۔ بغیر سائلنسر کی گاڑیاں شاہراہوں پر موٹرسائیکلوں کے کرتب، ریسنگ، ون ویلنگ اور خود پیدا کردہ ٹریفک جام نے سفر کرنے والے شریف شہریوں اور گھروں میں موجود بیمار اور ضعیف افراد کو ذہنی کرب و ایذا میں مبتلا رکھا۔ چھ نوجوانوں کی زندگیاں اس ہل ہڑپہ کی نذر ہوئیں سیکڑوں زخمی ہوئے نوجوان طبقہ تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد سے نابلد ہوتا جا رہا ہے انھیں نہیں معلوم کہ یہ ملک کیوں بنایا گیا تھا 20 لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ کس لیے دیا تھا ہزاروں عصمتیں تار تار کیوں ہوئی تھیں وہ علامہ اقبال، جوہر، حالی، شبلی اور نواب سلیم اللہ جیسی شخصیات سے ناواقف یا لاتعلق ہوچکے ہیں۔
لسانیت، فرقہ پرستی اور سیاست ہمارے دین و ایمان اور اصول و قانون پر حاوی ہوچکی ہیں ہم میں 70 سال پہلے جو دینی و قومی رمق موجود تھی وہ بھی ماند پڑچکی ہے جس کی وجہ سے عصبیت، لسانیت، فرقہ پرستی، غربت، جہالت، بے روزگاری، ناانصافیوں اور تاریکیوں نے ہمارے گھروں پر ڈیرے ڈال لیے ہیں لیکن ہم خود احتسابی اور اپنا جائزہ لینے پر آمادہ ہونے کی بجائے اپنی اپنی مستیوں میں ہیں جو ایک خطرناک رجحان ہے جس پر ارباب اقتدار و اختیار، دانشوروں، علمائے کرام کو فوری توجہ دینی چاہے۔